سر سید احمد خان اور عشق نبوی ﷺ محمد صابر حسین ندوی

سر سید احمد خان اور عشق نبوی ﷺ
محمد صابر حسین ندوی
7987972043
سر سید احمد خان کا نام آتے ہی ایک طبقہ انہیں ملعون، زندیق اور نہ جانے کیا کیا کہنے لگتا ہے، افسوس کی بات ہے کہ ہمارا ایک گروہ صرف اپنی روش، اپنی پہچان اور اپنے مدارس سے نکلے تعلیمی دھاروں کو ہی درست سمجھتا ہے، اس کے علاوہ کوئی بھی ان کیلئے مستند نہیں ہے، خواہ وہ علمی و عملی مقام میں کہیں برتر اور فائق ہوں، تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام اجمعین کے سوا ہر ذی ہوش اور صاحب علم کی فکری و استنباطی پہلوؤں میں کچھ نہ کچھ ایسی باتیں ضرور پائی جاتی ہیں جس سے جمہور کا اتفاق نہیں ہوتا؛ لیکن سبھی جانتے ہیں کہ علمی میدان میں نئی جہتیں اور نئے آسمان تلاش کرنے کیلئے کھلی فضا کی ضرورت ہوتی ہے، اگر یہ ماحول (جب تک کہ کفر کا تیقن نہ ہوجائے) فراہم نہ کیا جائے اور ان کاوشوں کو رد کردیا جائے یا پھر ان کی حوصلہ شکنی کی جائے تو پوری قوم پر ایک ایسا جمود پیدا ہوجائے گا کہ پھر نئی راہیں تلاش کرنا مشکل ہوجائے گی، سر سید احمد خان سے یقیناً کچھ اختلافات ہوسکتے ہیں؛ مگر ان کی علمی، عملی اور ملی ہمدردی ساتھ ہی عشق نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے جذبہ کو فراموش نہیں کیا جاسکتا، آپ کی دینداری، تقوی و پرہیزگاری کیلئے کسی سند کی ضرورت نہیں، آپ کی سوانح حیات کا معمولی مطالعہ بھی یہ باور کراتا ہے؛ کہ وہ اپنے زمانے کے بڑے عاشق رسول اور امت کیلئے سرفروشی کا جذبہ رکھنے والے تھے، یہ آپ کے دل کی سوز اور تڑپ کی ہی بات ہے کہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی ان کی تحریک زندہ ہے؛ بلکہ اس کی ضرورت اور تقاضے پر ہر کسی کا ایمان بڑھتا جاتا ہے۔
سب جانتے ہیں کہ سرسید نے علی گڑھ میں کالج قائم کیا تو اس کا نام ’’محمڈن کالج‘‘ رکھا. سرسید نے سہ ماہی رسالہ نکالا تو اس کا نام ’’لائل محمڈنز آف انڈیا‘‘ رکھا۔ انہوں نے ’’محمڈن ایسوسی ایشن علی گڑھ‘‘ اور ’’محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس‘‘ بھی قائم کی تھی۔ اس سلسلے میں مزید معلومات کیلئے ’’حیات جاوید‘‘کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے، جو سر سید احمد خان کی مستند سوانح حیات ہے، جس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ سید صاحب براہ راست گفتگو کر رہے ہیں، بہرحال کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ محمڈن کے لفظ سے کسی جاہل کو خیال آسکتا ہے۔ سرسید کوئی بھی ’’نیک کام‘‘ کرتے تھے تو انہیں رسول اکرمؐ کا اسم گرامی یاد آجاتا تھا۔ آخر سرسید کو رسول اکرمؐ سے ’’عشق‘‘ تھا۔ لیکن فیصلہ کرنے میں جلدی نہ کیجیے۔ ’’محمڈن‘‘ نہ عربی کا لفظ ہے، نہ فارسی کا، نہ اردو کا یہ انگریزی کا لفظ ہے اور یہ لفظ ’’محمڈن ازم‘‘ کی اصطلاح سے لیا گیا ہے۔ عیسائی رسول اکرمؐ کو پیغمبر نہیں مانتے، چناں چہ وہ اسلام کو اسلام کے بجائے ’’محمڈن ازم‘‘ کہتے رہے ہیں۔ یعنی ’’محمڈن ازم‘‘ آسمانی مذہب نہیں بلکہ معاذ اللہ محمدؐ کی ’’ایجاد‘‘ ہے۔ چناں چہ اسی ایجاد کو اس کے خالق سے منسوب کرتے ہوئے اہل یورپ اسلام کو محمڈن ازم کہتے تھے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو سرسید کو ’’محمڈنز‘‘ کے تصور سے ایک لاکھ کلو میٹر دور کھڑا ہونا چاہیے تھا۔ اس لیے کہ یہ لفظ رسول اکرمؐ کی توہین ہے‘ اسلام کی توہین ہے، مسلمانوں کی توہین ہے۔ مگر سرسید نے اس لفظ کو سینے سے چمٹا لیا اور اپنے اداروں کے نام میں اس لفظ کو شامل کرتے چلے گئے۔ سرسید قرآن کی لفظیات استعمال کرتے تو وہ اپنے اداروں کو ’’اسلامی‘‘ قرار دیتے۔ ’’مسلم‘‘ قرار دیتے۔ یہ سرسید کے شدید عشق رسولؐ کی ایک اور مثال ہے، اس طرح کی متعدد مثالیں اور نظیریں پیش کی جاسکتی ہیں جن سے سید صاحب کا عشق نبوی چھن چھن کر نکلے گا، یہاں مزید دو اقتباس نقل کئے جاتے ہیں، غالباً اس کے بعد مزید فروگزاشت کی ضرورت نہیں۔
"___ ایک انگریز ولیم میور نے لائف آف محمد کے نام سے ایک کتاب لکھی، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی۔ سر سید نے کتاب دیکھی تو مشتعل ہوگئے۔ تمام اثاثہ فروخت کرکے اور دوستوں سے قرض لیکر انگلستان گئے اور اس کا دندان شکن جواب لکھا، جو بعد کو اردو میں خطبات احمدیہ کے نام سے شائع ہوا۔ یہ کتاب سر سید کے استدلالی انداز بیان کا بہترین نمونہ ہے۔ انگلستان ہی میں انہوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہندوستان واپس آکر تہذیب الاخلاق کے نام سے ایک رسالہ جاری کریں گے۔ یہ اصلاحی رسالہ جاری ہوا اور اس نے مسلمانوں میں زندگی کی لہر دوڑا دی۔ اردو نثر کو اس سے خاص طور پر فائدہ پہونچا۔ اس رسالے نے مسلمانوں میں خاص طور سے بیداری پیدا کی اور اردو نثر کو نئی جہت عطا کی۔ اردو نثر پر سر سید کا احسان ہے کہ اس نے نئی زندگی پائی اور نئے اسلوب سے آشنا ہوئی___” ( مشاہیر شعر و ادب: ۹۰) سرسید کے سوانح نگار مولانا حالی نے سرسید کی سوانح "حیات جاوید” کے دیباچے میں سرسید کا ایک خواب بیان کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔ "سرسید نے ایک عجیب خواب دیکھا کہ چاندنی رات ہے اور چاند نکلا ہوا ہے اور وہ اپنے مکان کے سامنے صحن کے چبوترے پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ سید کی نگاہ اپنے بائیں پیر پر پڑی تو دیکھا کہ ان کے پاؤں کی انگلیوں کی ایک ایک پور کٹ گئی ہے مگر کچھ درد نہیں اور نہ اس سے لہو بہتا ہے مگر کٹی ہوئی پوروں کے سرے جہاں سے کٹے ہیں نہایت سرخ لہو کی ماند ہورہے ہیں۔ سرسید حیران ہوئے کہ اب کیا کروں۔ اتنے میں ایک بزرگ آئے اور انہوں نے ان کی کٹی ہوئی انگلیوں کے پیروں پر اپنا لب مبارک لگادیا۔ اسی وقت ان انگلیوں میں نمو شروع ہوگئی اور سب انگلیاں درست ہوگئیں اور ان میں چاند سے زیادہ روشنی تھی۔ سید چاند کو دیکھتے اور ان انگلیوں کو دیکھتے اور ان میں چاند سے زیادہ روشنی پاتے تھے۔ خواب میں ان کو کسی طرح یقین ہوا یہ محمد رسول اللہؐ تھے جنہوں نے لب مبارک لگایا تھا”۔(حیات جاوید۔ ضمیمہ جات۔ از مولانا حالی۔ صفحہ 10۔ لاہور۔ الہجرہ پبلشرز۔ سن اشاعت 1984ء)
Comments are closed.