”علی نگر“ حلقہ اسمبلی کا موجودہ انتخابی منظرنامہ

”علی نگر“ حلقہ اسمبلی کا موجودہ انتخابی منظرنامہ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

ضلع دربھنگہ کی ”علی نگر“ حلقہ اسمبلی ان خاص سیٹوں میں سے ایک ہے جن کے نتائج پر پورے بہار کی نگاہیں رہنے والی ہے۔

 

سال 2008 میں تشکیل میں آئی، اس انتخابی حلقہ اسمبلی پر پہلی دفعہ 2010 میں اسمبلی الیکشن ہوا، اور بہار کے قدآور نیتا، سابق قاٸد حزب اختلاف و وزیر مالیات عبدالباری صدیقی کو راشٹریہ جنتادل (RJD) نے اپنا امیدوار بنایا، اور صدیقی نے اپنے قریبی حریف جنتادل یوناٸیٹیڈ (JDU) کے پربھاکر چودھری کو تقریبا 14 ہزار ووٹوں سے شکست دیا، اس وقت سے اب تک اس سیٹ پر راشٹریہ جنتادل (RJD) کا قبضہ ہے۔

 

یہاں اس بار دوسرے مرحلے میں یعنی تین نومبر کو ووٹنگ ہے، اس انتخابی حلقہ میں علی نگر، تارڈیہ اور گھنشیام پور سمیت تین بلاک کے درجنوں ”گرام پنچاپت“ کے 2 لاکھ 51 ہزار سے زادہ ووٹر ہیں، جس میں 52 فیصد سے زیادہ مرد، اور 47 فیصد عورتیں ہیں، جب کہ 10 کو نتائج کے آمد کی تاریخ بھی متعين ہے۔

 

گزشتہ 2015 کے اسمبلی انتخاب میں، جے ڈی یو (JDU) اور آر جے ڈی (RJD) کا مہاگٹھ بندھن، بی جے پی کی زیر قیادت والے این ڈی اے (NDA) کے خلاف میدان میں تھا، مگر کچھ سیٹیں ایسی تھی، جنہیں لے کر آر جے ڈی اور جے ڈی یو میں تقسیم کے دوران اتفاق راۓ نہیں ہو پایا تھا، ایسی ہی سیٹوں میں شامل علی نگر کی اس سیٹ سے آر جے ڈی اور جے ڈی یو دونوں نے اپنے امیدوار الگ الگ اتارے تھے، آر جے ڈی نے پھر سے صدیقی پر بھروسہ کیا، وہی جے ڈی یو نے بھی دوبارہ صدیقی کے سامنے پربھاکر چودھری کو ٹکٹ دیا، اس بار بھی نتیجہ 2010 کے جیسا ہی تھا، مگر ہار کا فرق تھوڑا کم ہوا، اور صدیقی نے چودھری کو 5 ہزار ووٹ سے شکست دی۔

 

ذرائع کے مطابق اس مرتبہ (2020 اسمبلی انتخاب میں) یہاں کے لوگ خاطرخواہ ترقياتی کام نہ ہونے کی وجہ سے عبدالباری صدیقی سے ناراض تھے، اسی لۓ پارٹی نے انہيں قدرے جدوجہد والے علی نگر سیٹ کے بجائے ”کیوٹی“ جیسے محفوظ مسلم اقلیتی حلقہ اسمبلی سے امیدوار بنایا ہے اور علی نگر میں عظیم اتحاد کی طرف سے راشٹریہ جنتا دل کے ٹکٹ پر ”بال کلیان پبلک اسکول پالی گھنشیام پور“ کے بانی، اعلی ہندو برادی سے تعلق رکھنے والے، وینود مشرا میدان میں ہیں، وینود گزشتہ بیس سالوں سے بھارتیا جنتا پارٹی کے متحرک کارکن رہے ہیں، ان کی پرورش و پرداخت بی جے پی کے زیر سایہ اور فکری نشونما آر ایس ایس شاکھاٶں میں ہوٸ ہے، متعدد الزامات کی وجہ سے چھ سال تک بی جے پی سے معطل بھی رہے، مگر پھر کوٸ دوسری پارٹی سے وابستہ نہیں ہوۓ تا آنکہ بی جے پی میں ان کی واپسی ہوگٸ، مگرپھر بھی متعدد مرتبہ ٹکٹ کی کوشش کرنے کے باوجود بھی ناکامی ہی ہاتھ لگی، اب بی جے پی سے ٹکٹ نہ ملنے پر اپنا بیس سال رشتہ منقطع کیا، بھگوا رومال گردن سے پھینکا، ہرا رومال کاندھے پر ڈالا، سماج وادی وچار دھارا کی دہائی دی، تیجسوی کا پریم چھلکا اور مہاگٹھبندھن سے لالٹین چھاپ کا ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگۓ۔

 

2019 میں جب CAA اور NRC کی مخالفت میں علی نگر اور پالی میں احتجاج عروج پرتھا، تب انہوں نے بھگوا جھنڈا کی ریلی پالی چوک سے نکالی تھی۔ CAA اور NRC کے موافقت، مودی حکومت کی حمایت کے ساتھ پورے پالی چوک میں بھگوا جھنڈے کے ساتھ جے شری رام کے نعرے لگوائے، اور ماحول اس قدر کشیدہ ہوگیا تھا کہ بڑے بزرگ اگر اپنی دانشمندی کا ثبوت نہیں دیتے تو فسادات بھی رونما ہو سکتا تھا۔ مگر اب ان سے کوٸ دقت نہیں ہے، کیونکہ اب آر جے ڈی میں آکر صاف ستھرے شبیہ کے حامل ہو گۓ ہیں، اور مسلمانوں کے زخم پر چھڑکا ہوا نمک شاید مندمل بھی ہوچکا ہے،

 

آر جے ڈی کے قومی جنرل سکریٹری عبدالباری صدیقی نے کس بنیاد پر اپنے حلقے کے لۓ اس کی شفارش کی ہوگی اور پارٹی سربراہ اعلی، تیجسوی یادو نے کس وجہ اسے دوسروں پر ترجیح دیتے ہوۓ ٹکٹ سے نوازا ہوگا، یہ اس حلقہ کے ووٹروں کے لۓ ایک ناقابل فہم اور حیرت انگیز معمہ ہی ہے۔

 

کیونکہ وینود اپنے پرچہ نامزدگی کے بعد ایک انٹرویو میں صدیقی صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہوۓ کہتے ہیں کہ :

 

”ہرکوٸ نیتا اپنا حلقہ اپنے بیٹے بھتجے یا کسی خاص رشتہ دار کے چھوڑتاہے، مگر صدیقی صاحب نے ایسا نہیں کیا، اور متھلانچل کی وراثت کی تحفظ کے لۓ ایک برھمن کو یہاں سے ٹکٹ ملا ہے، یہ یہاں والوں کے لۓ فخر کی بات ہے“۔

 

اس سے ہر کس و ناکس کے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ صدیقی نے اپنا حلقہ کسی اعلی ذات کے ہندو برادری کے لۓ چھوڑا ہے، تو تیسجوی یادو اور ان کی پارٹی کو چاہیۓ کہ صدیقی جیسے قدآور لیڈر کو ”کیوٹی“ جیسے مسلم اکثریتی حلقہ کے بجائے کسی اعلی ہندو برادری والے حلقہ سے ٹکٹ دے کر اور جیتا کر لاتے، تو ان کے فیصلے میں توازن و ہم آہنگی قرار دی جاسکتی تھی، مگر افسوس کے ایسا نہیں ہے۔

 

وہیں دوسری طرف بی جے پی اتحاد (NDA) سے سن آف ملاح کے نام سے مشہور، مکیش سہنی کی وکاس شیل انسان پارٹی (VIP) سے مصری لال یادو سامنے ہیں، مصری گزشتہ بار بھی بی جے پی کے امیدوار تھے شکست سے دوچار ہوئے، مگر پھر بھی 38.66 فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گۓ تھے، جبکہ جیتنے والے امیدوار صدیقی کو 48.29 فیصد ووٹ ملا تھا، انہوں نے دس فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے ان پر جیت درج کی تھی، مگر لوگوں کے مطابق اس وقت ان کے لیے راستہ بالکل صاف ہے اور انہیں ٹکر دینے والا کوئی نہیں ہے، ووٹروں ایسا کا کہنا ہے کہ : معلوم ہوتا ہے کہ مہاگٹھبندھن، یہ سیٹ بی جے پی اتحاد کو تحفے میں پیش کرنے کی ناکام کوشش کر رہی ہو، کیونکہ اس بار حالات تھوڑے الگ ہیں، وی آٸ پی کو پی جے پی، جے ڈی یو اور دیگر حلیف جماعتوں کی ووٹ ٹرانسفر ہونے کے بھی قوی امکان ہیں۔

 

تیسرے امیدوا سنجے کمار سنگھ عرف پپو سنگھ ہے، پپو شروع ہی سے آر جے ڈی میں تھے اور صدیقی کے بہت ہی قریبی مانے جاتے تھے، ذرائع کے مطابق ایسا کہا جا رہا تھاکہ صدیقی نے علی نگر کی سیٹ پپو سنگھ کے لۓ ہی خالی تھی، مگر آخری وقت میں نہ جانے کیا ہوا ! پپو سنگھ کے بجائے وینود مشرا کو ملا اور پپو نے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے آر جے ڈی چھوڑ کر پروگریسیو ڈیموکریٹک الائنس (PDA) سے راجیش رنجن عرف پپو یادو کی، جن ادھیکار پارٹی (JAP) سے ٹکٹ حاصل کرلیا، مقامی لوگوں کے مطابق اس سے بھی آر جے ڈی کا روایتی ووٹ تقسیم ہونے کا امکان ہے اور بی جے پی اتحاد کی راہیں بھی ہموار ہوگی۔

 

وہیں علاقے کے اقلیتی اکثریتی طبقے کو اس بات کی امید تھی کہ عظیم اتحاد سے کوٸ نوجوان مسلم چہرہ اس حلقہ سے ہوتا تو ذیادہ بہتر تھا، مگر ایسا نہ ہونے کی وجہ سے دو مسلم امیدواروں نے بھی اپنا پرچہ نامزدگی کرایا گیا ہے،

 

پہلے نصر نواب ہیں، قیصر نواب کے چھوٹے بھاٸ ہیں، قیصر نواب ”گھنشام پور بلاک“ کے ”پالی“ پنچایت کے ”سمیتی“ تھے، ان کے انتقال کے بعد اسی پوسٹ پر ان کے چھوٹے بھائی نصر نواب کو جیت ملی اور ”گھنشام پور بلاک“ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ بطور مسلم متقفہ طور پر ”ڈپٹی پرمکھ“ مقرر ہوۓ، مزید ”بلاک سوشل جسٹس کبینیٹ“ کے چیرمین، اور ریٸل بولسم انٹر نیشنل اسکول کے منیجنگ ڈائریکٹر بھی ہیں، نوجوان اور متحرک ہیں، انہوں نے گرینڈ ڈیموکریٹک سیکولر فرنٹ (GDSF) سے دیویندر پرساد یادو کی سماجوادی جنتا دل ڈیموکریٹک پارٹی (SJD) سے اپنا پرچہ نامزدگی داخل کیا ہے۔

 

جب کہ چوتھے امیدوار ڈاکٹر نسیم اعظم صدیقی ہیں یہ علاقے کے مشہور و معروف شخصیت جناب غلام فرید صاحب کے رشتے دار ہیں، اور بی جے پی کے دربھنگہ ضلع کے اقلیتی سیل کے صدر ہیں، پہلے بی جے پی سے ٹکٹ کے لۓ کوشاں تھے مگر نہیں ملنے پر اب بطور آزاد امیدوار انتخابی میدان میں اپنی قسمت آزمارہے ہیں۔

 

اس وقت صورتحال قدرے پیچیدہ ہے، یہاں سے مسلم امیدوار نہیں دینے کی وجہ سے یہاں مایوسی بھی ہے اور لوگوں کے مطابق بی جے پی اتحاد کی راستہ بھی صاف دکھ رہا ہے، مگر امید ہے کہ یہاں کے ووٹرس، گزشتہ انتخابات کی طرح اس مرتبہ بھی حکمت عملی سے کام لیں گے اور ماضی ہی کی طرح ووٹوں کی تقسیم اور اس کی بے حیثیت ہونے کی پالیسی کو غلط ثابت کر کے، اپنی سیاسی پختہ بصیرت کا عملی نمونہ ثبوت پیش کریں گے۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محمد سرفراز عالم قاسمی

اسسٹنٹ پروفيسر، ایم۔ٹی۔ٹی۔کالج مدھے پور، مدھوبنی۔

Comments are closed.