گستاخ رسول ﷺ کا سر قلم!! محمد صابر حسین ندوی

گستاخ رسول ﷺ کا سر قلم!!
محمد صابر حسین ندوی
7987972043
دنیا جانتی ہے کہ مسلمانوں کو سید الکونین ﷺ سے کتنی زیادہ محبت ہے، یہ محبت جوش، جنون، عشق اور تمام حدود سے پرے ہے، دل میں ان کے نام کا خیال، ان کے پیغام اور سیرت کا عکس لگا رہتا ہے، ہونٹوں پر درود وسلام اور ذکر خیر کے سوا کچھ نہی رہتا، مسلمان خواہ کسی ملک، شہر، وادی، صحرا اور جنگل کا ہو، وہ خواہ سمندر کی تہوں میں رہتا ہو یا پھر پھر زمین کی وسعت پر چہل قدمی کرتا ہو، چاند یا سیارے پر براجمان ہو یا پھر کسی غار و کھوہ میں پوشیدہ ہو، اتنا تو طے ہے کہ اس کے دل میں نبی مکرم ﷺ کی عزت، ان کے نام کی مٹھاس اور ان کے تئیں نرم جذبات، گداز اور اس ہستی پر سمندر عبور کرجانے کا جذبہ ہوگا، ایک وقت کے لئے اگر کسی عزیز تر کو گالی دی جائے، برا بھلا کہا جائے تو برداشت کیا جاسکتا ہے، اسے بدتمیز اور بدمعاش و قلاش کہہ کر آگے بڑھا جاسکتا ہے، خود کی بھی بے عزتی برداشت کی جاسکتی ہے، صبر و استقامت کا سبق پڑھتا ہوا کڑواہٹ کو بھولا جاسکتا ہے، دنیا کے سامنے اپنی ہنسی اڑائی جاسکتی ہے، مگر سرکار دو عالم ﷺ کے ساتھ کسی قسم کی أف بھی ناقابل برداشت ہے؛ کیونکہ وہی تو سرمایہ حیات ہے، اسی سے امید شفاعت ہے، آخرت کی تنگی میں وہی تو ہاتھ تھامنے والا، ردائے رحمت میں لینے والا ہے، جب گلہ سوکھ جائے گا، قیامت کی ہولناکی اور پیاس سے خشک ہوجائے گا اور کہیں ایک بوند بھی نصیب نہ ہوگی تو وہی تو ہیں جو حوض کوثر سے جام بھر بھر کر پلائیں گے، اور ایسا پلائیں گے کہ کبھی پیاس نہ لگے گی، آہ – – – ایسی شخصیت جس نے اپنے پرائے سبھی کے ساتھ شفقت کا معاملہ کیا، ہر ایک کیلئے سینہ کھول دیا، وہ رحمۃ اللعالمین بنا اور پوری دنیا کے لئے خیر و صلاح اور انسانیت کا پیغمبر ٹھہرا، یہی وجہ ہے کہ بلا کسی تفریق و امتیاز ماننے والے اور نہ ماننے والے سبھی ان سے عقیدت رکھتے ہیں، محبت کا اظہار کرتے ہیں؛ لیکن کیا کیجئے ابوجہل، ابولہب اور عتبہ وشیبہ کا گروہ ہر زمانہ میں پایا جاتا ہے، ایک ہی خون اور خاندان ہونے کے باوجود دشمنی کا علم تھامنے والے موجود رہتے ہیں، چنانچہ آج بھی شیطانی ایجنڈے پر چلنے اور ابلیس کے پیرو کار مسلسل آپ کی ذات کو ٹارگیٹ کئے رہتے ہیں، ان کے ذریعے مسلمانوں کو بھڑکا کر پورے اسلام اور مسلمان کو رسوا کرنا چاہتے ہیں۔
اس سلسلہ میں یورپ اپنا نام کہیں فائق رکھتا ہے، یہ چہرے کے سپید، دل کے اس قدر کالے ہیں؛ کہ تقدس ان کی نظر کچھ ہے ہی نہیں؛ خواہ عیسی علیہ السلام ہوں یا مریم علیھا السلام ہوں، یہ سب بس رسم و رواج کا ایک پتلا بن کر رہ گئے ہیں، جن کا حقیقی زندگی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، درحقیقت وہ مذہب اور انسانیت سے بغاوت کر چکے ہیں، وہ مادی دنیا کو سب کچھ مان کر تمام روحانی طاقتوں کے درپے ہوچکے ہیں، ان میں بالخصوص پیرس نے کہیں بازی مار رکھی ہے، صدر عمانویل ماکروں نے اسلام کو دہشت گرد قرار دے رکھا ہے، حجاب پر پابندی اور نبی مکرم ﷺ کی گستاخانہ کارٹون بنا کر دنیا کے سامنے اسلام اور اس کے پیغام کو بدنام کرنے کی ٹھان لی ہے، وہ اکثر ترکی کے ساتھ سرحدی تنازعہ میں اسلام کو برا بھلا کہتا ہے، اور پوری سرپرستی کے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ روحی) کی شان میں گستاخی کا ارتکاب کرتا ہے، ابھی کچھ دنوں قبل بھی فرانس کے دارالحکومت پیرس کے شمال مغربی علاقے میں ایک ٹیچر نے طلبہ و طالبات کو سمجھانے کیلیے نازیبا کارٹون کا استعمال کیا، اسلام دشمنی میں اس نے رسول محمد ﷺ کی تصویریں بنا کر نمائش کی؛ چونکہ یہ کوئی عام بات نہ تھی، ہر مسلمان کے سینہ میں غم و غصہ اور جذبات کو بھڑکانے والی تھی، چنانچہ ایک مسلم نوجوان چیچن شہری اٹھارہ سالہ عبداللہ نے چھری سے اس کا گلہ کاٹ دیا، یہ بات الگ ہے کہ فوری طور پر پولس نے کارروائی کرتے ہوئے نوجوان کو شہید کردیا، بعد ازاں ان کے گھر والوں کو بھی حراست میں لے لیا گیا، مگر دیکھئے کہ فرانس نے کیسے زہر اگلا، ٹھیک اسی وقت جائے وقع پر صدر عمانویل ماکروں پہونچے اور انہوں نے اسے اسلامی دہشت گردانہ حملہ قرار دے دیا، اور کہا کہ ٹیچر کو اس لئے قتل کردیا گیا کیونکہ وہ آزادی رائے کے متعلق پڑھاتا تھا؛ بلکہ حد تو یہ ہے کہ پوری ارکان پارلیمنٹ نے گستاخ ٹیچر کو کھڑے ہو کر خراج عقیدت پیش کی اور وزیر تعلیم نے ٹویٹ کر کے اسے ملک پر حملہ قرار دیا، جو بھی ہو اس سے ایک طرف گوری چمڑی میں چھپے اسلام دشمنوں کا چہرا سامنے آتا ہے تو وہیں امت محمدی کے جوش ایمانی کا بھی پتہ چلتا ہے، اس گئے گزرے دور میں وہ ناموس رسالت کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں؛ لیکن کیا بہتر ہوتا کہ دنیا خود یہ باور کرتی کہ کسی بھی قوم وملت کے جذبات کو ٹھیس پہونچانا جرم ہو اور اس کے لئے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
19/10/2020
Comments are closed.