نظریے کی بلندی، عمل کی پستی اور خیرِامت کا زوال

(مسلم دنیا میں اخلاقی انحطاط کے تاریخی و سماجی اسباب اور تدارک کی راہیں)

 

ازقلم: ڈاکٹر محمّد عظیم الدین (اکولہ، مہاراشٹر )

 

تاریخ کی عدالت جب قوموں کے عروج و زوال کے مقدمات کا فیصلہ سناتی ہے تو اس کی بنیاد محض مادی وسائل، جغرافیائی وسعت یا عسکری فتوحات پر نہیں ہوتی، بلکہ اس اخلاقی سرمائے پر ہوتی ہے جو کسی تہذیب کی روح کو تشکیل دیتا ہے۔ امتِ مسلمہ، جسے قرآن نے "خیرِ امت” یعنی بہترین امت کا وہ عظیم الشان لقب عطا کیا جس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی، اس کا مقصدِ وجود ہی انسانیت کے سامنے ایک اعلیٰ اخلاقی اور عملی نمونہ پیش کرنا تھا۔ یہ وہ امت تھی جسے "شہداء علی الناس” کے منصب پر فائز کیا گیا، ایک ایسی ذمہ داری جس کا مفہوم یہ تھا کہ وہ اپنے کردار و عمل کی سچائی سے دنیا پر حق کی گواہی دے۔ لیکن آج جب ہم اس بلند و بالا نظریے کے آئینے میں اپنے اجتماعی وجود کا عکس دیکھتے ہیں تو ایک گہری، اذیت ناک اور وسیع ہوتی خلیج نظر آتی ہے۔ یہ خلیج ہمارے افکار کی فلک بوس بلندی اور ہمارے اعمال کی شرمناک پستی کے درمیان حائل ہے۔ یہ مضمون اسی تہذیبی کشمکش کا ایک تنقیدی محاسبہ ہے، جہاں نظریہ، فکر اور قول و عمل کا جان لیوا تضاد ایک ایسے بحران کی صورت اختیار کر گیا ہے جو "خیرِ امت” کے تصور کو ہی چیلنج کر رہا ہے۔

 

اسلام کا بنیادی مقدمہ، اس کی دعوت کا نقطۂ آغاز اور اس کی تعلیمات کا ماحصل ہی یہ ہے کہ ایمان محض چند عقائد کا ذہنی اقرار یا زبان سے کیا گیا دعویٰ نہیں، بلکہ ایک ایسی زندہ اور متحرک حقیقت ہے جو انسان کے پورے وجود پر محیط ہو جاتی ہے۔ یہ وہ تبدیلی ہے جو اس کے دل کی دھڑکن سے لے کر بازار میں اس کے لین دین تک، اس کی سوچ کے زاویوں سے لے کر اس کے سماجی رویوں تک، ہر پہلو پر اثرانداز ہوتی ہے۔ قرآنِ مجید اس نکتے پر انتہائی سخت اور فیصلہ کن انداز میں متوجہ کرتا ہے۔ سورۃ الصف کی وہ آیات جن میں پوچھا گیا، "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ” (اے ایمان والو! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں؟)، محض ایک سوال نہیں، بلکہ ایک روحانی جھنجھوڑ ہے۔ یہ آیت ہمارے اجتماعی ضمیر پر ایک تازیانے کی طرح برستی ہے، کیونکہ اس کے فوراً بعد اللہ تعالیٰ کا غضبناک لہجہ سامنے آتا ہے: "كَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللَّهِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ” (اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ اور غضب کا باعث ہے کہ تم وہ کہو جو کرتے نہیں)۔ یہ قول و عمل کا تضاد، جسے اسلام کی اصطلاح میں ‘نفاق’ کی سرحدوں کو چھوتا ہوا جرم سمجھا گیا، کوئی معمولی اخلاقی کمزوری نہیں، بلکہ اللہ کے غضب کو دعوت دینے والا فعل ہے۔

 

نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ اقدس، جسے قرآن نے "اسوۂ حسنہ” قرار دیا، اسی قول و عمل کی مکمل ہم آہنگی کا لازوال نمونہ تھی۔ آپؐ کی پوری زندگی آپؐ کی تعلیمات کی عملی تفسیر تھی۔ آپؐ نے جو کہا، سب سے پہلے خود اس پر عمل کرکے دکھایا۔ منافقت کی سب سے بڑی نشانیاں ہی یہ بیان کی گئیں کہ جب بولے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے، اور جب امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔ اس کے برعکس، آپؐ کی زندگی ان تمام اوصاف حسنہ (سچائی، امانت داری ، ایفائے عہد) کے کمال کا مظہر تھی۔ آپؐ کی سچائی ایسی تھی کہ آپؐ کے جانی دشمن بھی آپؐ کو "صادق” اور "امین” کہتے تھے۔ نبوت کے دعوے سے قبل جب آپؐ نے کوہِ صفا پر کھڑے ہو کر قریش سے پوچھا کہ اگر میں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک لشکر ہے تو کیا تم مان لو گے؟ سب نے یک زبان ہو کر کہا، "ہم نے آپ کو ہمیشہ سچ بولتے ہی پایا ہے۔”آپؐ نے عدل کا حکم دیا تو اس کا ایسا نمونہ پیش کیا جس کی مثال نہیں ملتی۔ قبیلہ بنی مخزوم کی ایک معزز خاتون فاطمہ نے چوری کی، اور جب اسامہ بن زیدؓ نے سفارش کی کوشش کی تو آپؐ کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا اور آپؐ نے وہ تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا: "تم سے پہلی قومیں اسی لیے ہلاک ہوئیں کہ جب ان میں کوئی بڑا آدمی جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی کمزور جرم کرتا تو اس پر قانون نافذ کرتے۔ خدا کی قسم! اگر محمد کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔” (بخاری و مسلم)۔ یہی وہ کردار کی طاقت تھی، یہی وہ قول و عمل کی ہم آہنگی تھی جس نے عرب کے تپتے صحراؤں سے ایک ایسی تہذیب کو جنم دیا جس کی روشنی نے صدیوں تک دنیا کو منور رکھا۔

 

تاریخ گواہ ہے کہ اسلام کی ابتدائی توسیع تلوار کے زور سے زیادہ کردار کی قوت سے ہوئی۔ جب مسلمان تاجر دیانت و امانت کا پیکر بن کر دنیا کے کونے کونے میں پہنچے تو ان کے عمل نے لاکھوں لوگوں کو اسلام کی حقانیت کا قائل کر دیا۔ انڈونیشیا اور ملائیشیا، جو آج دنیا کے سب سے بڑے مسلم اکثریتی ممالک ہیں، وہاں کوئی مسلم فوج نہیں گئی تھی، بلکہ مسلم تاجروں کے کردار کی خوشبو تھی جس نے دلوں کو مسخر کیا۔ اسی طرح، جب حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے دور میں اسلامی ریاست کی حدود چین تک پہنچیں تو وہاں کے بادشاہ نے ان کے عدل و انصاف کے قصے سن کر اپنے سفیروں کو بھیجا کہ وہ دیکھ کر آئیں کہ یہ کیسی حکومت ہے۔ یہ ہمارے اسلاف کا عملی نمونہ تھا، جو ان کے سچے ایمان کا بیّن ثبوت تھا۔

 

لیکن آج ہماری حقیقت کیا ہے؟ ایک تلخ اور تکلیف دہ موازنہ کیجیے۔ ہم دنیا میں سب سے زیادہ توحید پر لیکچر دینے والی قوم ہیں، مگر عملی زندگی میں شخصیت پرستی، گروہ پرستی،مسلک پرستی، اکابر پرستی، علاقائی عصبیت اور مفاد پرستی کے لاتعداد بتوں کی پوجا میں مبتلا ہیں۔ ہم عشقِ رسول ﷺ کے دعوے میں سب سے آگے ہیں، ہم لوگ محفلِ میلاد اور دینی و تبلیغی اجتماعات پر کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں، مگر آپ ﷺ کی بنیادی سنت،یعنی سچائی، امانت، صفائی، ایفائے عہد اور حسنِ اخلاق کو اپنانے میں سب سے پیچھے ہیں ۔ ہماری مساجد نمازیوں سے بھری ہیں، رمضان میں عبادات کا سماں ہوتا ہے، لیکن ہمارے بازار ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، ناپ تول میں کمی اور جھوٹی قسموں سے گونجتے ہیں۔ ہم صفائی کو نصف ایمان کہتے ہیں، لیکن ہمارے شہر گندگی کے ڈھیر بنے ہوئے ہیں، جو کسی بھی غیر مسلم سیاح کے لیے اسلام کا پہلا منفی تعارف بنتے ہیں۔ ہم مغرب کے خاندانی نظام کی شکست و ریخت پر تنقید کرتے ہیں، لیکن ہمارے اپنے معاشروں میں گھریلو تشدد، خواتین کے حقوق کی پامالی اور وراثت میں بیٹیوں کو ان کا شرعی حق نہ دینا عام رویے ہیں۔ یہ تضاد اتنا گہرا اور وسیع ہے کہ اب یہ ہماری اجتماعی نفسیات کا حصہ بن چکا ہے۔ ہم ایک ہی سانس میں رشوت کو "سحت” (جہنم کی آگ) قرار دیتے ہیں اور دوسری سانس میں اپنا کام نکلوانے کے لیے اسے "چائے پانی”،”ہدیہ”،”تحفہ”،”ڈونیشن”،”خدمت”یا "نذرانہ” کا خوبصورت نام دے کر جائز بنا لیتے ہیں۔ یہ ایک ایسی اجتماعی منافقت ہے جس نے ہماری روح کو کھوکھلا، ہمارے معاشرتی ڈھانچے کو کمزور، اور ہماری دعاؤں کو بے اثر کر دیا ہے۔

 

اس زوال کی جڑیں تاریخ میں بہت گہری ہیں۔ خلافتِ راشدہ کے بعد جب حکومت کی نوعیت اخلاقی اور شورائی سے بدل کر موروثی اور شاہانہ ہو گئی تو سیاست اور اخلاق کے راستے جدا ہو گئے۔ دین کو عوامی زندگی کے پیچیدہ معاملات سے الگ کر کے ذاتی عبادات اور خانقاہی رسومات کے دائرے میں قید کر دیا گیا۔ اس نے ایک ایسی ذہنیت کو جنم دیا جو دین کو زندگی کے ایک شعبے (عبادات) تک محدود سمجھتی ہے اور باقی شعبوں (معیشت، سیاست، سماجیات) کو اس سے آزاد۔ دوسرا بڑا صدمہ نوآبادیاتی دور تھا۔ استعماری طاقتوں نے نہ صرف ہماری زمینوں پر قبضہ کیا بلکہ ہمارے ذہنوں پر بھی تسلط قائم کیا۔ انہوں نے ایک ایسا سیکولر نظامِ تعلیم متعارف کرایا جس نے دین کو ایک پرائیویٹ اور ذاتی معاملہ بنا دیا۔ اس نے مسلمانوں میں ایک ایسی "ذہنی دوئی” (Mental Schizophrenia) پیدا کی جہاں ایک شخص بیک وقت دو متضاد دنیائوں میں جیتا ہے: مسجد میں وہ ایک پرہیزگار مسلمان ہے، لیکن دفتر، عدالت اور بازار میں اس کے فیصلے اور اعمال مغربی سیکولر اقدار کے تابع ہوتے ہیں۔ اس فکری انتشار نے ہمیں اپنی شناخت کے ایک شدید بحران میں مبتلا کر دیا ہے۔

 

اس قول و عمل کے تضاد کے نتائج انتہائی تباہ کن ہیں۔ داخلی طور پر اس نے ہمارے معاشروں سے اعتماد کا رشتہ ختم کر دیا ہے۔ جب ایک شہری کو ریاست پر، ایک گاہک کو دکاندار پر، اور ایک سائل کو منصف پر اعتماد نہ رہے تو معاشرہ بکھر جاتا ہے۔ یہ بداعتمادی ہی ہماری معاشی پسماندگی، سیاسی عدم استحکام اور سماجی انحطاط کی بنیادی وجہ ہے۔ لیکن اس سے بھی بڑا نقصان بین الاقوامی سطح پر اسلام کی شبیہ کو پہنچا ہے۔ دنیا کے سامنے مسلمانوں کا عملی کردار ہی اسلام کا تعارف ہے۔ جب ایک غیر مسلم ایک ایسے مسلمان سے ملتا ہے جو جھوٹ بولتا ہے، وعدہ خلافی کرتا ہے، اور دھوکہ دیتا ہے، تو وہ لاشعوری طور پر یہی نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ شاید اس کا مذہب ہی اسے یہی سکھاتا ہے۔ آج دنیا میں اسلاموفوبیا کی لہر کے پیچھے جہاں متعصب مغربی میڈیا اور سیاسی ایجنڈے کارفرما ہیں، وہیں مسلمانوں کا اپنا منفی کردار بھی ایک بہت بڑا اور تلخ عنصر ہے۔ ہم دنیا کو یہ بتانے کا اخلاقی جواز کھو بیٹھے ہیں کہ اسلام امن، انصاف اور انسانیت کا مذہب ہے، کیونکہ ہمارا عمل ہمارے دعوے کی تائید نہیں کرتا۔ یہاں بے اختیارشاعرِ مشرق حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ کا وہ شہرہ آفاق شعر یاد آتا ہے جو ہماری پوری تاریخ کے عروج و زوال کی داستان بھی ہے اور ہمارے موجودہ المیے کی تشخیص بھی:

 

وہ زمانے میں معزّز تھے مسلماں ہو کر

 

اور تم خوار ہوئے تارکِ قُرآں ہو کر

 

یہاں "تارکِ قُرآں” سے مراد محض قرآن کی تلاوت کو ترک کر دینا نہیں، بلکہ قرآن کی روح، اس کے اخلاقی ضابطوں، اس کے نظامِ عدل اور اس کی عملی ہدایات کو اجتماعی زندگی سے بے دخل کر دینا ہے۔ یہ خواری اور رسوائی اسی عہد شکنی کا منطقی نتیجہ ہے جو ہم نے اللہ کی کتاب سے کی ہے۔

 

اس گہرے اور ہمہ گیر بحران سے نکلنے کا راستہ طویل اور کٹھن ہے، لیکن ناممکن نہیں۔ اس کا آغاز انفرادی سطح پر ایک تکلیف دہ خود احتسابی سے ہوتا ہے۔ ہر مسلمان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ دین کا مقصد محض عبادات کی ادائیگی نہیں، بلکہ ایک پاکیزہ، بااخلاق اور قابلِ اعتماد کردار کی تشکیل ہے۔ ایمان کا حقیقی امتحان مسجد کی چار دیواری میں نہیں، بلکہ بازار کی گہما گہمی، دفتر کی ذمہ داریوں اور سماجی تعلقات کی پیچیدگیوں میں ہوتا ہے۔ ہمیں دین کی روح، یعنی تقویٰ، اخلاص اور احسان کو اپنی زندگیوں کا محور بنانا ہوگا۔ دوسرا اور سب سے اہم قدم تعلیمی اور فکری نظام میں انقلابی اصلاحات ہیں۔ ہمارے تعلیمی نصاب کو اس طرح ترتیب دینے کی ضرورت ہے کہ وہ طلباء میں محض معلومات منتقل نہ کرے، بلکہ ان کی اخلاقی اور روحانی تربیت کرے۔ دین کی تعلیم کو جدید علوم سے ہم آہنگ کرکے اس طرح پیش کیا جائے کہ وہ زندگی کے تمام مسائل کا حل فراہم کرتی نظر آئے۔ تیسرا اور فیصلہ کن کردار علماء، دانشوروں اور قائدین کا ہے۔ انہیں فرقہ وارانہ اور سطحی مباحث سے بلند ہو کر امت کو درپیش حقیقی چیلنجز، خصوصاً اخلاقی بحران، پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔ انہیں اپنے قول و عمل سے اسلام کا سچا نمونہ پیش کرنا ہوگا، کیونکہ ایک عالم کا عمل ہزاروں خطبوں سے زیادہ مؤثر ہوتا ہے۔

 

خلاصہ یہ ہے کہ "خیرِ امت” کا زوال ہمارے نظریے یا فکر کی ناکامی کا نتیجہ نہیں، بلکہ اس نظریے اور فکر کو عملی زندگی میں منتقل کرنے میں ہماری اجتماعی ناکامی کا شاخسانہ ہے۔ یہ قول و عمل کا تضاد محض ایک اخلاقی کمزوری نہیں، بلکہ ہمارے اجتماعی وجود کے لیے ایک وجودی خطرہ ہے۔ جب تک ہم اپنے الفاظ کی حرمت کو اپنے اعمال کی پاکیزگی سے ثابت نہیں کرتے، تب تک نہ تو ہم دنیا میں عزت و وقار حاصل کر سکتے ہیں اور نہ ہی آخرت میں سرخرو ہو سکتے ہیں۔ اس بحران کا حل کسی مسیحا کے انتظار میں نہیں، بلکہ قرآن و سنت کی حقیقی تعلیمات کی طرف ایک مخلصانہ اور مسلسل جدوجہد میں مضمر ہے، جہاں ہر فرد اور ہر ادارہ اپنے دعوے کو اپنے کردار سے سچ کر دکھانے کا عزم کرے۔

Comments are closed.