القاضی

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ
طلبہ دارالعلوم الاسلامیہ امارت شرعیہ کا علمی، ادبی، فکری و ثقافتی دو ماہی ترجمان مئی، جون 2025ء کا شمارہ پیش نظر ہے، عموماً طلبہ مدارس جداری پرچے نکالتے ہیں، لیکن بزم قاضی مجاہد الاسلام سے منسلک طلبہ دارالعلوم نے مفتی محمد تبریز قاسمی استاذ دارالعلوم الاسلامیہ کی زیرنگرانی اور محمد زید کٹیہاری (مدیر) ذکوان القمر ویشالوی، محمد راشد دربھنگوی نائب مدیران کی ادارت میں بڑا حوصلہ دکھایا اور مثل مطبوعہ طلبہ کے مضامین کو القاضی کے نام سے رسالہ کی شکل میں قارئین کی خدمت میں پیش کردیا ہے، یہ ایک جرأت مندانہ قدم ہے اور بزم قاضی مجاہد الاسلام کے شرکاء اس کے لیے داد وتحسین کے مستحق ہیں۔
رسالہ کے مندرجات کو دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مضامین کے موضوعات میں خاصہ تنوع ہے، اکتیس صفحات میں بتیس مضمون نگاروں نے اس شمارہ میں جگہ بنالی ہے، وجہ ہر مضمون کا ایک صفحہ میں سمٹ جانا ہے، یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے، پھیلے ہوئے مواد کو مختصر میں سمیٹ لینا بہت مشکل ہوتا ہے، مدیر نے لمبے لمبے مضامین کو مختصر کرنے میں بڑی مہارت کا ثبوت دیا ہے، آدھے سے زیادہ مضمون کے مندرجات کو کاٹ کر مضمون کی معنویت کو باقی رکھنا آسان نہیں ہوتا، مضامین کو ایک ایک صفحہ؛ بلکہ بعض مضامین کو آدھے صفحہ میں سمیٹ کر اس مشکل کام کو آسان کر دکھایا ہے۔
رسالہ کے آغاز حسب روایت اداریہ سے ہوتا ہے، جس کا عنوان ”آؤ تھام لیں قلم“ رکھا گیا ہے، یہ چوں کہ پہلا شمارہ ہے اس لیے رسالہ کے مقاصد پر بھرپور روشنی ڈالی گئی ہے، ہم جستہ جستہ اس کے اقتباس نقل کرتے ہیں تاکہ رسالہ کے مقاصد قارئین کے سامنے آجائیں، لکھتے ہیں:
”یہ رسالہ تمہید ہے ایک فکری سفر کی، ایک علمی روایت کی تجدید کا آغاز ہے… اس سے نہ صرف علم میں اضافہ ہوگا، بلکہ اظہار کی صلاحیت بھی پروان چڑھے گی… یہ رسالہ ہمارے قلم کی حرارت، ہمارے جذبے کی صداقت اور ہمارے افکار کی روشنی سے جگمگائے گا“
یقینی طورپر اس رسالہ کی وجہ سے طلبہ میں لکھنے پڑھنے کا ذوق پروان چڑھے گا اور ایک دن ان کا شمار اہل قلم میں ہونے لگے گا، ایسی مجھے توقع ہے، رسالہ کے مندرجات دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں طلبہ کے ذوق کا بھی خیال رکھا گیا ہے، لطیفہ، معمہ، اشعار وغیرہ کی شمولیت اسی نقطۂ نظر سے کی گئی ہے، آئندہ سے اگر مضامین کی درجہ بندی موضوعات کے اعتبار سے کر دی جائے تو رسالہ کی ترتیب میں سلیقگی مکمل طورپر سامنے آئے گی، جیسے تعلیم کے موضوع پر جو مضامین ہوں، ان کو کوئی عنوان دے کر ایک ساتھ رکھا جائے، جن مضامین کا تعلق عصری حالات ومسائل سے ہیں ان کو ایک ساتھ رکھا جائے، فلسفیانہ قسم کے مضامین ایک جگہ آجائیں تو رسالہ کا حسن دوبالا ہوگا۔
طلبہ عزیز اس بات کا خیال رکھیں کہ ان کو اپنے مضامین میں معرب اور مفرس الفاظ، تتابع اضافات، غیر ضروری تمہید سے بہرصورت اجتناب کرنا ہے، مثلا اداریہ میں ایک لفظ آیا ہے، مابین الطلبہ اردو نثر میں یہ ترکیب ذوق سلیم پر بار ہے، ”طلبہ کے درمیان“ کتنا سادہ ہے، اور سہل بھی، اسی طرح کیا خدا کا وجود ہے میں ایک لفظ آیا ہے ”جماد لایعقل“ اس لفظ کو مدرسہ کا پڑھا ہوا ابتدائی درجہ کا طالب علم نہیں سمجھ سکے گا، چہ جائے کہ عوام، اسی مضمون میں ”مافوق الفطرت ہستی“ کو کتنے لوگ سمجھ پائیں گے۔
ایک اور کمی لکھتے وقت بچوں میں یہ آجاتی ہے کہ وہ انگریزی الفاظ کا استعمال کرنے لگتے ہیں، حالاں کہ اس انگریزی لفظ کا بہتر متبادل اردو میں موجود ہے، جیسے ٹارگیٹ کرنا وغیرہ اس کے لیے نشانہ بنانا جیسے الفاظ اردو میں مستعمل ہیں، مولاناوستانوی ایک ہمہ گیر شخصیت کی شروع کی چار پانچ سطریں جن کا تعلق تمہید سے ہے، اسے حذف کردینے سے مضمون کی اثرآفرینی پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے، حشو و زوائد کی پہچان یہی ہے کہ اگر اس جملے یا الفاظ کو درمیان سے یا شروع سے حذف کردیا جائے تو مضمون کے تسلسل اور روانی پر کوئی فرق نہ آئے۔
اطناب اور ایجاز نثر میں دونوں صنعتیں ہوا کرتی ہیں، اس پر ہمارے بزرگوں میں مولانا مناظر احسن گیلانیؒ کو کمال حاصل تھا، اطناب دیکھنا ہو تو سوانح قاسمی دیکھئے، حضرت مولانا یعقوب نانوتویؒ کا سولہ صفحہ کا ایک رسالہ حضرت نانوتویؒ کی حیات وخدمات پر ماخذ کے طورپر دیا گیا تھا، لیکن اس سولہ صفحہ کو حضرت نے پھیلایا تو کم وبیش سات سو صفحات تیار ہوگیے، اسی طرح ان کی کتاب ہندوستان میں مسلمانوں کے نظام تعلیم وتربیت پر ایک مضمون رسالہ دارالعلوم دیوبند کے لیے لکھنا تھا، فرصت کے ایام تھے، بغیر ذیلی عناوین اور عربی فارسی عبارتوں کے ترجمہ کیے بغیر، پیراگراف چینج بھی نہیں کیا اور سینکڑوں صفحات لکھ ڈالے، لیکن جب حضرت سیرت پر لکھتے ہیں تو ”النبی الخاتم“ ان کی ایجاز نویسی کا کمال ہے، حضرت مولانا علی میاں ؒ فرمایا کرتے تھے کہ اردو کیا، عربی ذخیرے میں ایسی البیلی کتاب نہیں ہے، طلبہ عزیز کو ابتدائی مرحلہ میں ایجاز سے ہی کام لینا چاہیے، ایجاز پر قدرت ہوجائے تو اطناب چنداں مشکل نہیں ہوتا۔
اس شمارہ میں ایک مضمون، مضمون نگاری کیسے کریں؟ پر بھی ہے، یہ اصلاً میرے اس محاضرہ کی تلخیص ہے، جو میں نے مفتی محمد تبریز صاحب کی دعوت اور مفتی یحیٰ غنی صاحب کے اصرار پر دارالعلوم الاسلامیہ کے طلبہ کے سامنے دیا تھا، طلبہ نے اسے محفوظ کرنے کے لیے نوٹس لیے تھے، گویا یہ مضمون اس محاضرہ کا خلاصہ ہے، محمد ثاقب جہان آبادی نے اپنی صلاحیت کے اعتبار سے اسے مرتب کیا ہے اور اسے فائدہ مند سمجھ کر شامل رسالہ کیا گیا ہے، اس کا آغاز بھی بھاری بھرکم الفاظ سے کیا گیا ہے، اسے آسان بنایا جاسکتا تھا۔
یہ چند سطور جو لکھے گیے وہ صرف ہدایت و رہنمائی کے طورپر ہیں ورنہ یقینی طورپر طلبہ کی یہ محنت اچھی ہے اور ان کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے، میرے ذہن میں حوصلہ افزائی کی ایک شکل اللہ رب العزت نے یہ ڈالی ہے کہ ہر شمارے کا جو سب سے اچھا اور معیاری مضمون ہو اور جسے متعین کرکے رسالہ کے نگراں مفتی محمد تبریز قاسمی صاحب میرے پاس بھیجیں، اس کو نقیب میں جگہ دی جائے، تاکہ طلبہ کی نگارشات نقیب کے ذریعہ دور تک پہونچیں، میں اس اہم کام کے آغاز پر بزم قاضی مجاہد الاسلام کے شرکاء کو مبارک باد دیتا ہوں اور ان کے لیے آگے اور آگے بڑھتے رہنے کی دعا کرتا ہوں، آمین یارب العٰلمین
Comments are closed.