متُھرا کی عدالت کا فیصلہ اور آئین

"آئین اور آئینی سوچ صرف کاغذ پر لکھے الفاظ نہیں ہیں. اسی سوچ کے ساتھ ہمیں جینا ہے اور اسی سوچ کو آگے بڑھانا ہے. ٹھیک ویسے ہی جیسا متھرا کی عدالت نے بدھ کو اپنے فیصلہ میں کیا"۔

مضمون: صارم نوید؛ سینیر وکیل (ہندی)

ترجمہ: عبداللہ ممتاز

"آئین اور آئینی سوچ صرف کاغذ پر لکھے الفاظ نہیں ہیں. اسی سوچ کے ساتھ ہمیں جینا ہے اور اسی سوچ کو آگے بڑھانا ہے. ٹھیک ویسے ہی جیسا متھرا کی عدالت نے بدھ کو اپنے فیصلہ میں کیا”۔

30 ستمبر بروز بدھ کو متھرا کی ضلعی عدالت نے ایک متنازع کیس خارج کردیا، مگر لکھنؤ کی سی بی آئی عدالت کے(بابری مسجد انہدام کیس) فیصلہ کی وجہ سے اس فیصلے پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی؛ لیکن یہ فیصلہ اُس فیصلے سے کہیں زیادہ اہم ہے، دراصل یہ کیس متھرا کی عیدگاہ کے خلاف کیا گیا تھا جس میں یہ دعوی کیا گیا تھا کہ عیدگاہ مسجد، کرشن دیو مندر کے حصے کو توڑ کر بنائی گئی تھی.
اس کیس میں یہ بھی دعوی کیا گیا تھا کہ بعد میں مراٹھاؤں نے مسجد توڑ کر واپس مندر بنادی تھی. 1968 میں "شری کرشن جنم استھان سیوا سنستھان” نے اس معاملے کے تحت "عیدگاہ ٹرسٹ” کے ساتھ سمجھوتہ کرکے تنازعہ کو حل کرلیا تھا. اب باون سالوں بعد کچھ لوگوں نے یہ کہتے ہوئے نیا مقدمہ درج کیا کہ پرانے کیس میں کچھ تکنیکی خامیاں رہ گئیں تھیں لہذا وہ سمجھوتہ قابل قبول نہیں ہے.

(ویسے تو کیس خارج کرنے کے لیے عدالت کے پاس دو مضبوط بنیادیں تھیں، ایک یہ کہ) قانوناً جائیداد تنازعات کے کیسیز عدالت میں بارہ سال کے اندر دائر کرنے پڑتے ہیں، (دوسرے) کسی پرانے کیس کے فیصلے کو نئے کیس میں بغیر کسی اپیل کے بدلا نہیں جاسکتا؛ لیکن بات ان مدعوں تک پہنچی ہی نہیں.

18/ ستمبر 1991 کو پارلیمنٹ میں ایک قانون "اپاسنا استھل ادھنیم” (عبادت گاہ ایکٹ) پاس کیا گیا تھا جس کی رو سے ہندوستانی آئین 15/ اگست 1947 کو ہر عبادت گاہ کے ڈھانچہ کی ‘کٹ آف ڈیٹ’ مانے گا.
اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی مذہبی مقام یا عمارت 15/ اگست 1947 کو جس مذہب کے ماننے والوں کے استعمال میں رہی ہے وہ حسب سابق اسی مذہب کے ماننے والوں کے استعمال میں رہے گی. اس قانون میں بس ایودھیا رام جنم بھومی کا استثناء کیا گیا تھا، اسی قانون میں، کسی بھی عبادت گاہ کے کردار کو بدلنے پر مکمل پابندی لگائی گئی ہے.
یہ قانون اس مقصد سے پاس کیا گیا تھا تاکہ کسی سیاسی یا غیر سیاسی مقصد کے لیے مندر ومسجد پر تنازعہ نہ کھڑا کیا جائے. یہی قانون اس نئے کیس کو فوری طور پر ختم کرنے میں کام آیا. ویسے کیس کو سرسری طور پر پڑھنے سے ہی اس میں ایسے بہت سے دلائل ملتے ہیں جو اس کیس کو کمزور ثابت کرتے ہیں،(ایک خاص بات یہ ہے کہ) اس کیس میں اورنگ زیب اور ہندو مسلم تنازعہ کا بار بار حوالہ دیا گیا ہے۔
اب یہ تنازعہ اصلی ہے یا فرضی، جب تک اس کا فیصلہ ہوتا تب تک کئی سیاسی روٹیاں سینکی جاچکی ہوتیں، لیکن عدالت نے ( فوری طور پر اپنی ذمہ داری کو اچھی طرح سے نبھاتے ہوے ) آئین اور قانون(عبادت گاہ ایکٹ) کی روشنی میں یہ فیصلہ دیا ہے. کیوں کہ "عبادت گاہ ایکٹ” کوئی معمولی قانون نہیں ہے.
گزشتہ سال ایودھیا رام جنم بھومی فیصلے میں سپریم کورٹ کی آئینی بنچ میں اس کے اصولوں کو آئین کے ‘بنیادی ڈھانچے’ کا درجہ دیا گیا ہے۔
اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ یہ قانون آئین کے بنیادی ڈھانچہ کے تحفظ کے لئے بنایا گیا ہے۔ اس کی اہمیت یہ ہے کہ پارلیمنٹ بھی آئین کی بنیادی شکل کو تبدیل نہیں کرسکتی، جب تک ہندوستان جمہوری ملک رہے گا تب تک آئین کے دیئے ہوے حقوق بھی باقی رہیں گے۔
سی بی آئی عدالت نے بابری مسجد شہادت کیس میں جو فیصلہ دیا وہ مسلم فریق کے لئے بہت مایوس کن تھا، اس فیصلے پر اپیل کی جاسکتی ہے؛ لیکن مایوس کن فیصلے کے ساتھ ساتھ اس طرح کے مثبت فیصلوں پر بھی دھیان دینا بہت ضروری ہے، آئین اور آئینی سوچ صرف کاغذ پر لکھے ہوئے الفاظ نہیں ہیں، ہمیں اس سوچ کو زندہ کرنا اور آگے بڑھانا ہوگا۔
ملک کی ترقی اور ملک میں رہنے والوں کی خوشحالی آئینی اصولوں پر چل کر ہی ممکن ہوسکے گی، آج کل سیاسی مدعوں کو کئی طریقوں سے پیش کیا جاتا ہے؛ لیکن اصل لڑائی صرف ایک ہی ہے، "آئین کا تحفظ اور آئینی سوچ کو فروغ دینا”، اس سے انکار کرنا سب سے بڑی غداری ہے، ملک کی ترقی کا دارومدار صرف اسی پر ہے، بدھ کے روز متھرا کی عدالت نے جیسا کیا ہے ایسے ہی آئندہ بھی آئینی سوچ ملک کے امن اور اہنسا(عدم تشدد) کا تحفظ کرتی رہے گی.

Comments are closed.