"کمزوری کے ساتھ صلح مت کرو!!” محمد صابر حسین ندوی

"کمزوری کے ساتھ صلح مت کرو!!”

 

محمد صابر حسین ندوی

[email protected]

7987972043

 

امن و امان قائم کرنا، انسانیت کو راحت پہونچانا، خلق خدا کیلئے صلح کرنا باعث خیر ہے، اسلام اس بات کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ قتل و قتال کے بجائے معاملہ صلح و صلاح پر نمٹ جائے، عوام کے مابین اطمینان و قرار کی بحالی ہو، انہیں دقتوں کا سامان نہ کرنا پڑے، اسی لئے اسلام میں جزیہ کا حکم ہے، جہاد کے شرائط ہیں، صلح کرنے کی ترغیب ہے، سورہ انفال میں ہے: و إن جنحوا للسلم فاجنح لها و توكل على الله، إنه هو السميع العليم __ "اور اگر وہ جھکیں صلح کی طرف تو (آپ کو اختیار ہے کہ) آپ بھی اس کی طرف جھک جائیں، اور اللہ پر بھروسہ رکھیں، بیشک وہ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے” (انفال:٦١)__ مولانا عبدالماجد دریابادی لکھتے ہیں :” اس میں تعلیم اس کی آگئی کہ احکام خداوندی کے ماتحت ظاہری تدابیر اختیار کرتے رہئے، اور مخالفین کو جھکتے ہوئے دیکھئے تو آپ بھی صلح کے مجاز ہیں، لیکن اصل اعتماد اللہ ہی پر رکھئے، اس کا ہر حکم مصالح پر مبنی ہوتا ہے، وہی بندوں کے ظاہر کو بھی جانتا ہے اور وہی باطن کو بھی__”(تفسیر ماجدی)، مولانا امین آمین احسن اصلاحی رقمطراز ہیں :”…. یہاں یہ واضح فرمایا کہ یہ حکم (جہاد) اس بات کے منافی نہیں ہے کہ کسی مرحلہ میں قریش اگر صلح کے خواہاں ہوں تو ان سے صلح کر لی جائے، ان کی صلح کی پیشکش قبول کرنے کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اجازت دے دی گئی____” یہ صلح اس وقت کی گئی ہے جب قریش سے سخت مخالفت تھی، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلمانوں کا اقبال بلند ہورہا ہے، وہ ایمان و قوت اور تقوی کے مدارج طے کرتے ہوئے شیطانی چالوں کو ناکام بنانے اور نظام الہی قائم کرنے کی طرف بڑی تیزی کے ساتھ گامزن تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت اور صحابہ کرام کی جاں نثاری اہل باطل کے سینہ میں دھاک بٹھا رکھی تھی، وہ اگر آپ ے تیغ و تفنگ پر اکڑتے اور ظاہری اسباب و سامان پر گھمنڈ کرتے تھے؛ لیکن انہیں اندازہ ہوچکا تھا کہ مسلمان افق انسانی پر چھا جانے کیلئے اٹھے ہیں، ان کے ایمان و یقین اور توکل کے سامنے ہر شئی ہوا میں سوکھے پتوں کے مانند اڑ جائے گی، اب پانی کا بہتا دھارا اور مومنین کے ایمان کا کو کوئی نہیں روک سکتا، وہ یہ سمجھ چکے تھے کہ ان کے اندر موجد شہادت کا جذبہ پہاڑ کو ریزہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، اگرچہ کہ مسلمانوں نے صلح کی لیکن اس کی حقیقت یہی تھی کہ یہ عام انسانی صلاح، امان اور تبلیغ اسلام کا تقاضہ تھا۔

اب قرآن کریم کا بیان کردہ ایک دوسرے اصول کی طرف غور کرنے کی ضرورت ہے، ہر سکے کے دو پہلو ہوتے ہیں، اس صلح کا بھی ایک دوسرا پہلو ہے، قرآن مجید میں ہے:فلا تهنوا و تدعوا إلى السلم، وأنتم الأعلون والله معكم و لن يتركم أعمالكم __ "لہذا تم لوگ ہمت نہ ہارو اور (کمزوری کے ساتھ) صلح کی طرف مت بلاؤ، تم ہی غالب رہوگے اور اللہ تمہارے ساتھ ہے، اللہ ہرگز تمہارے اعمال کو کم. نہیں کریں گے” (محمد :٣٥)_ استاذ گرامی حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی مد ظلہ تحریر فرماتے ہیں : "یعنی دشمنوں کی تعداد کی کثرت اور جنگی وسائل کی بہتات سے خوف نہ کھاؤ، تمہاری کامیابی اللہ کی مدد سے ہے نہ کہ مادی وسائل سے، اور صلح کرنا تو اچھی بات ہے؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے خود ارشاد فرمایا کہ اگر تمہارے دشمن صلح کرنے پر آجائیں تو تم. بھی صلح کر لو، لیکن کم ہمتی وجہ سے دن صلح مت کرو اور اللہ پر یقین رکھو” (آسان تفسیر قرآن مجید) دراصل منافقوں نے ایک وطیرہ بنا رکھا تھا کہ اپنے نفاق اور ایمانی کمزوری کی بنا پر ہمیشہ صلح کی بات کرتے تھے؛ قرآن کریم نے یہ اہم سبق دیا کہ بزدل بن کر صلح مت کرو، اللہ پر ایمان رکھو، حوصلہ رکھو، توکل سے اپنا سینہ وسیع کرلو اور دیکھو کیسے اللہ تمہاری مدد کرتا ہے، تمہیں بلند کرتا ہے دنیا تمہارے قدموں میں ڈال دیتا ہے، یہاں یہ بات واضح ہوجانی چاہئے کہ مومن اپنے ایمان اور شہادت کیلئے جیتا ہے اسے دنیا کیلئے جینا نہیں آتا، چنانچہ بزدلی و شکستہ دلی کا رویہ وہی اختیار کرتے ہیں جن کے اندر ایمان کی کمی ہو، جو منافق ہو، ایک مومن انصاف قائم کرتا ہے، عدل کی بساط لگاتا ہے، تلوار کی چمک سے آسمان کی بلندیوں کو پاتا ہے، وہ زمین کا کو کفن سمجھتا ہے، موت کو لقائے الہی کا پروانہ مانتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس آیت کے بعد مزید دنیا کی حقیقت بتائی گئی، جو لوگ اس کے دھوکے میں پڑے رہتے ہیں اور گوشہ عافیت تلاشتے ہیں، ان سے کہہ دیا گیا:إنما الحياة الدنيا لعب و و لهب ،و إن تؤمنوا و تتقوا يؤتكم أجوركم ولا يسئلکم أموالكم__ "دنیوی زندگی تو محض ایک کھیل تماشہ ہے، اگر تم ایمان رکھو اور پرہیزگار بنے رہو، تو اللہ تم کو تمہارا اجر عطا فرمائیں گے، اور تم سے تمہارا مال طلب نہیں کریں گے” (محمد:٣٦).

16/10/2020

Comments are closed.