بھارت کاکریمنل جسٹس سسٹم

عبدالرافع رسول
جتنے بھی ناقابل تردید، ٹھوس اورمبرہن شواہدبھی کیوں نہ موجود ہوںلیکن کسی بھی طورپربھارتی عدلیہ بھارتی مسلمانوں کے حق میں کوئی فیصلہ نہیں سناتی کیونکہ مودی نے اسے خریدرکھاہے اوریہ زرخریدبھارتی عدلیہ انصاف کرنے میں حسب توقع جان بوجھ جی چرارہی ہے۔بابری مسجد شہید کرنے کے نتیجے میں بی جے پی کی زیرقیادت فرقہ وارانہ تشدد ہوا اور تشدد کے نتیجے میں ہزاروں مسلمان شہید ہوئے۔ لکھنو کی خصوصی عدالت نے بابری مسجد کیس کے جج سریندر کمار یادو نے پریزائیڈنگ آفیسر کی حیثیت سے 28 سال بعد30ستمبر 2020کو سنایا۔مذکورہ کیس میں ایل کے ایڈوانی، اوما بھارتی، مرلی منوہر جوشی اور سوامی چمیا نند سمیت 32 ملزمان کو نامزد کیا گیا تھا۔جج نے اپنے فیصلے میں کہا کہ کہ بابری مسجد کی شہادت کسی باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت نہیں کیا گیا تھا اس لیے تمام ملزمان کو بری کیا جاتا ہے۔لکھنو میں سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے جج ایس کے یادو نے بابری مسجد شہادت کیس میں سابق نائب وزیراعظم لال کرشن اڈوانی سمیت تمام 32 ملزمان کو بری کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا کہ استغاثہ نے ملزمین کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا۔دو ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل اپنے فیصلے میں جج نے کہا کہ بابری مسجد کا شہادت منصوبہ بند نہیں تھا۔ یہ سب کچھ اچانک ہوا اور سماج دشمن عناصر نے مسجد کو شہیدکردیا جبکہ ملزم رہنماوں نے ان لوگوں کو ایسا کرنے سے روکنے کی کوشش بھی کی تھی۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں مزید کہا ہے کہ سی بی آئی کے ذریعہ پیش کردہ آڈیو اور ویڈیو ٹیپ کی معتبریت ثابت نہیں ہوسکی، تقریر کی آڈیو بھی پوری طرح صاف نہیں ہے۔ اس کیس میں بری ہونے والے ایک ملزم جئے بھگوان گوئل نے عدالت کے باہرمیڈیا سے کہاہم نے مسجد توڑی تھی، عدالت اگر ہمیں مسجد شہید پر سزا بھی دیتی تو ہم اسے قبول کرتے اور ہمیں خوشی ہوتی۔ عدالت نے ہمیں سزا نہیں دی، یہ ہندو دھرم کی فتح ہے۔اس موقع پر جمع لوگوں نے ’’جئے شری رام ‘‘کے نعرے بھی لگائے۔92 سالہ لال کرشن اڈوانی نے ایک بیان جاری کر کے کہا میں خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ یہ فیصلہ نومبر 2019 میں سپریم کورٹ کے دیے گئے اس فیصلے کے مطابق آیا جس نے اجودھیا میں ایک عظیم الشان رام مندر کی تعمیر کا راستہ یقینی بنایا اور جس کا سنگ بنیاد 5 اگست2020 کو رکھا گیا تھا۔ اس فیصلے نے ان کی اور بی جے پی کی رام جنم بھومی تحریک کے حوالے سے ان کے اعتماد کو مزید مستحکم کیا ہے۔اس کیس میں بری ہونے والے ایک اور ملزم سابق مرکزی وزیر مرلی منوہر جوشی نے اسے تاریخی فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اب یہ ثابت ہوگیا ہے کہ یہ سب منصوبہ بند نہیں تھا۔ وزیر دفاع اور بی جے پی کے سابق صدر راج ناتھ سنگھ نے آج کے فیصلے کو انصاف کی فتح قرار دیا۔
سول سوسائٹی اور بھارت کی مسلم تنظیموں نے عدالت کے اس فیصلے کو بھارت کے’’ کریمنل جسٹس سسٹم ‘‘کی مکمل ناکامی اور انصاف کا خون قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ انتہائی افسوس ناک اور انصاف کا خون ہے۔ انہوں نے کہالوگوں کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونکا جاسکتا۔ آج بھی وہ لوگ زندہ ہیں جنہو ں نے اپنی آنکھوں کے سامنے بابری مسجد شہید ہوتے دیکھی ہے۔ وہ لوگ موجود ہیں جنہوں نے دیکھا کہ وہاں کیسے لاکھوں لوگ جمع کیے گئے اور پولیس کا کیا رول رہا۔ان کا کہنا تھا کہ بابری مسجد کے انہدام کے خاطرخواہ ثبوت موجود ہیں۔ان کاکہناتھاکہ عدالت کا یہ کہنا ناقابل فہم ہے کہ سی بی آئی نے خاطر خواہ ثبوت پیش نہیں کیے جب کہ سی بی آئی کے علاوہ بہت سے آزاد گواہوں، جن میں جائے واقعہ پر موجود صحافی بھی شامل ہیں، نے ویڈیوز کے فوٹیج پیش کیے تھے۔
ان کاکہناتھا کہ اگرعدالت یہ کہہ رہی ہے کہ سی بی آئی نے جو ثبوت دیے ہیں وہ معتبر نہیں ہیں توسی بی آئی نے واضح تصویریں کیوں نہیں فراہم کیں۔ صاف آواز والے آڈیو کیوں نہیں پیش کیے؟ دراصل پچھلے چند برسوں سے حکومت سی بی آئی جیسی آزاد ایجنسی کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کررہی ہے۔ اب حکومت ہی یہ طے کرتی ہے کہ سی بی آئی کو کس کے خلاف کارروائی کرنی ہے اور کسے چھوڑ دینا ہے۔
دراصل یہ بھارت کے عدالتی نظام کی شکست ہے۔ اگر سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں یہ مانتا ہے کہ بابری مسجد کی شہادت مجرمانہ کارروائی اور غیرآئینی تھی اس کے باوجود اسی زمین کو ان لوگوں کو دے دیتا ہے جنہوں نے مسجد شہید کی تھی تو یہ کس بات کا مظہر ہے؟ یہ مسلمانوں کی نہیں بلکہ انصاف کی شکست ہے۔
اس کیس کی چارج شیٹ میں بی جے پی کے سینئر رہنما لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی، کلیان سنگھ سمیت 49 افراد کے نام شامل تھے۔ ان میں سے17 مجرم مرچکے ہیں جبکہ بقیہ 32لوگوں کوفیصلے کے وقت عدالت میں موجود رہنے کے لیے کہا گیا تھا۔ تاہم اڈوانی اور جوشی سمیت چھ مجرموں کو ان کی عمر اور علالت کا خیال رکھتے ہوئے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ گھر سے ہی عدالتی کارروائی میں شامل ہونے کی اجازت دی گئی تھی۔
خیال رہے کہ بابری مسجدکی شہاسدت کے بعد 6 دسمبر 1992کو ہی دو ایف آئی آر درج کرائے گئے تھے۔ ایک ایف آئی آر میں نامعلوم افراد کے خلاف اور دوسرے میں آٹھ نامزد مجرمین کے خلاف معاملہ درج کیا گیا تھا۔ بعد میں 47 دیگر ملزمین کے نام شامل کیے گئے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے 2017 میں اس کیس کو دو سال کے اندر مکمل کرلینے کاکہا تھا۔ اپریل 2019 میں یہ مدت ختم ہوگئی تو اس میں مزید نو ماہ کی توسیع کردی گئی۔ بعد میں کورونا کی وجہ سے فیصلے میں تاخیر ہوئی۔ جج ایس کے یادو اس اہم فیصلہ کو سنانے کے بعد اپنے عہدے سے سبکدوش ہوگئے۔ انہیں ایک برس قبل 30ستمبر 2019کو ہی ریٹائر ہونا تھا لیکن سپریم کورٹ نے اس کیس کے لیے ان کی مدت کار میں توسیع کردی تھی۔
اب دیکھنایہ ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس گوگئی کی طرح ایس کے یادوکوکب راجیہ سھباکی سیٹ مل جائے گی۔خیال رہے کہ رواں سال جب بھارتی سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ جس کی قیادت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گوگئی کررہے تھے نے بابری مسجد کی جگہ رام مندربنانے کافیصلہ سنایاتواس کے بعد وہ ریٹائر ہوئے اورچندماہ بعد اسے مودی کی طرف سے جواعزاز ملاوہ یہ تھاکہ انہیں راجیہ سبھاکا رکن نامزدکردیاگیا۔

Comments are closed.