انسان کی ہر صلاحیت رہن ہے- محمد صابر حسین ندوی

انسان کی ہر صلاحیت رہن ہے-

 

محمد صابر حسین ندوی

[email protected]

7987972043

 

 

ہر انسان اپنے آپ میں اللہ تعالی کا شاہکار ہے، وہ دنیا کے کسی بھی کونہ سے تعلق رکھتا ہو، عرب کے صحرا، افریقی جنگل یا ترقی یافتہ یورپ اور امریکہ کا ہی کیوں نہ ہو، مرد ہو یا عورت، بوڑھا ہو یا جوان؛ ایسا قطعاً نہیں ہے کہ کوئی اندرونی صلاحیت اور خوبیوں سے محروم ہو، یہ خوبیاں فطری ہیں، اللہ تعالی نے ان کے دلوں میں ودیعت کی ہیں، تعلیمی، سماجی، فنی، اخلاقی اور دنیا کے وہ تمام گوشے جسے شمار کیا جاسکتا ہے یا پھر جو انسانی زندگی کے لئے کار آمد ہو ان سب کا شمار اس میں ہوسکتا ہے، سب سے پہلے انسان اپنے رب کے تئیں ذمہ دار ہے، اس کے سامنے جواب دہ ہے؛ کہ اس نے ان صلاحیتوں کا کیسے استعمال کیا ہے، آج دنیا کی ترقی و عروج اور اس کی چکا چوندھ سب کچھ اسی کی صلاحیت وفکر اور لگن کی دین ہے، لیکن یہ کیا بات ہے کہ جس اللہ ذوالجلال نے اسے ان خوبیوں سے سنوارا، اسے لائق و فائق بنایا اور عقل و فکر کی دولت سے ہمکنار کیا اسے بھلا کر اپنی پیٹھ تھپتھپائی جارہی ہے، اللہ تعالی کی عطا پر اپنی فوقیت اور انانیت کی بانسری بجا کر خود کے شادیانے گائے جارہے ہیں، ذرا سوچیے! اگر کوئی کسی کو اپنا قیمتی چیز رکھنے کیلئے دی ہو اور اس نے وقتی طور پر استفادہ کی گنجائش بھی دے دی ہے؛ تاکہ وہ ایک زائد بوجھ بن کر نہ رہ جائے، مگر وہ اسے اپنی ملکیت اور اپنی طاقت سمجھ بیٹھے، اس پر حق جما کر اپنی ہنرمندی کا اظہار کرنے لگے تو اسے کیا بے وقوف نہیں سمجھا جائے گا؟ یہی اصل بات ہے کہ انسان کی تمام تر کاوشیں صرف رب العالمین کی جانب سے ایک رہن ہے، اللہ تعالی کا یہ فرمان پڑھیے! وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ اتَّبَعَتْہُمْ ذُرِّیَّتُہُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَ مَاۤ اَلَتْنٰہُمْ مِّنْ عَمَلِہِمْ مِّنْ شَیْءٍ ؕ کُلُّ امْرِیًٔۢ بِمَا کَسَبَ رَہِیْنٌ _(طور: ٢١)”اور جو لوگ ایمان لائے ہیں، اور ان کی اولاد نے بھی ایمان میں ان کی پیروی کی ہے تو ان کی اولاد کو ہم انہیں جب کے ساتھ شامل کر دیں گے، اور ان کے میں سے کسی چیز کی کمی نہیں کریں گے۔ ہر انسان کی جان اپنی کمائی کے بدلے رہن رکھی ہوئی ہے۔”

اس کا مطلب یہ ہے کہ نیک لوگوں کی اولاد اگر مومن ہو تو اگرچہ وہ اپنے عمال کے لحاظ سے جنت میں اس اونچے درجے کی مستحق نہ ہو جو اس کے والد کو ملا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ والد کو خوش کرنے کے لئے اولاد کو بھی وہی درجہ دے دیں گے، اور والد کے درجے میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ مگر اس آیت میں ایک اہم چیز انسانی فطرت کے سلسلہ میں یہ بیان کی گئی ہے جس کا تعلق رہن سے ہے، رہن، اس سامان کو کہتے ہیں جو کسی ادھار دینے والے نے اپنے ادھار کی ادائیگی کی ضمانت کے طور پر مقروض سے لے کر اپنے پاس رکھ لیا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو جو صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں۔ وہ انسان کے پاس ادھار ہیں۔ یہ ادھار اسی صورت میں اتر سکتا ہے۔ جب انسان اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ان صالحیتوں کو استعمال کرے ،جس کا مظاہرہ دنیا میں ایمان لانے اور نیک عمل کرنے سے ہوتا ہے۔اس ادھار کے لئے ہر انسان کی جان اس طرح رہن رکھی ہوئی ہے کہ اگر وہ ایمان اور نیک اعمال کے ذریعے اپنا ادھار اتار دیگا تو آخرت میں اس کی جان کو آزادی حاصل ہوگی اور وہ جنت میں اطمینان سے خوش حالی کے ساتھ رہے گا اور اگر اس نے یہ قرض نہ اتارا تو پھر اس کو دوزخ میں قید رہنا ہوگا۔ اس فقرے کو یہاں لانے کا مطلب یہ ہے کہ جن ایمان والوں کے متعلق اس آیت میں کہا گیا ہے کہ انہیں ثواب ملے گا، اور ان کی مومن اولاد بھی ان کے ساتھ ہوگی۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کا حکم پورا کر کے اپنا ادھار اتار دیا، اور اپنی جان کو آزاد کرالیا ہے۔ لیکن اگر کسی کی اولاد مومن ہی نہ ہو تو اسے اپنے ماں باپ کا ایمان لانا کوئی فائدہ نہیں دے گا ۔کیونکہ اس نے وہ مطالبہ پورا نہیں کیا جس کے لئے اس کی جان رہن رکھی ہوئی تھی۔ اس لئے اسے دوزخ میں جا کر قید رہنا ہوگا۔ نیز اس فقرے کا یہاں ایک اور مطلب بھی ہو سکتا ہے۔ اور وہ یہ کہ باپ کی نیکی کی وجہ سے اس کی مومن اولاد کا درجہ تو بڑھادیا جائے گا؛ لیکن اولاد کی بد عملی کی کوئی سزا باپ کو نہیں ملے گی کیونکہ ہر شخص کی جان خود اپنی کمائی کے لئے رہن ہے دوسرے کی کمائی کی کے لئے نہیں۔ (آسان تفسیر قرآن مجید)

 

 

15/10/2020

Comments are closed.