"خودکشی جرم بھی ہے، صبر کی توہین بھی ہے” (تحریرـ شہلا کلیم)

"خودکشی جرم بھی ہے، صبر کی توہین بھی ہے”

(تحریرـ شہلا کلیم)

 

عالمی ادارۂ صحت (W.H.O) نے دنیا بھر سے خودکشی پر ہونے والی 10 سالہ تحقیق کا تجزیہ پیش کیا کہ سالانہ آٹھ لاکھ افراد خودکشی کرکے اپنی جان لیتے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر 40 سیکنڈ میں ایک انسان خودکشی کرکے اپنی جان لے لیتا ہےـ دنیا میں خودکشی کی سب سے زیادہ شرح سویڈن میں ہے۔ جبکہ اسلام اور دیگر الہامی مذاہب میں خود کشی کو حرام قرار دیا گیا ہے۔

خود کشی کی خبر سنتے ہی جہاں ایک طرف ہر حساس دل درد و غم کی کیفیات سے دوچار ہوتا ہے وہیں دوسری طرف ایک عام فہم انسان بھی خود کشی کے اسباب اور وجوہات پر غور کرنے سے خود کو نہیں روک پاتاـ اور ذہن ایک ہی نکتے پر آ کر اٹک جاتا ہےــ ڈپریشن ــ ڈپریشن کے شکار افراد کثرت سے خود کشی جیسے قبیح فعل کے مرتکب ہوتے ہیں ـ لیکن یہ ڈپریشن ہے کیا؟ ماہرین نفسیات کے نزدیک جس طرح انسان دیگر جسمانی بیماریوں کا شکار ہوتا ہے ٹھیک اسی طرح ڈپریشن ایک ایسا ذہنی روگ ہے جو غم و یاس ، مسلسل اداسی اور مایوسی کی کوکھ سے جنم لیتا ہےـ وقتا فوقتا ہم سبھی اداسی، مایوسی اور بیزاری میں مبتلا ہو تے ہیں اور ہماری زندگیوں میں ان سے بہت زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ لیکن طبّی اعتبار سے اداسی اس وقت ڈپریشن کی بیماری کہلانے لگتی ہے جب اداسی کا احساس دیر پا رہے اور ختم ہی نہ ہوـ اداسی کی شدت اتنی زیادہ ہو کہ زندگی کے روز مرہ کے معمولات اس سے متاثر ہونے لگیں ـ ایسے لوگ ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں جو کسی trauma سے گزرے ہوں ـ یعنی مالی نقصان ، جاب کا چلے جانا، آبروریزی، محبت میں ناکامی، امتحان میں نمبر کم آنا یا فیل ہو جانا، کسی عزیز کی اچانک موت emotional and mental abuse غرض اسکی بے شمار وجوہات ہو سکتی ہیں ـ لیکن ڈپریشن کوئی لاعلاج مرض نہیں بلکہ دیگر امراض کی طرح یہ بھی قابل علاج بیماری ہےـ ماہرین نفسیات کے نزدیک ڈپریشن کا سب سے بہترین اور آسان علاج سائیکوتھراپی (یعنی گفتگو کے ذریعے علاج) ہےـ اپنے جذبات و احساسات اور ذہنی دباؤ کو کسی عزیز کے ساتھا شئیر کرکے ذہن کا بوجھ ہلکا کرنا سائکوتھراپی کہلاتا ہےـ ڈپریشن چونکہ گھٹن زدہ ماحول کی دین ہے چنانچہ سائکوتھراپی کے ذریعے ذہنی انتشار کو دوستوں، رشتےداروں یا کسی عزیز سے ساجھا کرکے انسانی ذہن کی اتھل پتھل اور گھٹن کو دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہےــ لیکن سائکو تھراپی کی یہ تشریح انتہائی ناقص ہے کیونکہ عزیز و اقارب کے ساتھ مسائل ساجھا کرکے ذہنی دباؤ کم تو کیا جا سکتا ہے ختم نہیں ــ سائیکو تھراپی ہو یا ڈپریشن دونوں میں سب سے اہم کردار (منفی یا مثبت) ماحول کا ہےــ چنانچہ سائیکو تھراپی کا تقاضہ یہ ہے کہ مکمل ماحول سازگار بنایا جائے جو علاج میں مثبت کردار ادا کر سکےــ اور ماحول کو سازگار بنانے کی ذمےداری فقط کسی سائکولوجسٹ پر ہی عائد نہیں ہوتی بلکہ یہ ہر فرد کا سماجی فریضہ ہےــ ہمارا چلنا، پھرنا، اٹھنا، بیٹھنا حتی کہ لکھنا پڑھنا اور ہمارا پیشہ بھی کسی کی زندگی میں مثبت یا منفی کردار ادا کر سکتا ہےــ اگر آپ مصور ہیں اور آپ کے تراشیدہ، زندگی سے بھر پور مجسمے کسی شخص کے اندر زندگی جینے کا جذبہ بیدار کرتے ہیں تو پھر آپ اپنے فن اور فرض دونوں میں کامیاب ہیں ـ اگر آپ قلمکار ہیں اور آپکا لکھا کوئی لفظ کسی کے اندر جینے کی امنگ پیدا کر دیتا ہے تو پھر واقعتا آپ تخلیق کار ہیں ــ لیکن اگر آپکا فن، آپکے لفظ انسانی زندگی کو موت کی وادیوں میں دھکیلنے کا سبب بنتے ہیں تو معاف کیجیےگا آپ ہنر مند تو ہو سکتے ہیں، آرٹسٹ نہیں ـــ لوگوں کو وحشتیں عطا کرکے گریباں چاک کرنے پر اکسانا فن نہیں بلکہ اصل فنکار تو وہ رفوگر ہے جو اس کمال مہارت سے بخیہ گری کرے کہ جوڑ بھی سجھائی نہ دےــ حقیقی آرٹسٹ تو وہ بچہ ہے جو سرکس کے باہر لگی لمبی قطار میں اپنے جیسے غریب بچے کی حسرتوں پر خواہش قربان کرکے اپنی حسرتیں دل میں لیے الٹے پاؤں لوٹ آیا اور لوگوں کے فسردہ چہروں پر مسکان لانے کیلیے چارلی چیپلن بن گیاـ جو غمزدہ چہرے پر خوشی کا مکھوٹا چڑھا کر تاعمر لوگوں کو زندگی جینے پر اکساتا رہاـ اور خود بارشوں میں چلتا رہا اور کہتا رہاـــ I always like walking in the rain, so no one can see me cring.

اصل تخلیق تو O’ Henry کی وہ last leaf ہے جو بستر مرگ پہ پڑے وجود میں روح پھونک دےــ کیونکہ جہاں آرٹ ہے وہاں زندگی ہے اور جہاں زندگی ہے وہاں آرٹ ہے!

لیکن مقام افسوس ترقی یافتہ دنیا کا المیہ یہ بھی ہے کہ نئے نئے تجربات کے تجسس میں "موت” کو بھی ایک ایکسپیریمنٹ بنا دیا گیاـ اور خود کشی جیسے قبیح فعل کو جدیدیت اور مارڈنزم کے لبادے میں لپیٹ کر نوجوان نسل کے سامنے پیش کیا گیاـ اور اس کے لیے ایسی پرکشش راہیں متعارف کرائی گئیں کہ عقل و خرد کی ایک نہ چلی اور جدید نسل کثرت سے اپنے نوجوان سروں کی بلی "ڈیتھ گیمز” کی دیوی کو چڑھانے میں فخر محسوس کرنے لگی ــ اور مارڈن دنیا موت کی وہ تجرباہ گاہ بن گئی جہاں خود کش بہادر اور زندگی کیلیے جد و جہد کرنے والے بیک ورڈ اور دقیانوسی قرار دے دیے گئےـــ جاپان میں خودکشی کو ایک مقدس اور بہادرانہ فعل سمجھا جاتا ہے اور لوگ ذرا ذرا سی بات پر اپنے آپ کو ہلاک کر لیتے ہیں ـ حالانکہ ایک عام فہم شخص بھی بخوبی سمجھتا ہے کہ موت کو گلے لگا کر زیست کی الجھنوں سے فرار حاصل کرنے والوں سے زیادہ کم ہمت اور پست حوصلہ کون ہو سکتا ہے بھلا؟؟

خودکشی کے یہ تمام تر عوامل و عناصر بجا سہی لیکن یہ کیونکر ممکن ہے کہ کسی فعل کے ارتکاب کا سارا ذمہ مفعول کے سر ہو اور فاعل اس سے بری قرار دیا جائےــ چنانچہ خود کشی کرنے والے افراد سب سے پہلے اور سب سے بڑے مجرم ہیں ـ خود کشی دراصل ایک آتنک ہے کیونکہ کوئی بھی خود کش اکیلے نہیں مرتا بلکہ اپنے ساتھ ڈپریشن کے شکار ان تمام دلوں کو ہمت اور حوصلہ عطا کر جاتا ہے جو زندگی سے بیزار ہو چکے ـ نیز انکے لیے راہیں ہموار کر جاتا ہے جو خودکشی میں کشش محسوس کرتے ہیں ـ مزید یہ کہ طبعی موت مرنے والوں کی بنسبت خود کشی کرنے والے اپنے والدین اور عزیز و اقارب کی زندگیاں اجیرن کرکے دنیا سے رخصت ہوتے ہیں ــ یہاں اس پہلو کو طول دینے کی بجائے اس ضمن میں ایک نوجوان شاعر طارق مسعود کا وہ شعر بیان کر دینا کافی ہوگا جو اپنے اندر کہانیاں سموئے ہوئے ہےــ

خود کشو ! تم مرے نہیں تنہا

تم نے جانیں بھی لے لی ماؤں کی

انسانی جبلت ہر آن تبدیلی چاہتی ہےـ خوشی و غمی فطری تقاضہ ہےـ اور ان دونوں کا تال میل ایک متحرک زندگی کی علامت؛ کیونکہ فقط ایک ہی حالت میں رہنا جمود کا ثبوت ہےــ اور جس طرح ٹھہرے ہوئے تالاب کے پانی کا گدلا ہونا لازمی ہے ٹھیک اسی طرح ایک ہی حالت پر زندگی گزارنے والوں کا ڈپریشن میں چلے جانا عام بات ہے؛ خواہ وہ حالت غم ہو یا حالت خوشی ـ محرومی وناکامی اور اداسی و مایوسی کا شکوہ کرنے والے اس بات پر غور کیوں نہیں کرتے کہ یہ رنج و غم دراصل زندگی کی رنگینیوں اور زیست کے حسن کو دوبالا کرنے کیلیے ہوا کرتے ہیں ـ انسانی جبلت جو ہر آن تبدیلی چاہتی ہے؛ بیزار نہیں ہو جائےگی محض حالت خوشی میں رہتے رہتے؟ اور اسکی لاتعداد مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں ـ دنیا کے امیر ترین افراد ، بڑے بڑے سلیبریٹیز جن کی زندگی ہر قسم کی ناکامی و محرومی سے پاک ہے، وہ وافر خوشیوں کی بے لذتی سے اکتا کر موت کے آغوش میں پناہ ڈھونڈنے نکل پڑتے ہیں ـ

کیسا مضحکہ خیز المیہ ہے کہ انسانیت کے علمبردار انسان کی موت کو جدیدیت قرار دیتے ہیں ـ مذہب بیزار حرام عمل پر مذہبی گنجائش کی تلاش میں سرگرداں ہیں ـ اور مارڈنزم کے پیروکار خود کشی کو ایکسپیریمنٹ بنا کر خود کو حیوانی صفات سے ممتاز سمجھتے ہیں ــ حالانکہ اشرف المخلوقات کا سرٹیفکیٹ لے کر گھومنے والوں کو علم ہونا چاہیے کہ جانوروں کی زندگی کا مقصد فقط چارے پانی کا حصول ہے، ان کے پاس زندگی جینے کا شعور کہاں ہے؟ مذہب بیزار طبقہ ہمیشہ اس بات پر نالاں نظر آتا ہے کہ مذہبی طبقے کی جھولی میں خود کشی کرنے والے افراد کیلیے ہمدردی کے دو بول بھی نہیں ــ تو معاف کیجیےگا! ہم خود کشی جیسے آتنک کو مارڈنزم اور جدیدیت کے لبادے میں لپیٹ کر ایک پوری نسل کو تباہی کے دہانے تک لے جانے کی بجائے یہ کہنے کو ترجیح دینگے: "خس کم جہاں پاک!” اور یہی اصل انسانیت اور حقیقی مارڈنزم کا تقاضہ بھی ہے!

Comments are closed.