نحوست اور اسلامی نقطہ نظر ﴾ از خلیل احمد بن مفتی رشید احمد فریدی،

بسم اللہ الرحمن الرحیم

از:خلیل احمد بن مفتی رشید احمد فریدی
متعلم جامعہ ڈابھیل عربی ششم

﴿نحوست اور اسلامی نقطہ نظر ﴾

(جاہلیت عرب کا سماج)
بعض انسان اپنی کج فہمی اور تنگ نظری کے باعث خیالات کے بے ہنگم تانے بانے بن لیتے ہیں اور پھر کبھی کبھار غیر اختیاری طور پر کچھ خارجی قرائن کی موافقت ہوجاتی ہے جس سے نادان دھوکے کھا جاتے ہیں انکے خیالات فاسدہ جڑ پکڑنے کے بعد نظریات و عقائد میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ نیز حقیقت سے ناآشناء اور سچ کو تسلیم کر نے کی صلاحیت سے بھی محرومی کا سبب بن جاتے ہیں۔

اسی طرح زمانہ جاہلیت کے عرب باشندے اور موجودہ نشأۃ ثانیہ کے بعد وجود میں آنے والی فرضی مہذب قومیں،ہندومذہب سے تعلق رکھنے والےلوگ نحوست و چھوت چھات اور بدشگونی جیسے من گھڑت توہمات پر ایک درجہ یقین کر کے خسر الدنیا والآخرہ کی جماعت کے مستحق بن رہے ہیں اوراب سادہ لوح مسلمانوں کے عقائد و نظریات میں شعوری اور غیر شعوری طور پر رخنہ اندازی کر نے میں لگے ہیں۔

(زمانہ جاہلیت اورصفر)

زمانہ جاہلیت میں لوگوں کا یہ اعتقاد تھا کہ بیمار کے پاس بیٹھنے یا اس کے ساتھ کھانے پینے سے اس کی بیماری دوسرے تندرست اور صحت مند آدمی کو لگ جاتی ہے اور یہ لوگ ایسی بیماری کو ”عدوی“یعنی متعدی مرض اور چھوت کی بیماری کہتے تھے۔

عام لوگوں میں چھوت چھات کا اعتقاد اور ایک کی بیماری دوسرے کو لگنے کا گمان عام تھا۔ چنانچہ آج ہمارے معاشرے میں بھی وبائی امراض میں مبتلاء ہونے والو ں سے بہت پرہیز کیا جاتا ہے،ان کا کھانا پینا،رہنا سہنا،اور اوڑھنا بچھونا سب علیحدہ کردیا جاتا ہے کھانے پینے کے برتن بھی جدا کردئے جاتے ہیں ان سے ملنا جلنا تو دور رہا بچوں کو انکے قریب تک آنے نہیں دیا جاتا، اس کے لیے موجودہ دور میں ”کرونا“ ہی کی مثال دینا انسب معلوم ہوتا ہے. متأثرین سے جو برتاؤ و سلوک نیز انکی نعشوں کے ساتھ جو معاملہ کیا جارہا ہے وہ اظہر من الشمس ہے۔

چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکے باطل اور خود ساختہ خیالات کی تردید فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: لا عدوی و لا طیرۃ ولا ھامۃ ولاصفر(بخاری بحوالہ مشکوۃ)کہ(اللہ کی مشیت کے بغیر)کوئی بیماری متعدی نہیں اور نہ ہی بدشگونی لینا جائز ہے،نہ الو کی نحوست یا روح کی پکار اور نہ صفر کی کوئی حقیقت ہے،اسی طرح ایک اور حدیث شریف میں عن ابی ہریرۃ ؓ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: لا عدویٰ ولا ھامۃ ولا نوء َ ولاصفر۔ کہ نہ کوئی بیماری متعدی ہے نہ ھامہ،نہ منزل قمر نہ صفر(مسلم شریف)

نیز اور بھی بہت سی احادیث مبارکہ اور روایات ہیں جن میں ان جہلائے عرب کی اوہام پرستی اور نحوست کے متعلق نظریات و خیالات کی تردید کی گئی ہے۔

(ایک بہترین مثال)
ایک دوسری حدیث کچھ اس طرح ہے کہ ایک مرتبہ کسی دیہاتی نے آکر آپ ﷺ عرض کیا ”یا رسول اللہ ﷺ! خارش اول اونٹ کے ہونٹ میں شروع ہوتی ہے یا پھر اسکی دم سے آغاذ کرتی ہے اور پھر یہ خارش دوسرے تمام اونٹوں میں پھیل جاتی ہے؟ “اس پر آپﷺ نے فرمایا کہ ”پہلے اونٹ کو کیسے خارش ہوئی اور کس کے ذریعہ لگی“

وہ دیہاتی یہ سن کر لا جواب ہوگیا،پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:”یاد رکھو! متعدی مرض،چھوت، شگون اور بد فالی کوئی چیز نہیں ہے،اللہ تعالیٰ نے ہرجاندار کوپیدا کر کے اس کی زندگی، روزی اور مصیبت مقرر کردی ہے“۔

(چندمروجہ اوہام باطلہ)

جہلائے عرب اور اوہام پرست قومیں اس مہینہ کو منحوس گردانتی تھیں ۔چنانچہ اس مہینہ میں پیغام نکاح اس کی تقریب منعقد نہیں کرتے تھے، سرے سے سفر ہی نہیں کرتے اگر بالقصد ارادہ ہو بھی جاتا تو ملتوی کر دیتے تھے۔ خصوصاً ابتدائی ۱۳/ دن و رات جس کو وہ”تیرہ تیزی“کہتے ہیں خیر و بھلائی کے کاموں سے دور رہتے تھے،اگر اس مہینہ سے پہلے شادی وغیرہ ہوچکی ہوتی تو اس مہینہ میں رخصتی سے پرہیز کرتے تھے کہ اس سے بیٹی کا گھر ویران ہوسکتا ہے،اگر سامنے سے بلی راستہ کاٹ کر چلی جائے تو بھی سفر نہیں کرتے تھے،گھر کے تمام برتنوں کو خوب جھاڑ تے تھے،اگر اس مہینہ میں کسی کا انتقال ہوجائے تو اسے منحوس خیال کرتے،اور میت والے گھر میں جانے سے بھی بہت بچتے تھے حتی کہ اپنے کسی لڑکے یا لڑکی کی نسبت بھی اس گھر میں نہیں کرتے اگر ہو چکی ہوتی تو اسے توڑ دیتے وغیر ہ وغیرہ۔

(ماہ صفر کے”آخری بدھ“ کی حقیقت)

نیز ماہ صفر کے آخری بدھ کو ”سیر بدھ“کے نام سے موسوم کرتے ہیں اور ان اوہا م کے پجاریوں کا کہنا ہے کہ اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل صحت فرمایا اور سیر و تفریح فرمائی تھی،اسی لئے سیر و تفریح کی غرض سے نئے اور عمدہ لباس فاخرہ،بہترین و لذیذ قسم کے پکوان،قسمہا قسم کے میوے،طرح طرح کی شیرینیاں اپنے محلوں میں تقسیم کرتے ہیں بلکہ تاریخ کی کتابوں کی ورق گردانی کی جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مرض الوفات شروع ہواتھا اور ایک سلیم العقل مؤمن اس دن کیسے خوشی منا سکتا ہے؟

(ایک لطیفہ)
چنانچہ اس آخری بدھ کو مزدور طبقہ بھی اپنے سیٹھ سے چھٹی کا مطالبہ کرتا ہے اور حد تو یہ ہے کہ بعض متکبہ مکاتبِ فکرکے یہاں مستقل چھٹی دی جاتی ہے،گویا ایک تہوار کے مانند سمجھا جاتا ہے اس سلسلہ میں ایک لطیفہ بھی منقول ہے کہ ایک نواب زادے نے اپنے استاذ سے اس تاریخ میں عیدی مانگی تو انہوں نے اس عیدی کو شعر کے انداز میں رد کردیا۔
آخر چہار شنبہ ماہ صفر
ہست چوں چہار شنبہ ہائے دِگر
نہ حدیثے شد در آں وارد
نہ دروں عید کرد پیغمبر
غور کیا جائے تو یہ تمام باتیں دین اسلام اور شریعت مطہرہ کے اصولوں پر کسی بھی طرح منطبق نہیں ہوتی بلکہ خود ساختہ اور من گھڑت مقدمات ہیں اور ہر کوئی اپنی ذہنِ سفسطی کے مطابق نتیجہ نکال لیتے ہیں جوبالکل ذہنی الجھن ہے اور طبعی کوفت بھی،کیونکہ جب مقدمات کی ترتیب ہی میں کجی ہو تو لامحالہ نتیجہ بھی بے بنیاد و بے اصل آئے گا۔

(ایک غلط فہمی کا ازالہ)
بسااوقات ہم یہ سنتے ہیں کہ بندہ جس گھڑی عبادت و بندگی میں گذارتا ہے وہ اس کے لئے مبارک اور سودمند گھڑی ہے اور جن اوقات ذکر الٰہی سے غافل رہتا ہے وہ اوقات اس کے لئے منحوس ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اوقات اس کے حق میں منحوس ہے؟؟ بلکہ نحوست تو اس گناہ میں ہے نہ کہ اوقات میں اسی لئے ایک حدیث شریف میں ہے قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:یؤذینی ابن آدم یسب الدھر وانا الدھر بیدی الامر اقلب اللیل والنہار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ابن آدم مجھے تکلیف پہونچاتا ہے،وہ زمانہ کو برا بھلا کہتا ہے حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں،تمام امور میرے ہی قبضہ میں ہے،میں رات و دن کوالٹتا بلٹتا ہوں (متفق علیہ)

(نحوست کے متعلق اسلام کا نقطہ نظر)

اللہ تعالیٰ نےہمیں ایک کامل و مکمل دستور حیات عطا فرمایا ہے جس میں اب مزید کسی طرح دین کے متعلق فرضی توہمات، نفسی اختراعات اور ذہنی ایجادات و من گھڑت خیالات کی گنجائش نہیں اس لئے کہ مذہب اسلام نے تمام تر شعبہ جات میں زندگی گذارنے کا طریقہ سکھلا دیا ہے کسی گوشہ کو تشنہ و نامکمل نہیں چھوڑا، چنانچہ ہم شریعت مطہرہ پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں تو نحوست و چھوت چھات اوردیگر ذہنی وجسمانی حرج میں مبتلاکرنے والے خیالات سے دور دور تک واسطہ نہیں پڑتا۔

دین اسلام اور بعثت نبوی کے منجملہ مقاصد میں سے ایک اہم مقصد یہ بھی تھاکہ انسانی معاشرہ میں رائج رسومات و بدعات،خرافات و توہمات کی بیخ کنی کر کے تمام تر آلائشوں سے پاک اور صاف ستھرا دین پیش کیا جائے اور اس دین کے دائرہ میں رہ کر اپنی ذہنی افکار کو وسیع اور کشادہ کر کے درست اور صحیح راہ اپنائے،

Comments are closed.