آپ کے شرعی مسائل؟

فقیہ العصرحضرت مولاناخالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا * بانی وناظم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد
نماز جنازہ کے لئے تیمم اور اس سے نماز عصر کی ادائیگی
سوال:موجودہ حالات میں ہمارے متعلقین میں ایک صاحب کی کرونا سے وفات ہوگئی، قبرستان دور تھا اور وہیں جاکر نماز جنازہ پڑھنا تھا، اس میں کافی وقت لگ گیا، بعض حضرات جو وضو کرکے نکلے تھے، ان کا وضو باقی نہیں رہا، ایک عالم صاحب کے مشورہ پر ان صاحب نے تیمم کرلیا اور نماز ادا کرلی، پھر اسی تیمم سے عصر کی نماز پڑھ لی، بعد میں ایک صاحب نے شک کا اظہار کیا کہ شاید اس تیمم سے عصر کی نماز درست نہیں تھی، تو کیاان کو اس نماز کی قضا کرنی ہوگی؟
(محمد الیاس، قاضی پورہ)
جواب:
اگر کوئی شخص بیماری کی وجہ سے تیمم کرلے اور اس سے نماز جنازہ ادا کرلے تب تو وہ اسی تیمم سے دوسری نمازیں بھی ادا کرسکتا ہے؛ لیکن اگر پانی موجودنہ ہونے کی وجہ سے تیمم کرکے نماز جنازہ میں شریک ہوگیا، تو یہ تیمم پانی کے ملنے تک ہی کافی ہوگا؛ اگر عصر سے پہلے پانی دستیاب ہوگیا تو اب تیمم ختم ہوگیا اور اس سے کسی نماز کا ادا کرنا درست نہیں ہوگا، اور اگر پانی نہیں ملا تو اس سے نماز عصر ادا کرنا درست ہوگا: ’’بخلاف صلاۃجنازۃ، أی فإن تیممھا تجوز بہ سائر الصلوۃ لکن عند فقد الماء‘‘ (شامی، باب التیمم قبیل مطلب: فی تقدیر الغلوۃ: ۱/۴۱۳)
وبائی صورت حال کی وجہ سے مصافحہ کی ممانعت
سوال:کورونا کی وجہ سے ایک مسجد میں اعلان کیا گیا کہ لوگ ایک دوسرے سے مصافحہ نہ کریں، بعض احباب کو اس پر بہت اعتراض ہوا اور کہنے لگے کہ امام صاحب ایک سنت کو منع کررہے ہیں؟
(حیدر علی، کاچی گوڑہ )
جواب:
مصافحہ سنت ہے اور آپ ﷺ نے مصافحہ کی ترغیب دی ہے؛ اس لئے جن سے مصافحہ کرنے میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے، ان کو عام حالات میں مصافحہ سے منع کرنا درست نہیں؛ لیکن اگر مصافحہ سے ضرر کا اندیشہ ہو تو اس سے منع کیا جاسکتا ہے، کرونا وائرس کے بارے میں ماہرین کی تحقیق ہے کہ یہ ہاتھ کے لگنے سے بھی منتقل ہوتا ہے؛ اس لئے حفظان صحت کے نقطئہ نظر سے مصافحہ سے روکنا جائز ہے، رسول اللہ ﷺ نے متعدی امراض میں احتیاط کا حکم دیا ہے؛ چنانچہ آپ نے ارشاد فرمایاکہ بیمار اونٹ کو صحت مند اونٹ کے پاس نہیں لایا جائے، ’’لایوردن ممرض علی مصح‘‘ (بخاری، عن ابی ھریرۃؓ، حدیث نمبر: ۵۷۷۰)، ایک ،موقع پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مجذوم شخص سے اس طرح بھاگو جیسے شیر سے بھاگتے ہو، ’’وفر من المجذوم کما تفر من الأسد‘‘ (بخاری، باب الجذام، حدیث نمبر:۵۷۰۷)، ایک روایت تو خاص مصافحہ کے سلسلہ میں نقل کی گئی ہے، بنو ثقیف کا وفد خدمت اقدس میں حاضر ہوا، اس میں ایک صاحب جذام میں مبتلا تھے، رسول اللہ ﷺ نے ان سے اپنے ہاتھوں پر بیعت نہیں لی؛ بلکہ ان کو پیغام بھیج دیا کہ میں نے تم کو بیعت کرلیا ہے؛ اس لئے تم واپس لوٹ جاؤ، ’’إنا قد بایعناک فارجع‘‘ (مسلم، حدیث نمبر: ۲۲۳۱) ، لہذا صحت کے نقطئہ نظر سے امام صاحب کا یہ اعلان درست ہے، اس پر عمل کرنا چاہئے اور احتیاطی تدبیروں کو برا نہیں مانا چاہئے۔
نمکین سے کھانے کا آغاز
سوال :ہم لوگ بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ میٹھا کھانا سنت ہے؛ مگر ایک بیان میں ایک عالم صاحب نے کہاکہ کھانے کو نمکین سے شروع کرنا چاہئے، اس کی کیا حقیقت ہے؟
(محمد مستعد ، یاقوت پورہ)
جواب:
عالم صاحب نے صحیح کہا ، کھانا نمکین سے شروع کرنا اور نمکین پر ختم کرنا مستحب ہے ’’ من السنۃ أن یبدأ بالملح و یختم با لملح ‘‘ (الفتاوی الھندیۃ، الباب الحادي عشر فی الکراھیۃ فی الاکل وما یتصل بہ: ۵/۳۳۷)؛ اگر چہ اس سلسلہ میں بعض روایات نقل کی جاتی ہیں، مثلا یہ کہ اس کی وجہ سے انسان ستّر یا بہتّر بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے؛ لیکن علم حدیث کے ماہرین نے اس کو موضوعات یعنی ایسی روایتوں میں شمار کیا ہے، جس کا آپ ﷺ سے ثبوت نہیں ’’۔۔۔۔۔و لا یصح عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم شئی من ھذا؛ بل ذکرابن الجوزی أنہ حدیث موضوع‘‘ (الفقہ الحنفی فی ثوبہ الجدید: ۵/۵۱۷)
حکومت کی نیلام کی ہوئی چیز خریدنا
سوال: قانون کی خلاف ورزی کی وجہ سے حکومت بعض چیزیں ضبط کرلیتی ہے، ضبط کی جانے والی چیزوں میں زمین بھی ہے، مکان بھی ہے اور گاڑی بھی، پھر ایک عرصہ کے بعد اسے حکومت کی طرف سے نیلام کردیا جاتا ہے، کیا اس نیلام میں شریک ہونا اور ایسے سامان کو خریدنا جائز ہوگا؟ جب کہ حکومت زبردستی اس چیز کو اپنے قبضے میں لے لیتی ہے؟
(ظہیرالدین، بنگلور)
جواب :
حکومت جب کسی چیز کو اپنے قانون کے مطابق قبضے میں لے لے تو چاہے وہ قانون صحیح ہو یا غلط، اس پر حکومت کی ملکیت ثابت ہوجاتی ہے، اس کو فقہ کی اصطلاح میں ’’استیلاء‘‘ کہا جاتا ہے: ’’إعلم أن أسباب الملک ثلاثۃ: ناقل: کبیع و ھبۃ، و خلافۃ: کإِرث، واصالۃ: وھوالاستیلاء،‘‘ (الدرالمختار، کتاب الصید: ۶/۴۶۳)، لہذا گورنمنٹ کے نیلام میں شریک ہوکر کوئی چیز خریدنا مالک سے اس کی مملوکہ چیز خرید کی جاتی ہے، لہذا یہ صورت جائز ہے۔
راشن کارڈ پر حاصل کیا ہوا غلہ فروخت کرنا
سوال: حکومت راشن کارڈ پر سستا سامان فراہم کرتی ہے، اس کے لئے وہ خزانے سے نقصان برداشت کرتی ہے اور غریب عوام کو راشن کارڈ پر سامان فراہم کرتی ہے؛ لیکن اس کو بیچنے کی اجازت نہیں ہوتی، کیا کوئی شخص راشن کارڈ پرحاصل کی ہوئی چیز بیچ دے، تو اس کے لئے اس کی قیمت حلال ہوگی؟
(مصباح الدین، مہدی پٹنم )
جواب:
ملک کے شہری ہونے کی حیثیت سے ہم نے حکومت سے عہد کیا ہے کہ اس کے قانون کی پیروی کریں گے؛ لہذا شرعا بھی ہمارے لئے ملک کے منصفانہ قوانین کی پیروی کرنا واجب ہے، دوسرے: جب غریبوں کی مدد کے لئے حکومت قیمت کے اس نقصان کو برداشت کرتی ہے، اور اس کے لئے اپنے خزانہ سے خرچ کرتی ہے، جو عوام کی اجتماعی ملکیت ہے، تو اگر غیر مستحق شخص راشن کارڈ حاصل کرتا ہے یا راشن کو بیچ کر نفع حاصل کرتا ہے، تو وہ بہ حیثیت مجموعی تمام عوام کو نقصان پہنچاتا ہے؛ اس لئے راشن کا سامان بیچ دینا کراہت سے خالی نہیں ہے، نہ بغیر استحقاق کے لینا درست ہے اور نہ یہ درست ہے کہ استحقاق کی بناء پر راشن حاصل کرے اور خود استعمال نہ کرے دوسروں کو فروخت کردے؛البتہ جب کوئی شخص پیسہ دے کر خرید کر ہی لے تو وہ اس کا مالک ہوجاتا ہے، اور اگر وہ کسی اور کے ہاتھ اس سامان کو بیچ دے تو وہ دوسرا شخص بھی اس کا مالک بن جائے گا؛ اس لئے کراہت کے ساتھ اس کا یہ عمل درست ہوگا: ’’وأما حکمہ فثبوت الملک فی المبیع للمشتری، و فی الثمن للبائع إذا کان البیع باتا‘‘ (الفتاوی العالمگریۃ، کتاب البیوع: ۳/۳)
اگر بیٹے کے نام سے جائیداد خرید کرے اور اس کو مالک بنانے کی نیت نہ ہو
سوال:میرے ایک دوست نے اپنے ایک بیٹے کے نام پر مکان خرید کیا؛ لیکن ان کا ارادہ اس بیٹے کو مالک بنانے کا نہیں تھا، وہ کہا کرتے تھے کہ میں نے مصلحتا اس بیٹے کے نام سے رجسٹری کرائی ہے؛ مگر یہ تمام بچوں کا ہے، ان کے انتقال کے بعد اب ورثہ میں اختلاف ہوا کہ یہ صرف اسی بیٹے کی ملکیت ہے یا اس میں تمام اولادکا حق ہے، برائے کرم شرعی نقطئہ نظر واضح فرمادیجیئے؟
(حمید الرحمن قاسمی، بنگلور)
جواب :
اگر باپ نے اولاد میں سے کسی کے نام سے زمین خرید کی؛ لیکن اس کو مالک بنانے کی نیت نہیں تھی، تو صرف رجسٹری کرنے کی وجہ سے بیٹا اس کا مالک نہیں ہوا؛ ہاں اگراس کے نام سے زمین خرید لی ،یا اپنی زمین اس کے نام کردی اور کوئی ایسا قرینہ نہیں ہے جس سے یہ بات واضح ہو کہ رجسٹری کا مقصد مالک بنانا نہیں تھا، تو پھر یہ باپ کی طرف سے اس اولاد کے لیے ھبہ تصور کیا جائے گا؛ کیونکہ قانونا رجسٹری کا مقصد مالک بنانا ہی ہوتا ہے، آج کل اس طرح کے معاملات کثرت سے پیش آرہے ہیں، اور یہ چیز بعد میں ورثاء کے درمیان شدید نزاع کا باعث بن جاتی ہے؛ اس لیے اگر والدین کسی اولاد کے نام جائیداد خریدیں، تو ان کو چاہئے کہ اپنی نیت ورثاء کے سامنے واضح کردیں، اور بہتر ہے تحریر لکھ دیںتاکہ اس کی نیت کے مطابق عمل ہو۔
سلائی کے لئے کپڑے دئے اور کپڑے واپس نہیں لئے
سوال:مجھے ایک صاحب نے سِلنے کے لئے کپڑا دیا اور اس کی سلائی بھی دے دی؛ لیکن وہ کپڑا واپس لینے نہیں آیا، اس پر طویل عرصہ گزرگیا، میں اس شخص کو پہلے سے جانتا بھی نہیں تھا اور معلوم نہیں کہ وہ شخص زندہ بھی ہے یا نہیں؟
(ایاز احمد، دہلی)
جواب:
اس صورت میں بہتر یہ ہے کہ اگر آپ دوبارہ اس کی آمد سے ناامید ہوگئے ہوں توآپ اسے کسی ضرورت مند کو اصل مالک کے اجر کی نیت سے صدقہ کر دیں؛ البتہ اگر کبھی اصل مالک آگیا تو اس کی قیمت اس کو واپس کرنی واجب ہوگی:
’’فإن جاء صاحبھا و إلا تصدق بھا ایضا للحق إلی المستحق وھو واجب بقدر الإمکان و ذالک بإیصال عینھا عند الظفر بصاحبھا و إیصال العوض وھو الثواب علی اعتبار اجازتہ التصدق بھا وإن شاء أمسکھا وجاء الظفر بصاحبھا‘‘ (الھدایۃ، کتاب اللقطہ:2/ 615)
اگر زیور صدقہ کردے تو کیا گزشتہ زکوٰۃ معاف ہو جائے گی؟
سوال:میرے پاس نصاب زکوۃ کے بقدر سونا ہے؛ لیکن نقد پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے میں ان کی زکوۃ ادا نہیں کر پایا، اب اگر حساب کیا جائے تو شاید وہ زیور کی قیمت سے بھی بڑھ جائے؛ اگر ایسی صورت میں میں پورا زیور ہی کسی مستحق کو دے دوں، تو کیا گزشتہ سالوں کی زکوۃ ادا ہو جائے گی؟
(ماریہ، بنجارہ ہلز)
جواب
اگر آپ وہ پورا زیور ہی صدقہ کردیں تو پچھلے سالوں کی زکوٰۃ معاف ہو جائے گی: ’’فلو تصدق بالجمیع سقط الجمیع ‘‘(شرح العنایۃ علی ھامش فتح القدیر، کتاب الزکوۃ: 2/ 170)(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.