"یہ فخرِ ہندوستاں ہے جو باقی رہےگا سدا” (تحریرـ شہلا کلیم

"یہ فخرِ ہندوستاں ہے جو باقی رہےگا سدا”
(تحریرـ شہلا کلیم)
تاریخ کے صفحات ایسے انمول رتنوں سے بھرے پڑے ہیں جنہوں نے خواب بھی خود بُنے اور تعبیریں بھی خود تلاش کیں ـ ایسا اکثر ہوا ہے کہ عیش و آسائش کی زندگی بسر کرنے والے خاندانی لوگوں کی ناز و نعم میں پلنے والی اولادیں ناکارہ و نامراد ہوئیں اور جو یاس و محرومی اور غربت و مفلسی کی خاک سے اٹھے وہ بامِ عروج کو پہنچےـ وجہ تھی مقصدیت ـ زندگی میں کسی مقصد کا تعین اور اس کے حصول کی لگن ـ اپنی صلاحیتوں پہ اعتماد، مستقل مزاجی اور جہد مسلسل یہ وہ عناصر ہیں جن کی رسی کو مضبوطی سے تھام کر ماضی میں کامیاب افراد نے تاریخ کے صفحات روشن کیے اور حال و مستقبل میں بھی انہی عناصر کے حاملین کامیاب ترین افراد کی فہرست میں شامل ہیں اور ہوتے رہیں گےـ
تمہید اضافی ہے لیکن غیر ضروری نہیں کیونکہ ذکر کسی عام شخص کا نہیں بلکہ ایک ایسے عظیم "انسان” کا ہے جس نے لوگوں کو خواب دیکھنے اور پھر انکی تعبیریں ڈھونڈ نکالنے کی ترغیب دی ـ معمولی شکل و صورت مگر اعلی فہم و فراست کا حامل ایک ایسا بچہ جو مدراس کے جزیرہ نما قصبے رامیشورم کے ایک متوسط تامل گھرانے میں پیدا ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے ہندوستان بلکہ پوری دنیا میں اپنی غیر معمولی ذہانت کا لوہا منوا لیاـ ایک ایسا شخص جو نوجوانوں کے مستقبل کے لیے ہر آن فکر مند اور ہمہ وقت جد و جہد میں لگا رہاـ ایک ایسا عظیم لیڈر جو بیک وقت بہترین شاعر اور باکمال سائنس داں بھی رہاـ ایک ایسا انسان دوست جو سارے جہاں کا درد اپنے دل میں سموئے پھرتا رہاـ ایک ایسا جنونی جو ملک و قوم کو ہر صورت آسمان کی بلندیوں تک لے جانا چاہتا تھاـ ایک ایسا دردمند جو ہر فرد کے دل میں تعلیم کی شمع روشن رکھنا چاہتا تھاـ ایک ایسا بیدار جو جاگتی آنکھوں کے خوابوں پر یقین رکھتا تھاـ ایک ایسا سائنس داں جو بھارت کا پہلا میزائل مین قرار دیا گیاـ
بچے میں کچھ چیزیں طبعی طور پر والدین سے منتقل ہو کر آتی ہیں اور کچھ بلکہ بہت کچھ وہ خود حاصل کرتا ہےـ اے پی جے عبد الکلام کے والد محترم جین العابدین( زین العابدین ـ چونکہ مادری زبان تمل تھی اور اطراف میں ہندو، برہمن اور سادھو سنتوں کی کثرت تھی غالبا تلفظ یہی چل نکلا) کے پاس رسمی تعلیم زیادہ تھی نہ مال و دولت ـ لیکن اس کے باوجود وہ روحانی فیوض سے مالامال تھےـ آپکی والدہ آشی اما ایک مثالی خاتون تھیں کلام اپنی خود نوشت سوانح میں خود بیان کرتے ہیں:
” مجھے ان لوگوں کی صحیح تعداد تو یاد نہیں جنہیں میری ماں روزانہ کھانا کھلاتی تھیں ـ ہاں اتنا یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے خاندان کے تمام افراد سے زیادہ باہر کے لوگ ہوتے تھے جو ہمارے ساتھ کھانا کھاتے”
جو لوگ عبد الکلام کے مذہب کے سلسلے میں شش و پنج کا شکار ہیں انہیں چاہیے کہ وہ آپکی خود نوشت سوانح حیات ونگس آف فائر (پرواز ـــ مترجم حبیب الرحمن چغائی ) کا مطالعہ کریں جس میں آپ نے واضح طور پر جگہ جگہ اپنے مسلمان ہونے کا اقرار کیا اور اپنے گرد و پیش کے ماحول تہذیب اور مذہبی عقائد و احباب سے متعلق بڑے دلچسپ واقعات بیان کیے ہیں ـ عبد الکلام کے والد سادگی پسند تھے، نماز کے پابند، خدا پر کامل یقین، اور دین کی سمجھ بوجھ بھی رکھتے تھے ـ ماہی گیروں کو اپنی کشتی کرائے پر دیا کرتے تھے ـ
انسان دوستی، درد مند دل اور سادگی کے ساتھ ساتھ مقصد کو حاصل کرنے کی لگن بھی انہیں والدین سے ملی ـ
دوسری جنگ عظیم کے بعد جب آزادی کے آثار نظر آنے لگے اور پورے ملک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تب کلام صاحب نے اپنے والد سے رام ناتھا پورم کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرس میں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت طلب کی ـ والدہ بیٹے کی جدائی سے کچھ متردد ہوئیں تو والد صاحب نے خلیل جبران کی یہ حکایت سنائی:
"تمہارے بچے تمہارے بچے نہیں ہیں ـ یہ خود زندگی کی اپنی آرزو کے بیٹے بیٹیاں ہیں ـ یہ تمہارے ذریعہ آتے ہیں مگر تم سے نہیں ہیں ـ تم انہیں اپنی محبت تو دے سکتے ہو مگر اپنے خیالات نہیں کیونکہ خود انکے اپنے خیالات ہوتے ہیں ـ ”
اس کے بعد تینوں بھائیوں سمیت کلام صاحب کو مسجد لے جا کر قرآن مجید سے سورہ فاتحہ کی تلاوت کی اور ڈھیروں نصیحتوں اور دعاؤں کے ساتھ رخصت کیاـ
اور یوں عبد الکلام کے اعلی تعلیمی سفر کا آغاز ہواـ اور یہ سلسلہ کچھ ایسا درزا ہوا جو کبھی نہ تھماـ قابل رشک تعلیمی سفر کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب عملی زندگی نے آپکا استقبال کیاـ
ہندوستان کے پہلے سیٹیلائٹ طیارے کی لانچنگ ہو یا پہلے سیٹیلائٹ جہاز ایسیلوا کی لانچگ ہر فیلڈ میں کلام صاحب کی خدمات ناقابل فراموش ہیں ـ آپ کی زندگی کا بلکہ ہندوستان کا ایک بڑا اور اہم کارنامہ ۱۹۷۴ میں بھارت کا پہلا ایٹم بم تجربہ تھا جس کے باعث انہیں میزائل مین کہا جانے لگاـ
عبد الکلام کی سائنسی خدمات گنوانا گویا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے ـ وہ ایک جوہری سائسنداں ہی نہیں بلکہ ایک کامیاب سسیاست داں بھی تھے ـ تیسرے مسلمان صدر کی حیثیت سے بھارت کے گیارہویں صدر منتخب ہوئےـ آپکی صدارت کی مدت ۲۰۰۲ سے ۲۰۰۷ تک رہی ـ عوام کی محبت اور سیاسی کریئر کی کامیابی کی اس سے بڑی دلیل کیا ہوگی کہ نوے فیصد اکثریت کی جانب سے آپکو آزاد ہندوستان کا گیارہواں صدر منتخب کیا گیاـ
عبد الکلام کی خدمات کا دائرہ صرف سائنس اور سیاست تک ہی محدود نہیں رہا ـ آپ نے علم و ادب کی بھی گراں قدر خدمات انجام دیں ـ آپ بہترین شاعر اور اعلی پایے کے ادیب بھی تھے ـ آپ نے اپنی ادبی تصنیفات کو چار بہترین کتابوں میں پیش کیاـ
۱- ونگس آف فائر خود نوشت سوانح جس کا اردو ترجمہ "پرواز” کے نام سے حبیب الرحمن چغائی نے کیاـ
۲- انڈیا ۲۰۲۰ ـ اے وژن فار دی نیو ملینیم
۳- مائی جرنی شعری مجموعہ جسکا اردو ترجمہ میرا سفر کے نام سے جناب شکیل شفائی نے کیاـ
۴- اگینٹڈ مائنڈز ـ انگلیشگ دی پاور ودن انڈیا
ان کتابوں کا کئی ہندوستانی اور غیر ملکی زبانوں میں بھی ترجمہ ہو چکا ہےـ
کلام کی انہی خدمات کے پیش نظر حکومت ہند کی جانب سے ۱۹۸۱ میں آئی اے ایس کے ضمن میں پدم بھوشن اعزاز اور ۱۹۹۷ میں بھارت رتن سے نوازا گیا اس کے علاوہ اوم پرکاش بھانس اعزاز (۱۹۸۶) اور پدم وبھوشن سائنس و انجینئرنگ اعزاز سے بھی نوازا گیاـ عبد الکلام ہندوستان کے ایک ایسے سائنس داں ہیں جنہیں تیس یونیورسٹیوں اور اداروں سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگریاں مل چکی ہیں ـ
عبد الکلام ایک حساس دل کے مالک تھےـ ان کی شاعری میں ایک فکر ہے ، درد ہے ، سوز ہے، اور سائنس بھی ہےـ انکی حساس طبیعت اس بات سے ظاہر ہے کہ وہ زندگی کے ہر اہم واقعہ کے بعد اپنی ڈائری کے صفحات رنگین کرتے اور انگریزی میں کوئی نظم لکھ ڈالتےـ
اگنی پرواز کے واقعہ کو یوں بیان کرتے ہیں:
” آخر کار ہم کامیاب ہوئےـ یہ میری زندگی کا اہم ترین لمحہ تھاـ یہ محض ۶۰۰ سیکنڈ کی ایک شاندار پرواز تھی جس نے ایک آن میں ہماری ساری تھکن دور کر دی ـ برسوں کی محنت کا یہ ایک شاندار نقطہء عروج تھاـ میں نے اس رات اپنی ڈائری میں لکھا:
اگنی کو دیکھو نہ تم اس نظر سے
بلندی کی جانب رواں
نحوست مٹاتا
تمہاری طاقت کا اظہار کرتا
یہ اک شے ہے فقط
یہ سب ہے غلط!
قلب ہندی میں ہر دم دہکتی
یہ اک آتشِ جاوداں ہے
خدارا نہ سمجھو اسے
اک میزائل فقط
نازشِ ملک و ملت ہے یہ
باعثِ فخر و عزت ہے یہ
یہ فخرِ ہندوستاں ہے
جو باقی رہےگا سدا
لیکن کیا کیجیے ہمارا یہ قومی المیہ رہا ہے کہ ہم نے اغیار کے کسی شاہکار کی تخلیق پر داد و تحسین سے ان کے دامن بھر دیے اور وہ ہمارے لیے آئیڈیل ثابت ہوئےــ حقائق و دلائل سے واقفیت کیلیے زیادہ دور کیوں جائیے؟ پوری تاریخ کھنگالنے کی بجائے موجودہ حالات و واقعات کے تناظر میں محاسبہ کیجیےـ اسرو کے سربراہ "کے سیوان” کی زندگی کی پر سوز کہانیاں ہوں ، فیسبک کے بانی مارک زکربرگ کی کامیابیوں کے قصے ہوں یا وہاٹس ایپ کے بانی جین کوم اور ان کے ساتھی برائن ایکٹن کی دلگداز داستان حیات؛ ہر ایک کی زندگی کے واقعات پڑھ اور سن کر ہمارے دل پسیجے اور آنکھیں نم ہو گئیں اور انکے عظیم کارناموں پر داد و تحسین کے نعرے بلند کرنے سے خود کو نہ روک سکےـ اور روکنے کی ضرورت بھی کیوں پیش آئے؟ یہ ایک فن کار کا حق ہے کہ اسکے فن پارے کو سراہا جائے ، یہ ایک شاہکار کا کمال ہے کہ وہ آپکو کلمہء تحسین کی ادائگی پر مجبور کر دےـ چنانچہ ہم نے ایک تخلیق کار کی شخصیت و مذہب پر بحث کرنے کی بجائے اس کی تخلیق پر گفتگو کی ــ لیکن جب ذکر ہوا اے پی جے عبد الکلام یا ان جیسی بے شمار کارہائے نمایاں انجام دینے والی قومی شخصیات کا تو ہمارے دامن تنگ ہو گئےـ اور بجائے انکے کارناموں پر گفتگو کرنے کے ہم نے ان کے عقائد، فرقے ، طبقے ، مذہب و مسلک حتی کہ کاسٹ پر بھی بحث کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ـ اور صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس بحث کو طول دیتے ہوئے وہی گھسا پٹا سوال قائم کیا گیا کہ موصوف نے قوم کیلیے کیا کیا؟ جبکہ حقیقی سوال یہ ہے کہ بحثیت قوم ہم نے اور آپ نے کیا کیا؟ آخر پوری قوم کا بوجھ اس شخص کے کاندھوں پر کیوں ہو جو قوم کی قیادت کا کبھی دعویدار نہ رہا ہوــ وہ شخص بندوں کے سامنے اپنے عقائد کا جوابدہ کیوں ہو جس نے کبھی مذہب کی ٹھیکیداری نہیں کی اور جس نے تاحیات قول کی بجائے فعل پر فوکس رکھاـ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ فنکار کے فن پارے کو پس پشت ڈال کر ذات و عقائد پر بحث کیوں کی جائےــ عبد الکلام بھی انہی عظیم شخصیات میں سے ایک ہیں جن کی عظمت کا اعتراف ان کی قوم کے سوا پوری دنیا نے کیاـ تاہم اس حقیقت کی پردہ پوشی ممکن نہیں کہ جب سر زمین ہند کے متعصب فرقوں نے ترقی یافتہ دنیا میں مسلمانان ہند کی کارکردگی کی جانب سوالیہ نگاہوں سے دیکھا تو ہمارے پاس بیان کرنے کو اپنی سنہری تاریخ کے سوا کچھ نہ تھاـــ اور صدیوں قرنوں پر محیط سنہری داستانیں بیان کرتے کرتے ذہن صرف ایک نام پر اٹک کر رہ گیاـ اے پی جے عبد الکلام ـ اور بس یہی وہ لمحہ تھا جب یہ نام ہمیں اپنا لگا اور یہ شخص مسلمان! اور یہ کوئی حیران کن بات بھی نہیں، ہم ایسی خود غرض قوم ثابت ہوئے ہیں!
۱۵ اکتوبر ۱۹۳۱ کو تامل ناڈو میں پیدا ہونے والے ابو الفاخر زین العابدین عبد الکلام (مختصرا: اے پی جے عبد الکلام) ۸۳ برس کی عمر میں ۲۷ جون ۲۰۱۵ کو شیلانگ میں ایک تقریب کے دوران بندش قلب کی وجہ سے اپنے مالک حقیقی سے جا ملےـ
عبد الکلام نے جو نظم اپنے میزائیل کی کامیابی اور اسکی شان میں کہی تھی اسکی چند آخری سطور خود انکی ذات پر صادق آتی ہیں ــ
نازشِ ملک و ملت ہے یہ
باعثِ فخر و عزت ہے یہ
یہ فخرِ ہندوستاں ہے
جو باقی رہےگا سدا
Comments are closed.