اچھے اور برے بچے؛ ایک غلط تصور محمد صابر حسین ندوی

اچھے اور برے بچے؛ ایک غلط تصور

محمد صابر حسین ندوی
[email protected]
7987972043

سماجی تانے بانے کا یہ حال ہے کہ اس نے کچھ کڑیاں اتنی مضبوط کردی ہیں کہ اس کی وجہ سے دوسری کڑیاں کمزور ہوگئی، ایک سایہ دار درخت کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے سینکڑوں پودوں کو قربان کرنے کی پالیسی اختیار کرلی ہے، پانی کا بہاؤ کس طرف ہے بس وہی اہمیت رکھتا ہے، اکثر سمندر کی ٹھاٹھیں ندیوں کے بہاؤ اور اس کے شور وشرابہ کو غل کردیتی ہیں، اگر کہیں کسی آبشار سے زیادہ آواز آجائے تو اسے دیکھنے والوں کی بھیڑ لگ جاتی ہے؛ لیکن اسی کے بغل میں ایک خوبصورت شاندار اور عمدہ ترین، مہذب معمولی جھرنوں کو کوئی دیکھنا نہیں چاہتا، وہ یہ نہیں سمجھتے کہ یہ پانی بھی بہہ کر وہیں جائے گا اور کل کو پھر آبشار بن کر آپ کے سامنے یہی ہوگا؛ مگر اس کیلئے شرط ہے کہ پہلے اسے سراہا جائے، اس کی حوصلہ افزائی کی جائے، ہمارے معاشرے میں کچھ ایسے ہی دوہرا رویہ انسانوں کے ساتھ اپنا جاتا ہے، بالخصوص بچے جو ایک معصوم پھول، کلی اور قدرت کی دین ہوتے ہیں انہیں بزرگ پودے اپنی انانیت اور خود سری میں کچل دیتے ہیں، ان کے سامنے یہ گوارا نہیں ہوتا کہ کوئی نادان پود ان سامنے بڑھے اور وہ بھی ثمرآور ہوجائے، اکثر و بیشتر ہماری سوسائٹی میں بچوں کی نفسیات پر بات ہی نہیں ہوتی، جب وہ شرارتیں کرتا ہے یا پھر کوئی بھی ایسی ایکٹیویٹی کرتا ہے جو عمومی بچے نہیں کرتے تو اسے کمتر بتا کر اور اسے نیچا احساس کراکے نفسیاتی مرض میں مبتلا کردیا جاتا ہے، ہمیشہ بڑوں کو سمجھدار اور عمر کو عقل کی ڈگری ماننے والے لوگ سمجھدار بچوں کا گلہ گھونٹنے میں دیر نہیں کرتے، نہ جانے کیوں یہ سمجھا جاتا ہے کہ اگر کوئی بڑا ہوجائے تو وہ معفو عنہ ہوجاتا ہے، یا وہ آدم کی خاصیت یعنی غلطی کے عنصر سے پاک ہو جاتا ہے اور اگر خطائیں ہوتی ہیں تو صرف کم عمر سے ہی ہوتی ہیں، افسوسناک بات یہ ہے کہ اس رخ پر کبھی نہیں سوچا بھی نہیں جاتا، یہی وجہ ہے کہ سماجی پروان اور جدید اٹھان میں جو ترقی اور تعمیر ہونی چاہئے، نئے خون اور نئی صلاحیتوں کا جو مظاہرہ ہونا چاہئے وہ مفقود ہے، کاش یہ سمجھیں کہ بچے اللہ تعالیٰ کا تحفہ اور انسانیت کی نئی اینٹ ہیں، اگر انہیں ڈھاہ دیا گیا تو ایک نئی عمارت کی توقع ناممکن ہے۔
کچھ ایسی ہی باتیں کرتی ایک اہم تحریر ماہر نفسیات کی سوشل نیٹ ورکنگ سے موصول ہوئی جو واقعی پڑھنے کے قابل ہے،جس میں اچھے اور برے بچوں کے غلط تصور کا ازالہ کیا گیا ہے، سماج کا حقیقی آئینہ دکھا کر بچوں کی تربیت کے خطوط پیش کئے گئے ہیں، اور ان گمانوں کو خارج کیا گیا ہے جس سے معاشرہ جدید پود مرجھا جاتا ہے، جناب رفیق جعفر رقمطراز ہیں: "ہمارے ہاں اس بچے یا فرد کو پسند کیا جاتا ہے جو فرمانبردار ہے، دوسروں کا ادب کرتا ہے، اپنا کام وقت پر مکمل کرتا ہے، اس کے ہم عصر اسے پسند کرتے ہیں، اور جو دوسروں میں مقبول ہے۔ اس کے مقابلے میں ہم ایسے بچوں کو پسند نہیں کرتے جو بہت زیادہ سوال پوچھتے ہیں، سوچنے اور فیصلہ کرنے میں خود مختار ہوتے ہیں، اپنے عقائد پر ڈٹے رہتے ہیں، کسی کام میں مگن رہتے ہیں اور کسی بااختیار شخص کی بات کو من و عن قبول نہیں کرتے۔ پہلی قسم کے بچے کو ہم ’’اچھا بچہ ‘‘ کہتے ہیں اور دوسری قسم کے بچے کو ہم بدتمیز یا نافرمان بچہ سمجھتے ہیں۔ ہمارے تعلیمی ماحول میں بھی تخلیقی سوچ کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ اگر ایک بچہ امتحان میں کسی سوال کے جواب میں اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے تو اسے کم نمبر دیے جاتے ہیں۔ ہمارے ٹی وی اور ریڈیو پر ذہنی آزمائش کے پروگرام سوچنے کی صلاحیت کی بجائے یادداشت کی آزمائش کرتے ہیں۔ مذہبی تعلیم میں بھی قرآن کو حفظ کرنے پر زور دیا جاتا ہے لیکن اس کو سمجھ کر روزمرہ زندگی پر اطلاق کرنے کی تربیت نہیں دی جاتی۔ بچوں کو کامیابی حاصل کرنے اور اول آنے کی ترغیب دی جاتی ہے، لیکن علم حاصل کرنے یا نئی باتوں کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ ہم غلطیاں کرنے اور ان کا اقرار کرنے سے گھبراتے ہیں لیکن غلطیوں کے بغیر تخلیقی سوچ ناممکن ہے۔ —— ہمارے یہاں اگر کچھ فنکاروں اور ان کی تخلیق کو اہمیت دی جاتی ہے تو اس عمل کو نظر انداز کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں کوئی تصویر، دھن وغیرہ کی تخلیق ہوئی ہے، یعنی تخلیق کے نتائج کو تو سراہا جاتا ہے لیکن اس محنت اور جدوجہد کو نظر انداز کیا جاتا ہے جسے تخلیقی عمل کہتے ہیں۔” (رفیق جعفر، نفسیات ص 486-487 )

18/10/2020

Comments are closed.