یادوں کی شمع ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امین ملت حضرت مولانا محمد امین اشرف قاسمی صاحب ؒ کا سانحہ ارتحال، کچھ یادیں کچھ باتیں

✍? از قلم : حضرت مولانامحمد انواراللہ فلک قاسمی صاحب دامت برکاتہم ۔ معتمد ادارہ سبیل الشریعہ رحمت نگر آواپور شاہ پور سیتامڑھی بہار
>>><<<>>><<<>>><<<
20 / ستمبر سن 2020ء روز اتوار ضلع دربھنگہ کی مشہورو معروف کثیر مسلم آبادی پر مشتمل بستی "دوگھرا” کے عظیم الشان اجلاس میں شریک تھا، یہ اجلاس اپنے حسن انتظام اور ترتیب کے اعتبار سے بہت ممتاز تھا ، اس کے میزبان وہاں کے ہر دالعزیز مکھیا "نورعالم” صاحب تھے ، اور اس کے منتظم کار فاضل نوجواں باصلاحیت اور باکردار عالم دین مولانا "ارشد فیضی” قاسمی صاحب تھے ، اور صدارت، قدیم صالح اور جدید نافع کی حامل شخصیت حضرت مولانا "ابوالکلام قاسمی شمسی” صاحب دامت برکاتھم کی تھی، علاقہ مضافات کی مشہور دینی ، علمی ،سماجی اور سیاسی شخصیات شریک اجلاس تھے ، ارباب شعرو سخن کا قافلہ بھی فروکش تھا، یہ پہلا موقع تھا کہ حضرات علماء کی تقریر کو مقدم رکھا گیا تھا اور شعراء حضرات کی باری بارہ بجے شب کے بعد تھی، البتہ اجلاس کے ابتدا ئی حصے میں کچھ نعت پاک پڑھی گئی تھی ۔اس اجلاس کی ایک اور بڑی خوبی یہ تھی کہ خطباء کے لئے موضوعات، تقریبا متعین تھے اور اوقات کی تحدید بھی تھی، پیش رو علماء، اپنی تقریر کر چکے تھے اور احقر راقم آثم کا نمبر آنے ہی والا تھا، اس لئے مضامین کی ترتیب اور سامعین کی فہمائش کے لئے تمثیلات کے استحضار میں ذہنی طور پر مصروف تھا کہ اچانک وجے واڑہ آندھرا پردیش سے تازہ ترین نیوز چینل کے مدیر قاری”محمد زید” صاحب نقشبندی کا فون آیا کہ امین ملت حضرت مولانا "محمد امین اشرف قاسمی” صاحب بانی وناظم ادارہ دعوت الحق مادھو پور سلطان پور وایا سیدپور ضلع سیتامڑھی بہار کے سانحہ ارتحال کی خبر مل رہی ہے ، کیا صحیح ہے ؟ میں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں ہے ۔خدا کرے کہ یہ خبر غلط ہو جاے۔ لیکن ایسا ہوا نہیں اور ان دنوں موت کی خبریں عموما غلط ہوتی بھی نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ موت کی آندھی چلی ہوئی ہے اور صف اول کے علماء لقمہ اجل بنتے جارہے ہیں اور علامت قیامت کے ظہور کا تسلسل ہے جو جاری ہے ۔ تھوڑی ہی دیر میں ہر طرف سے مو بائل فون اور واٹس ایپ کے ذریعہ مصدقہ خبریں آنے لگیں کہ مولانا رح: 20 ستمبر روز اتوار دن گذار کر رات کے تقریبا 9/ بجے اس دار فانی سے دار بقاء کوچل بسے ہیں ، روح، قفس عنصری سے نکل چکی ہے ، جسم و جان کا رشتہ ٹوٹ چکا ہے ، نسبی اور معنوی ہر دو پسماندگان کی ملاقاتیں حشر تک موقوف کردی گئی ہیں ۔
اناللہ واناالیہ راجعون ۔
یہ خبر ایسی نہیں تھی کہ آدمی صرف سن کر رہ جاے بلکہ اس نے ذہن و دماغ کو بہت متاثر کیا اور دیر تک اس کے اثرات جسم و جان پر رہے۔ اسی غم و ھم سے دوچار تھا کہ نقیب اجلاس نے خطاب کے لئے مدعو کیا، بار غم کیساتھ حاضر ہوا اور نہایت شکستگی کے عالم میں مفوضہ موضوع کو نبھا نے کی کوشس کی درمیان میں مولانا رح کے سانحہ ارتحال کی سامعین کو اطلاع بھی دیا اور دعاۓ مغفرت کی گذارش بھی کی ۔ خطاب کے بعد گھر آیا، بے کیفی پہلے سے تھی ہی پوری رات یونہی فکر و غم کی نظر ہوگئی ۔ یہاں تک کے فجر کی آذان ہوئی نماز فجر ، تلاوت قرآن کریم اور دیگر معمولات سے فارغ ہو کر اشراق کے بعد مولانا رح بلکہ پورے خانوادہ ابراھیمی کے خاص معتمد ، جامعہ حراء سہسولی اورائی ضلع مظفر پور کے بانی و ناظم الحاج صبغت اللہ صاحب حفظہ اللہ کو فون کیا تاکہ یہ معلوم ہو جاے کہ نماز جنازہ کب ادا کی جاے گی ؟ حاجی صاحب نے بتایا کہ نماز ظہر کے بعد دو بجے کا وقت متعین کیا گیا ہے ۔ احقر نماز جنازہ میں شرکت کے لئے اسی لحاظ سے بلکہ کچھ پہلے ہی گھر سے نکل گیا ساتھ میں” محمد امیرالحق "صاحب شاہ پور اور "قاری بدرعالم "صاحب شاہ پور استاذ مدرسہ سراج العلوم چیتا کیمپ ممبئی بھی ہوگئے اور راستے میں حضرت مولانا "محمد حبیب الرحمن قاسمی” صاحب مقام باسوپٹی، پوسٹ ددری ، وایا نان پور، ضلع سیتامڑھی پہلے ہی سے منتظر تھے، ان کو بھی ساتھ لیا اور ہم سب لوگ ظہر کی آذان سے پہلے وہاں پہنچ گئے ۔ دیکھا کہ لوگوں کی جم غفیر ہے ، علماء ، طلبہ ، مشائخ کا مجمع ہے، سیاسی، سماجی اور عوام وخواص کے
آ نے کا سلسلہ جاری ہے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے قصر ابراھیمی سے لے کر ادارہ دعوت الحق کا صدر دروازہ” باب قاسم” شرکاۓ جنازہ سے بھرنے لگا ۔ کرونا وائرس کی وحشت و دھشت اور تالا بندی کے جزوی اثرات، نیز موسم کی تبدیلی کے باوجود اتنی کثیر تعداد میں اصحاب علم و فضل سے لے کر عوام و خواص کی جنازے میں شرکت، مولانا رح: کی محبت و محبوبیت کی علامت تھی جو ہر طرح ظاہر تھی ۔ ایک طرف مولانا رح کا پورا خانوادہ صبر کے ساے میں غم سے چور تھا تو دوسری طرف مولانا رح کے بھائی بلکہ ان کی زندہ تصنیف، اسم با مسمی شخصیت حضرت مولانا "مفتی محمد ثمین اشرف قاسمی” صاحب حال مقیم دبئی اور فرزند دلبند عزیزی مولانا نجیب اشرف قاسمی سلمہ حال مقیم سعودیہ عربیہ اور وہ تمام اعزہ جو بُعدِمسافت اور انٹر نیشنل فلائٹ کے نہ چلنے کی وجہ سے عدم شرکت پر اپنی حرماں نصیبی کا اعتراف کر کے اشکبار تھے جو فطری بھی تھا اور شرعی بھی ۔
تھوڑی دیر میں ظہر کی آذان ہوئی افراد خانہ اپنی آنکھوں میں آ نسووں کی لڑی اور زباں پر کلمہ توحید کا نغمہ سجاے ہوے امین ملت کے جنازہ کو اپنے کندھوں پر لے کر گھر سے باہر نکلے اور ظہر کی نماز سے پہلے ہی ادارہ کی جنو بی عمارت کے سامنے رکھ دیا گیا ۔ حاضرین نے قوم و ملت کے اس عظیم خادم کی آخری زیارت کی احقر نے بھی خوب دیکھا اور دیکھ کر اطمنان کی سانس لیا کہ جانے والا مسافر اپنی تیاری کے ساتھ جارہاہے ، چہرہ متبسم و شگفتہ طمانیت و تسکین کا پیکر تھا اور اس پر ایمان و یقین کی جلوہ نمائی تھی جو لا نمبے سفر کی پوری تیاری کیساتھ گھر سے باہر آ کر عازم سفر تھا ۔ سبھوں نے دیکھا اور دیکھ کر قرار حاصل کیا ۔
وقت مقررہ پر ظہر کی نماز ادا کی گئی اور بعد نماز ظہر متعینہ وقت کے مطابق شمالی بہار کی عظیم شخصیت پیکر علم و عمل ، مرجع خاص و عام مخدوم بہار حضرت مولانا قاری” محمد طیب” صاحب رح کے خلیفہ و مجاز ، بہار کی عظیم و قدیم با فیض درسگاہ الجامعة العربیہ اشرف العلوم کنہواں کے ناظم اعلی محبوب العلماء والاولیاء حضرت مولانا ” محمد اظہارالحق” مظاہری صاحب دا مت برکاتھم نے وارثین کی خواہش پر نماز جنازہ پڑھائی ۔
*” تدفین "*
سیلاب اور بارش کے تسلسل کی وجہ سے عام قبرستان میں پانی بھرا ہوا تھا اس لئے اہل خانہ نے ادارہ کی پر شکوہ دیدہ زیب اور فن تعمیر کے اعتبار سے ممتاز، عالی شان دو منزلہ کثیر المقاصد مسجد، کے مغربی حصہ میں جنوب کی جانب اس عظیم انسانی عظمتوں شرافت کے پیکر کی تدفین کا فیصلہ کیا اور اب وہیں اسودہ خواب ہیں ۔ تدفین کے بعد مولانا "رزین اشرف” ندوی صاحب حفظہ اللہ نے عزیزی” منیب اشرف” سلمہ اور حضرت مولانا مفتی "محمد شفیق” صاحب مقام بھگوتی پور، بھروارہ، ضلع دربھنگہ سے فرمایا کہ سورہ بقرہ کی منتخب ایات سرہانے اور پاےتانے میں تلاوت کردی جاے۔ چنانچہ عزیزی” منیب” سلمہ نے سرہانے کی جانب” الم” سے لےکر "مفلحون” تک اور مفتی صاحب نے پاے تانے کی جانب” آ من الرسول” سے "ختم سورہ” تک دھیمی آواز میں تلاوت کیا۔ اس کے بعد حضرت مولانا” محمد اظہارالحق” صاحب مظاہری نے ہاتھ اٹھاکر جہری دعاء کرائی، حضرت مولانا سعید احمد صاحب نقشبندی کے علاوہ علماء ، مشائخ اور دیگر خواص بھی وہاں موجود تھے ۔دعائیں بڑی رقت آ میز ہوئیں، سب لوگ اشکبار تھے ۔ "نکیرین” کے سوال پر ثابت قدمی اور کامل مغفرت کے طالب تھے ۔
*تدفین کے بعد قبر پر سورہ بقرہ کی منتخب آیات کی تلاوت اور ہاتھ اٹھاکر اجتماعی اور جہری دعاء کا مسئلہ*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قبر کے سرہانے سورہ "بقرہ” کا پہلا رکوع اور پائے تانے میں آخری رکوع پڑھنا "حدیث شریف” سے ثابت ہے ، اس لئے اسے پڑھنا چاہئے۔
( کتاب الفتاوی تیسرا حصہ، صفحہ نمبر 189 ) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوے سناکہ جب تم میں سے کسی کا انتقال ہو جاے تو اس کو مت روکو، ان کو قبر تک پہنچانے میں جلدی کرو، اور اس کے سر کے پاس سورہ” بقرہ” کی ابتدائی آیات اور پاوں کے پاس آخری آیات پڑھی جائیں۔
اس لئے فقہاء نے تدفین کے بعد سورہ بقرہ کا ابتدائی اور آخری حصہ پڑھنے کو مستحب قرار دیا ہے ۔ ( کتاب الفتاوی تیسرا حصہ صفحہ نمبر 196 ) البتہ ان ایات کو بلا جہر پڑھا جاے ۔ (فتاوی دارالعلوم جلد نمبر 5 / صفحہ نمبر 405 )
تدفین کے بعد قبر پر میت کے لئے دعاو استغفار بھی مستحب ہے۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب میت کے دفن سے فارغ ہوتے تو قبر پر تھوڑی دیر ٹھرتے اور فرماتے کہ اپنے بھائی کے لئے استغفار کرو، اور اس کے لئے ثابت قدمی کا سوال کرو، کیونکہ اس وقت اس سے سوال ہو رہا ہے۔ چنانچہ فقہا نے تدفین کے بعد دعاء کو مستحب قراردیا ہے ۔ دعاء میں چونکہ ہاتھ اٹھانے کی گنجائش ہے اس لئے ہاتھ اٹھاکر دعاء کر سکتے ہیں ، حضرت "عبد اللہ بن مسعود” رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت” عبد اللہ ذو البجادَین” رضی اللہ عنہ کی قبر پر دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی تدفین سے فارغ ہوگئے تو قبلہ رخ ہو کر دونوں ہاتھوں کو اٹھا یا ۔ (فتح الباری جلد نمبر 11 / ص 144/ بحوالہ احادیث الصلاة والادعية الماثورة صفحہ نمبر 128) اس حدیث شریف سے دعاء کے لئے ہاتھوں کا اٹھانا اور قبلہ رخ ہونا ثابت ہوتا ہے ۔ اس لئے قبر پر دعاء کے وقت قبلہ کی طرف رخ ہو ، نہ کہ قبر کی طرف ، قبر کی طرف ہاتھ اٹھا کر دعاء کر نے سے فقہاء نے منع کیا ہے ۔ ( کتاب الفتاوی تیسراحصہ صفحہ نمبر 198 ) حضرت مفتی "عبد الرحیم” صاحب لاجپوری رح نے اپنے فتاوی میں لکھا ہے کہ تدفین کے بعد عند القبر مجتمع ہو کر دعاے مغفرت کرنا اور تلاوت کر کے بخشنا بلا تامل جائز ہے ۔ انہوں نے بطور استشھاد اوپر لکھی گئی حدیثوں کو ذکر فرمایا ہے وہیں حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی وصیت سے بھی استدلال کیا ہے ۔ دیکھئے فتاوی رحیمیہ جلد ہفتم ، ص 95/ شریعت اسلامیہ میں دعاءکا عام قانون آہستہ سے کرنا بلکہ اس کی روح عاجزی و مسکینی ہے اسی لئے چپکے چپکے اپنے رب سے دعاء مانگنا افضل ہے ۔ قرآن کریم میں رب کریم نے ارشاد فرمایا : ادعو ربكم تضرعاو خفيه لیکن حضرت مولانا مفتی نظام الدین صاحب رح سابق صدر مفتی دارالعلوم دیو بند نے اپنے فتاوی میں لکھا ہے کہ اگر سامعین کو متوجہ رکھنے یا دعاء کی کسی بعض جزء کی اھمیت ظاہر کرنے کے لئے کچھ جہر کے ساتھ بھی، کل دعاء یا بعض دعاء جہر سے مانگ لی جاے تو خلاف سنت اور قابل اعتراض بات نہ ہوگی ( منتخبات نظام الفتاوی جلد اول، ص ، 262/ اسی موضوع سے متعلق ایک استفتاء کے جواب میں جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاون، پاکستان کے فتاوی میں جو تفصیلات موجود ہیں ہم قارئین کی سہولت اور اطمنان کے لئے اس کو بھی یہاں درج کر دیتے ہیں۔
*کیا تدفین کے بعد سورہ بقرہ کا اول و آخر جہرا تلاوت کیا جاے یا سرا ؟ پہلے قبر پر دعاء کی جاے یا تلقین ؟ دعاء اجتماعی کی جاے یا انفرادی ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔* جواب : ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) میت کو قبر میں دفن کر نے کے بعد اس کے سرہانے سورہ” بقرہ” کی ابتدائی آیات اور پائنتی میں سورہ بقرہ کی آخری آیات پڑھنا مسنون ہے ، یہ آیات جہرا اورسرا دونوں طرح پڑھ سکتے ہیں ۔
اس سلسلے میں دو روایتیں ملتی ہیں : 1 ۔ معجم کبیر میں ہے کہ حضرت لجلاج رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے عبد الرحمن بن علاء رحمة اللہ کو وصیت کی تھی کہ جب میرا انتقال ہو جاے اور میرے لئے قبر تیار کر دو تو مجھے قبر میں ڈالتے وقت "بسم الله و علی ملة رسول الله ” پڑھو ، میری قبر پر مٹی ڈالو اور پھر میرے سرہانے "سورہ بقرہ ” کی ابتدائی اور اختتامی آیتیں پڑھو، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوے سنا ہے ۔
امام نورالدین ہیثمی رحمة اللہ نے اس روایت کے راویوں کی توثیق کی ہے ۔
(2) ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جب تم میں سے کسی کا انتقال ہوجاۓ تو اسے روکے مت رکھو ، بلکہ جلد از جلد قبر تک پہنچاٶ، اس کے سرہانے سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات اور پائنتی کی جانب "سورہ بقرہ ” کی اختتامی آیات پڑھی جائیں ۔ امام ہیثمی رحمہ اللہ نے” یحیی بن عبد اللہ” با بلتی کی وجہ سے اس روایت کو ضعیف کہا ہے ، لیکن حافظ ابن حجر رحمة اللہ نے اس کی سند کو حسن کہا ہے ۔
علامہ شامی فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آ پ نے میت کے سرہانے "سورہ بقرہ” کی ابتدائی اور پیروں کی جانب اختتامی آیات پڑھیں ۔
فتاوی ہندیہ میں ہے کہ اگر قبر کے پاس قرآن کریم پڑھنے سے میت کو اس آواز سے مانوس کرنا مقصد ہے تو اس طرح کرنا جائز ہے ، اس سے معلوم ہوا کہ قبر کے پاس جہرا تلاوت کرنا جائز ہے ۔
(2) قبر میں تدفین کے بعد اولا مذکورہ آیات پڑھی جائیں اور اخر میں دعاء کی جاے یہی متوارث عمل ہے ۔
(3) میت کو دفن کرنے کے بعد قبلہ رخ ہو کر ہاتھ اٹھا کر دعاء کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ، لہذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیر و ی کرتے ہوے قبلہ کی طرف رخ کر کے ہاتھ ا ٹھا کر دعاء کرنا جائز ہے ۔ تدفین کے بعد انفرادی طور پر دعاء کرنا بھی درست ہے اور جولوگ تدفین میں شرکت کی غرض سے آ ے ہیں ان کے ساتھ مل کر اجتماعی دعاء بھی درست ہے ۔ یہ دعاء سرا بھی کرسکتے ہیں اور جہرا بھی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے "عبد اللہ ذوالبجادین” رضی اللہ عنہ کے لئے قبلہ رخ ہاتھ اٹھا کر باآواز دعاء فرمائی جسے سن کر حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے ، البتہ جہر کو لازم نہ سمجھاجاے ۔ کفایت المفتی میں ہے :
اس حدیث ( فی سنن ابی داود ، اذا فرغ من دفن المیت وقف علیہ فقال : استغفروا الخ ) کے سیاق سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ تمام حاضرین ایک ساتھ دعاء کرتے تھے ، کیونکہ دفن سے فارغ ہو نے کے بعد واپس آنے کا موقع تھا، لیکن اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم واپسی میں کچھ تاخیر و توقف فرماتے تھے ، اور میت کے تثبیت و مغفرت کی خود بھی دعاء فرماتے تھے اور حاضرین کو بھی اسی وقت دعاء کرنے کا حکم کرتے تھے ، کیوں کہ ” فانہ الآن یسئل ” اس کا قرینہ ہے ، پس تھوڑی دیرسب کا توقف کرنا اور حاضرین کو اسی وقت دعاءو استغفار کا حکم فرمانا اور سب کا موجود ہونا اور اس وقت کا وقت قرب سوال نکیرین ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ سب حاضرین کی دعاء ایک وقت میں اجتماعا ہوتی تھی ، اور یہی معمول و متوارث ہے ، لیکن واضح رہے کہ یہ اجتماع جو حدیث سے ثابت ہے اجتماع قصدا للدعاء بھی نہیں ہے ، بلکہ اجتماع قصدی دفن کے لئے ہے ، اگرچہ بسبب امور متذکرہ بالا اس وقت دعاء بھی اجتماعی طور پر ہوگئی ۔؛؛
فتوی نمبر : 144109200128
( دارالافتاء ، جامعہ علوم اسلامیہ علامہ "محمد یوسف” بنوری ٹاون پاکستان ۔) مندرجات بالا تفصیلات سے یہ بات یقینی طور پر آشکارا ہوجاتی ہے کہ اگر کہیں تدفین کے بعد قبر پر اجتماعی دعاء اور دھیمی آواز میں حسب ہدایت سورہ "بقرہ” کی تلاوت کردی گئی تو یہ امر ناجائز اور خلاف شرع نہ ہوگا اس لئے متصلا یا بعد میں واجب النکیر بھی نہ ہوگا جیسا کہ بعض مرتبہ لوگ بزعم خود عجلت پسندی سے کام لیتے ہیں اور اس کو فریضے کی ادائگی سمجھ لیتے ہیں ۔ لیکن جب اس قسم کے عمل "مستحبات” کو واجب اور لازم سمجھ کر انجام دیا جانے لگےگا تو اس کو حد اعتدال پر رکھنے کے لئے استفسار و استفہام کے بعد راہنمائی کیجاسکتی ہے ۔ دوسری ایک بات اور معلوم ہوتی ہے کہ اگر کوئی شخص شریعت و سنت کے خلاف کوئی کام دین و شریعت سمجھ کر انجام دینے کی کوشش کرے گا تو ہمارے دیار اور گرد و پیش میں ایسے باحوصلہ اور باہمت نوجوان عالم دین بھی ہیں جو بر وقت گرفت کریں گے اور اپنی پیاری شریعت کی حفاظت کے لئے اگلی صفوں میں ہوں گے ۔ اور یہ اس امت کی خصوصیت ہے کہ اس کا سواد اعظم گمرا ہی پر متفق نہیں ہوگا لیکن یہاں نہ تو کوئی مسئلہ گمراہی کا تھا اور نہ ہی شریعت کی مخالفت کا اس لئے ایسے مواقع پر خود کو معتدل رکھنا بھی ضروری ہوگا ورنہ تو حدت کے بجاے شدت کی بو آنے لگے گی جو کبھی تعمیر کے بجاے تخریب اور اصلاح کے بجاے افساد کا سبب بن سکتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*جنازہ اٹھا تے وقت اور لے جاتے وقت ذکر جہری کا مسئلہ*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آ ج کل جنازہ اٹھاتے وقت اور جنازہ لے جاتے وقت بلند آواز سے ذکرو تسبیحات کے پڑھنے کا رواج بڑھتا جارہا ہے جس کو فقہا نے مکروہ لکھا ہے۔ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین مواقع پر خاموش رہنا اللہ تعالی کو محبوب ہے ان میں سے ایک جنازہ کےساتھ چلنا بھی ہے ۔ جنازہ میں ساتھ چلنے کا مقصد عبرت و موعظت کا حاصل کرنا ہے، اپنی موت کی یاد ، آخرت کی فکر ، قبر کی تنہائی کا احساس اور حساب و کتا ب کا استحضار کرنا ہوتا ہے ۔ اس لئے عبرت آموزی اور غور و فکر کے لئے خاموشی کی حالت زیادہ موزوں ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ فقہا نے بلند آواز سے ذکر کرنے کو "مکروہ تحریمی” قرار دیا ہے ، البتہ آہستہ آہستہ ذکر و تلاوت کی اجازت دی ہے ۔ (ماخوذ از کتاب الفتاوی تیسرا حصہ ، صفحہ نمبر 188) اہل علم اور خصوصا علماء کی نمائندہ جماعت کو اس پہلو پر بھی نظر رکھنی چاہیئے ۔ بہر حال
خوشی ہو یا غم شریعت و سنت کا پاس ولحاظ رکھنا اور اس پر مضبوطی سے قائم رہنا ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔ اور وہی ھمارے لئے سفینہ نجات ہے ۔
حضرت مولانا امین اشرف قاسمی صاحب ؒ کی مجموعی زندگی شریعت و سنت سے عبارت تھی اور اسی کی ترویج و اشاعت پر زندگی مکمل کردی ۔ وہ علماے دیوبند کے مضبوط ترجمان اور اھل سنت والجماعت کے سپہ سالار تھے ۔ احقاق حق اور ابطال باطل سے لے کر ادارہ دعوت الحق کے قیام اور کام تک ان کو اپنے ہم عصروں پر اولیت اور فوقیت حاصل تھی ، وہ ایک اچھے ملنسار ، مہمان نواز اور میزبان تھے ۔ اکابر امارت شرعیہ کی زبان اور ان کے قدرداں تھے ، الجامعة العربیہ اشرف العلوم کنہواں ، جامعہ عربیہ ہتھوڑا باندہ اور دارالعلوم دیوبند ان کا تعلیمی اور تربیتی قبلہ تھا ، تبلیغی جماعت سے فکری ہم آہنگی تھی "جماعت” جب بھی علاقے میں آ تی یا ادارہ میں پہنچتی تو اس کی ضیافت و میزبانی سے لے کر راہنمائی تک کی ہر ممکن خدمت کو اپنے اور اپنی نسلوں کے لئے سعادت سمجھتے ۔ صفائی ستھرائی ، سلیقہ مندی ،انتظام و انصرام ، وقار و اعتبار کیساتھ رہنا اور افراد خانہ سے لے کر ماتحتوں کے لئے بھی یہی حوصلہ رکھنا ان کی شناخت اور پہچان بن گئی تھی ۔
مولانا ؒ : ہمارے درمیان نہیں رہے وہ ہم سے پہلے گئے ہیں اور ہم سب بعد میں جانے والے ہیں وہ موت کی برکتوں کے ساتھ گئے ہیں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعاء مانگی تھی "الھم بارک لی فی الموت ” کہ اے اللہ ! مجھکو میری موت میں برکت عطاء فرما! ظاہری اعتبار سے موت کی برکت سمجھ میں نہیں آتی ہے لیکن علماے عارفین نے اس دعاء کی وضاحت کی ہے کہ موت کی پہلی برکت یہ ہے کہ پاکی کی حالت میں ہو ۔ دوسری برکت یہ ہے کہ خاتمہ ایمان پر ہو۔ تیسری برکت یہ کہ مرنے کے بعد غسل ، کفن ،نماز جناز اور قبر مل جاے ۔ اہل خانہ اور پسماندگان بتائیں کہ کرونا وائرس اور موسم کی ناہمواری کے با وجود وہ کون سی برکت ہے جو اللہ پاک نے اپنے بندہ "امین” کو عطاء نہیں فرمایا یقینا ساری برکتیں ان کے حصے میں آئیں اور رب کریم کی شان کریمی سے امید ہی نہیں بلکہ یقین ہے کہ اپنا فضل فرمائیں گے ، وہ بڑا کریم ہے اور ستر 70 / ماوں سے زیادہ مہربان ہے ۔ لیکن ان سب کے باوجود مولانا کا سانحہ ارتحال خانوادہ ابراہیمی اور اشرف برادران سے لے کر علمی اور عوامی حلقہ کے لئے خصوصا اطراف و جوانب کے لئے ایک بڑا سانحہ ہے ۔
مولانا ؒ : ایک بھائی کو چھوڑ کر تمام بھائیوں میں بڑے تھے اور بڑے بھائی کی ذمہ داری بھی بڑی ہوتی ہے خاص طور پر اس وقت جب والدین کریمین کمزور اور ضعیف ہوں ۔ اور ان کے ذمہ حق پرورش بہت ہو ، تو اس وقت بڑے بھائی کو بہت کچھ جھیلنا پڑتا ہے ۔ مولانا "محمد علی” جوہر رح سے کسی نے پوچھا کہ آپ کا تخلص "جوہر” ہے اور مولانا شوکت علی صاحب جو آپ کے بڑے بھائی ہیں ان کا تخلص کیا ہے ؟ تو اس پر مولانا "محمد علی” جوہر رح نے برجستہ کہا کہ ان کا تخلص زمینی اور عملی ہے البتہ مخفی ہے اور وہ شوہر ہے ۔ چونکہ شوہر کی ذمہ داری میں مالیات کا نظم و نسق ، تعلیم و تربیت ، طبعیت و صحت ، شریعت و شرافت کا لحاظ و اعتبار سب شامل ہوتا ہے اس لئے مولانا محمد علی جوہر رح نے اپنے بڑے بھائی کے بارے میں فرمایا کہ ان کا تخلص "شوہر ” ہے ۔ حضرت مولانا محمد امین اشرف صاحب قاسمی رح کی حیثیت ذمہ داریوں کے اعتبار سے پوری فیملی میں کچھ ایسی ہی تھی وہ اپنی فیملی کے لئے ایک اچھے بھائی ، عمدہ مربی ، فکر مند استاذ اور بمثال گارجین تھے۔ اس وقت پورا گھرانہ جو علم و فضل کا مرکز ہے، وہ خدا کی عنایت ، والدین کی دعاء اور مولانارح کی فکرو مساعی کا ثمرہ ہے ۔خود مولانارح کے چھوٹے بھائی اور شاگرد حضرت مولانا مفتی محمد ثمین اشرف قاسمی صاحب دامت برکاتھم نے احقر سے بتایا کہ بڑے بھائی جان ہی مجھکو باندہ لے جاکر حضرت باندوی رح کے قدموں میں بچھا دیا اور پھر وہاں سے دیوبند لے گئے اور حضرت مولانا مفتی "محمود حسن” گنگوہی رح کا اسیر اور گرویدہ بنا دیا آج جوکچھ سیکھ رہاہوں یا سیکھا رہا ہوں سب ان کی قربانیوں کا نتیجہ ہے ۔ مولانارح: کے دوسرے چھوٹے بھائی حضرت مولانا "محمد رزین اشرف” ندوی حفظہ اللہ نے تدفین کے وقت اپنی اشکبار آنکھوں ، شکستہ دل اور حد درجہ متاثر لہجے میں فرمایا کہ میرا پورا خانوادہ پھر ایک بار یتیم ہو گیاہے ۔ والد گرامی کے وصال کے بعد جو یتیمی ہاتھ آئی تھی بڑے بھائی جان کی وجہ سے اس یتیمی کی بے بسی کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا ۔ اب ھمارے یہ محسن بھی داغ مفارقت دے گئے ۔ رب کریم ان پر کرم کرے اور ہم سب کو صبر جمیل دے ۔ مولانا "محمد رزین اشرف” صاحب کی اس ترجمانی نے سب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور حاضرین کی آنکھیں برسنے لگیں۔ احقر راقم بھی مولانا کے قریب ہی کھڑا تھا لیکن ان کے غم کے سامنے کچھ کہا نہ جا سکا بلکہ صبرو سکوت ہی کو ان کے غم کا شریک بنا دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*مولانارح سے پہلی ملاقات اور پر اعتماد تعلقات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*
سن 1992ء کے اواخر یا سن 1993ء کے اوائل میں مولانا رح سے ادارہ دعوت الحق میں ملاقات ہوئی اس وقت میرے ایک محسن استاذ عالی قدر حضرت مولانا "محمد عزیر اختر” قاسمی صاحب دامت برکاتھم مقام بیل پکونا ضلع مظفرپور وہاں استاذ تھے ، داعی اسلام حضرت مولانا "عبد الرزاق” قاسمی صاحب مقام بینی آباد ضلع مظفرپور نائب ناظم تھے ، اور ھمارے بزرگ ساتھی مخلص دوست حضرت مولانا "ابونصرقاسمی” مقام مصراولیاء ضلع مظفرپور ، اور مرنجامرنج نوجوان عالم دین جن کی پیشانی پر ان کا مستقبل روشن تھا حضرت مولانا "محمد رزین اشرف” ندوی صاحب حفظہ اللہ بھی وہاں مدرس تھے ۔احقر اپنے استاذ اور ساتھی سے ملاقات کے لئے حاضر ہوا تھا، اسی سفر میں پہلی مرتبہ مولانارح اور حضرت مولانا مفتی” محمد ثمین اشرف” قاسمی صاحب دامت برکاتھم کی زیارت ہوئی تھی ۔ تبادلٸہ سلام اور تعارف کے بعد حضرت مولانا "محمد امین اشرف” قاسمی صاحب نے فرمایاکہ آواپور کا میں نے بہت نام سنا ہے لیکن کبھی گیا نہیں ہوں ۔ میں نے موقع غنیمت جانا اور قدم رنجائی کے لئے دعوت دے دی ، دعوت قبول بھی ہوگئی اور جمعہ کے دن کا نظام بھی طے پاگیا ۔ مولانارح اپنے بھائی مفتی "محمد ثمین اشرف ، رزین اشرف” اور دیگر رفقاء کے ساتھ اپنی جیپ سے آواپور راقم کے غریب خانہ پے تشریف لاے ۔ہم خوردوں کے لئے ان بڑوں کو مدعو کرنا ممکن نہیں تھا لیکن بڑے ہی جب توجہ فرمادیں تو یہ ان کی عنایت ہوتی ہے اس وقت میرے ساتھ یہی ہوا ۔ والدین کریمین سے مہمان کی تشریف آوری کا تذکرہ پہلے ہی کردیا تھا اس لئے ضیافت کا انتظام بھی ہو چکا تھا اور مہمان کی تشریف آوری کے لئے سراپا منتظر تھا کہ بر وقت اصحاب علم وفضل کا مبارک و مسعود قافلہ پہنچ گیا بہت خوشی ہوئی والد صاحب نے سب لوگوں کا پر جوش استقبال کیا ۔ پانی ، شربت ، چاے کے بعد پہلے سے طے شدہ نظام کے مطابق مفتی "محمد ثمین اشرف” قاسمی صاحب کو آواپور کی جامع مسجد میں خطاب کے لئے والد صاحب لے کر گئے اور مولانارح کو شاہ پور کی جامع مسجد میں خود لے کر گیا۔ خطاب سے قبل مولانا اور ادارہ دعوت الحق کا مختصر تعارف کرایا اس کے بعد مولانا نے انتہائی بصیرت افروز ، چشم کشا اور موثر خطاب فرمایا مجھے یاد آتا ہے کہ اس خطاب میں انہوں نے ہجرت مدینہ کی منظر کشی کی تھی ۔ اس دن سے پورا شاہ پور آج تک ان کا گرویدہ ، فدائی اور گرفتہ ہے ۔
نماز جمعہ سے فارغ ہو کر سب لوگ گھر پر تشریف لاے اور ماحضر تناول فرمایا ۔ واپسی کے وقت احقر نے مولانارح سے دعاء کی گذارش کیا مولانا نے بڑی رقت آمیز دعاء کی اور اہل خانہ پر ایک خوبصورت نقش چھوڑ گئے ۔ اس کے بعد گھر کے لئے واپسی ہوگئی جاتے وقت مولانا نے فرمایا کہ اگر کوئی استاذ ہوں تو راہنمائی کریں ادارہ کو ضرورت ہے۔ میں نے ایک "عالم” کی راہنمائی کی بلکہ خود ان کو لے کر ان کے پاس گیا مولانا نے تقرری کی درخواست اور کچھ تعلیمی جائزہ لیا اس کے بعد مجھے تنہائی میں بلایا اور فرمایا کہ آپ خود یہاں آ جائیں تو اچھا ہوگا ۔ میں نے کہا کہ اس وقت میرا بحال ہو جانا مناسب نہیں معلوم ہوتا چونکہ میں تو ان کی بحالی کے لئے آیا تھا اس لئے جب تک ان کو کوئی جگہ مل نہیں جاتی اس وقت تک میرے لئے صحیح نہ ہوگا لیکن جب ان کی دوسری جگہ بحالی ہوگئی اور وہ وہاں کام پر لگ گئے تو پھر میں ادارہ دعوت الحق گیا اور میری تقرری ہوئی ۔ تقریبا دوسال یا اس سے کچھ زیادہ عرصہ تک وہاں پڑھایا اس وقت ادارہ کے پاس بلند بالا ، پر شکوہ اور دیدہ زیب عمارتیں تو نہیں تھیں لیکن معنویت بہت تھی ، تعلیم و تربیت کا اچھا ماحول تھا ، ادارہ اپنی سادگی میں عوام و خواص کی توجہ کا مرکز تھا، علاقہ مضافات کے لوگ بھی اس ادارے کو اپنے دین وایمان کا مرکز سمجھتے تھے ، ادرہ اپنی تمام تر ابتدائی اور ابتلائی صورت حال کے باوجود اپنی خوبصورتی ، نفاست و پاکیزگی اور اثر انگیزی میں اپنی مثال رکھتاتھا ایک طرف مولانا رح کی چاک و چوبند نظامت تھی تو دوسری داعی اسلام حضرت مولانا عبد الرزاق قاسمی صاحب رح مقام بینی آ باد ضلع مظفر پور کی فکر مندی اور عملی مساعی بھی تھی ، استاذالاساتذہ حضرت مولانا محمد عزیر اختر قاسمی صاحب دامت برکاتھم مقام بیل پکونا ، مرنجا مرنج اور روشن مستقبل عالم دین حضرت مولانا "محمد رزین اشرف ” ندوی حفظہ اللہ ، جواں سال نیک نام فاضل اور مولانارح کے معتمد خاص حضرت مولانا "ابونصر” قاسمی صاحب مقام مصر اولیاء ضلع مظفر پور کی تعلیمی ، تربیتی اور مشفقانہ تدریسی خد مات ادارہ کو پہلے سے حاصل تھی اس لئے ادارہ اپنے مخلصین کی مساعی اور توجہ سے ہرا بھرا تھا البتہ حضرت ناظم صاحب ادارہ کی معنوی ترقی کے ساتھ ظاہری استحکام کے لئے پر عزم تھے ۔ جس کو مولانا رح نے اپنی حیات میں بہت آ گے بڑھایا اس وقت ادارہ کی شاہجہانی کثیرالمقاصد تعمیرات، انکے عزم بالجزم کا ثمرہ اور خدا کی غیبی نصرت کا شاہکار ہے ۔
حضرت مولانارح ادارہ کے بانی اور ناظم تھے اس لئے ان کی زندگی پر نظامت کا مفہوم احتیاط بھی غالب تھا فقیہ ملت حضرت مولانا "زبیر احمد” قاسمی صاحب رح سابق ناظم الجامعتہ العربیہ اشرف العلوم کنہواں نے ایک مرتبہ اپنے شاگرد رشید "محمد انیس اسلم” صاحب آواپوری رفیق اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا سے فرمایا کہ دیکھو! میں” ناظم ہوں” اور نظامت میں احتیاط کا پہلو ملحوظ رکھنا ضروری ہوتا ہے ، بسا او قا ت اس پر بخالت کا اثر بھی ظاہر ہو نے لگتا ہے ۔ اس لئے تم لوگ بد گمان مت ہونا میں ہر طرح ادارہ کا خیر خواہ ہوں ۔ مولانا امین اشرف قاسمی صاحب رح ، فقیہ ملت کے شاگرد تھے اس لئے ان کا عکس بھی ان کی زندگی میں تھا اور ان کا یہ پہلو بھی ادارہ کی خیر خواہی پر مشتمل تھا ۔ دوسال کی مد ت تدریس میں بہت کچھ نشیب و فراز آ ے اور سفرو حضر میں مولانارح کے ساتھ رہنے کا اتفاق ہوا ، ان کی بے باکی ، جرات لسانی ، حرارت ایمانی، قوم و ملت کی خیرخواہی ، عقیدے کی پختگی ، تڑپ کر، بلک کر،اور بلک کر ، تڑپ کر اللہ سے مانگنے اور مانگتے رہنے کی شان خود سپر دگی کا بہت مشاہدہ ہوا۔
ایک مرتبہ حضرت مولانا مفتی” محمد ثمین اشرف” قاسمی صاحب کی بہت طبعیت خراب ہوگئی تھی اہل خانہ مایوس ہو چکے تھے مولانارح نے اپنے اہل خانہ اور ادارا ہ کے حضرات اساتذہ کے ساتھ مل مفتی صاحب کی صحت کے لئے ایسی دعاء فرمائی اور اتنا روے کہ ان کی ہچکیاں بند ہوگئیں ۔ اللہ پاک نے ان کی دعاء قبول فرمائی اور مفتی صاحب رو بصحت ہو نے لگے ۔
*مولانا کی امارت میں سفر حج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*
سن 2008 ء رب کریم نے اپنی شان کریمی سے” سفر حج” کی سعادت نصیب فرمایا ، اس سفر میں مولانارح : بھی اپنی اھلیہ کے ساتھ عازم سفر تھے ، پٹنہ حج بھون میں ملاقات ہوئی اس وقت میری خوشی کی انتہاء نہ رہی ، میرے ساتھ شکر پور کے الحاج محمد قاسم صاحب حال مقیم پونا اپنی اہلیہ کے ساتھ ، اور میری والدہ صاحبہ کے سگے مامو الحاج محمد زین العابدین مقام باسوپٹی ، پوسٹ ددری ضلع سیتامڑھی اور ممی محترمہ صالحہ خاتون ، اور مولانا محمد اسلام صاحب رح رام پور ، مولاناعبد القدوس صاحب بکھری اور محمد اسلام صاحب نانپور شریک سفر تھے ۔ روانگی سے پہلے حج بھون کی انتظامیہ کی جانب سے ود ا عیہ پروگرام کے بعد یہ اعلان کیا گیا کہ اس پورے قافلہ کے امیر سفر حضرت مولانا "محمد امین اشرف” قاسمی صاحب ہوں گے اور نائب امیر احقر راقم ہوگا ۔ مولانا کی امارت میں ضیوف الرحمن کا یہ قافلہ پٹنہ ایر پوٹ کے لئے روانہ ہوا، اور ایر انڈیا کی فلائٹ سے تھوڑی ہی د یر میں پٹنہ سے کلکتہ د م دم ایر پوٹ پہنچ گیا ۔ جمعہ کا دن تھا، کلکتہ پہنچ کر جمعہ کی نماز کا وقت ہو گیا ، چنانچہ ایر پورٹ ہی پر مولانا کی اما مت میں جمعہ کی نماز ادا کی گئی ، اسی دن بعد نماز مغرب کلکتہ سے "مدینہ شریف” کے لئے ہم لوگ روانہ ہو گئے ، ہم لوگ جس جہاز سے مد ینہ جا رہے تھے وہ بہت بڑا جہاز تھا ، مولانا نے فرمایا کہ پہلی دفعہ اتنے بڑے جہاز سے سفر کر رہا ہوں جبکہ وہ جہاز کا سفر بہت کر چکے تھے اور ہم لو گو ں کا پہلا سفر تھا ، اور میں نے تو یہ ارادہ پہلے ہی سے کر رکھا تھا کہ جہاز کا سفر ان شاء اللہ سفر حج سے ہی شروع کرونگا ، اللہ پاک نے قبول فرمایا اس کی برکت سے جہاز کا سفر اب اجنبی نہیں رہا ، رات کے ابتدائی حصے میں ہم لوگ "مدینہ شریف” پہنچے مولانارح نے اس پورے سفر میں ہم لوگوں کی بڑی راہنمائی فرمائی ، مدینہ میں ایک ہی بلڈنگ میں قیام رہا ، مدینہ شریف کے بعد "مکة المکر مه” کے لئے روانگی ہوئی ، ذوالحلیفہ میں عمرہ کا احرام باندھا گیا ، اور وہاں سے مکہ پہنچے تو وہاں بھی ایک ہی بلڈنگ میں قیام ر ہا ، عمرہ کے بعد ایام حج کا انتظار تھا، 8/ ذوالحجہ کو ہم سب لوگ ایک ہی ساتھ منی پہنچے ، ارکان حج ادا کیا اور حج سے فارغ ہو کر ایک ہی ساتھ پٹنہ واپسی ہو ے ۔ مدینہ منورہ، مکہ مکر مہ اور قیام منی کے دوران مولانارح سے دعاء کی درخواست کرتا رہا ، مد ینہ میں روضئہ اطہر سے قریب شمال کی جانب برقی چھتری کے ساے میں مولانا نے جو رقت آمیز ، اور خود سپردگی کے ساتھ بلک کر د عاء ما نگی کہ سیکڑوں کا مجمع شریک دعاء ہو گیا اور مکہ منی میں بھی یہی صورت حال رہی ۔
*ادارہ سبیل الشریعہ میں مولانا کا ورود مسعود ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*
تاریخ تو اب یاد نہیں رہی البتہ مولانا ادارہ میں از خود تشریف لاے یہ بھی ان کی خورد نوازی تھی ، اور ادراہ کو قریب سے دیکھا، اس کی زیر تعمیر "مسجد ایمان” جو ہنوز تشنہ تکمیل ہے اس کی وسعت ، اور کثیرالمقاصد صورت حال سے لے کر سادگی کا بڑی باریکی سے معائینہ فرمایا ، ادارہ کے قیام اور کام کے منظر اور پس منظر کو جانا دیکھا ، اپنی مسرتوں کا اظہار فرمایا اور اس وقت بھی مسجد کے سا منے کھڑے ہو کر بہت دعائیں کیں ، خود بھی پھوٹ پھوٹ کر روے اور حاضرین کو بھی خوب رلایا ، اور ایک عرصہ تک ان کی دعاوں اور شخصیت کا نقش حضرات اساتذہ اور طلبہ پر قائم رہا
ع : ایساکہاں سے لاوں کہ تجھ سا کہیں جسے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا: اب اپنے رب کی جوار لطف و رحمت میں ہیں نسبی اور معنوی ہر دو پسماندگان کو ان کی جدائی کا صدمہ ہے جو فطری اور شرعی ہے لیکن "شریعت اسلامی” ، نظام الاوقات اور زند گی کی اہمیت کے پیش نظر اس غم کو بھی موقت اور محدود کرتی ہے ۔ اس لئے اسی کے دائرے میں صبر و شکیبائی کے ساتھ زندگی گذارنے کے لئے پر عزم رہنا ہمارا ایمانی فریضہ ہو گا ۔ مجھے امید ہی نہیں بلکہ یقین ہے کہ مولانارح: نے اپنے پورے گھرا نے کی جو دینی تربیت کی ہے اور مذ ہبی مزاج بنایا ہے ، اس کا اثر ظاہر رہے گا اور مولانا رح کے تمام برادران، اہل خانہ ، عزیزی نجیب اشرف قاسمی ، لبیب اشرف ، منیب اشرف ، نبیل اشرف اور بیٹیاں سب کے سب صبر کی نعمتوں سے بہرور ہونگے ۔ بلاشبہ آپ تمام افراد خانہ ایسے عظیم مورث اعلی کے وارث ہیں کہ ان شاء اللہ نہ بھولے جائیں گے اور نہ بھولاے جائیں گے ۔ بس انہیں چند کلمات خیر اور کچھ اپنی یاد داشت پیش کر کے آپ سب کی تعزیت کرتاہوں ۔
دعاء گو و دعاءجو
احقر راقم آثم عاجزوناتواں محمد انواراللہ فلک قاسمی معتمد ادار سبیل الشریعہ رحمت نگر آواپور شاہ پور ۔
Comments are closed.