احادیث فتن کے بارے میں راشد شاز کا شذوذ یاسر ندیم الواجدی

احادیث فتن کے بارے میں راشد شاز کا شذوذ
یاسر ندیم الواجدی
راشد شاز کے شذوذ سے ایک زمانہ واقف ہے، ان کا ہنر یہ ہے کہ وہ سیدھی بات گھما پھرا کر کہتے ہیں۔ وہ یہ نہیں کہتے کہ مجھے حدیث سے چِڑ ہے، البتہ وہ اپنی تحریروں کے ذریعے حدیث سے تنفر پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلا وہ یہ نہیں کہیں گے کہ احادیث فتن جھوٹ پر مبنی ہیں بلکہ وہ یوں گویا ہوتے ہیں کہ "احادیث فتن پر وسیع سماجی اور تاریخی پس منظر میں از سر نو غور کرنے کی ضرورت ہے”۔ از سر نو غور کرنے کا مطلب یہ تو ہوسکتا ہے کہ جو مفہوم ابھی تک لوگ سمجھتے آئے ہیں وہ درست نہیں ہے، بلکہ درست مفہوم کچھ اور ہے، لیکن از سر نو غور کرنے کا مطلب ان احادیث کو مشکوک قرار دینا یا انھیں مسترد کردیا کسی بھی صاحب عقل کے نزدیک ممکن نہیں ہے۔
اپنی کتاب "ادراک زوال امت” کے حوالے سے اپنی حالیہ پوسٹ میں وہ صحیح مسلم کی احادیث فتن کو نشانہ بناتے ہوے لکھتے ہیں کہ "جب ذہنوں پر یہ خیال حاوی ہو کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ پہلے سے طے شدہ ہے تو پھر افراد کے لیے اس چیلنج سے کنارہ کشی اور ایام فتنہ میں صرف اپنی ذاتی نجات کی فکر کی گنجائش نکل آتی ہے”۔ کوئی موصوف سے یہ سوال کرے کہ اگر کسی کو یہی گنجائش نکالنی ہو، تو وہ تقدیر اور علم الہی کو بنیاد بناکر نکالے گا۔ خدا کا علیم ہونا تو قرآن سے ثابت ہے، اگر کوئی کج روی اختیار کرتے ہوے یہ کہے کہ "جب اللہ کو ہر چیز پہلے سے معلوم ہے اور جو کچھ ہوگا وہ اس کے علم کے مطابق ہوگا تو میں حالات کو تبدیل کرنے کی کوشش کیوں کروں” اور آنجناب اس کج روی کا علاج کرنے کی غرض سے خدا کے علیم ہونے کا ہی انکار کر بیٹھیں، تو اس کو علاج کے بجائے "شتر مرغیانہ” رویہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا۔
راشد شاز نے اپنی پوسٹ میں کمال چالاکی سے صحیح مسلم کی ایک حدیث پر نشانہ لگایا ہے۔ حدیث کے مطابق ایام فتنہ میں بیٹھنے والے شخص کو کھڑے ہونے والے سے اور کھڑے رہنے والے کو چلنے والے سے بہتر بتایا گیا ہے۔ موصوف کہتے ہیں کہ "آج کے دور کے pacifist ترک دنیا کے لیے اور امت مسلمہ کی ذمہ داریوں سے اپنا دامن بچانے کے لیے ان احادیث کا سہارا لیتے ہیں”۔ پیسفسٹ وہ شخص کہلاتا ہے جو جنگ کو کسی بھی حال درست نہ سمجھتا ہو۔ مسلم کی اس حدیث کے راوی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں جو خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگوں میں شریک رہ چکے ہیں، وہ اس رویے کی تائید میں حدیث کیوں روایت کریں گے۔ درحقیقت اس حدیث کا تعلق ان جنگوں اور محاذوں سے ہے ہی نہیں جن میں دشمن کا دشمن ہونا علی وجہ البصیرت معلوم ہوتا ہے۔ البتہ وہ داخلی فتنے جہاں یہ معلوم نہ ہو کہ دشمن کون ہے اور دوست کون، تو حدیث سے پہلے عقل (کہ جس کی ترازو میں آپ نصوص کو تولتے ہیں) بھی یہی فیصلہ کرے گی کہ ایسے فتنوں میں شامل نہ ہونا شامل ہونے سے بہتر ہے، بلکہ شامل نہ ہوکر انسان، فتنہ ختم کرنے کی ذمے داری بحسن وخوبی انجام دے سکتا ہے۔ لہذا جس حدیث پر یہ الزام ہے کہ وہ سماجی ذمہ داریوں سے کنارہ کشی کا سبب ہے، درحقیقت وہ بہتر طریقے سے سماجی ذمہ داری ادا کرنے کی ترغیب دے رہی ہے۔
موصوف اپنے دعوے کی تائید میں حضرت ابوذر کی حدیث بھی پیش کرتے ہیں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "امارت ایک بڑی ذمہ داری ہے جس کا نتیجہ یوم آخرت میں ندامت اور رسوائی کی شکل میں ہو گا، الا یہ کہ اس عہدے کو صحیح طریقہ سے حاصل کیا گیا ہو اور اس کا حق ادا کردیا گیا ہو”۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ: "(دو) رجحانات بن گئے کہ (اولا) تاریخ خدائی اسکیم کے مطابق آگے بڑھ رہی ہے جس پر ہمارا کوئی اختیار نہیں، ثانیا اگر اصلاح احوال کے ذریعے سماجی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانا پڑے تو اس سے بکمال عہدہ برآہونا ایک امر محال ہے”۔ حضرت ابو ذر کی اس حدیث میں جس کا ترجمہ شاز صاحب نے خود کیا ہے، یہ جملہ انھیں نظر آکر بھی نظر نہ آسکا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث میں خود ہی استثنا فرمادیا کہ امارت اگر صحیح طریقہ سے حاصل ہو اور صحیح طریقہ یہ ہے کہ بلا طلب امارت ملے تو ندامت اور رسوائی نہیں ہے۔ لہذا یہ نتیجہ کہ "سماجی ذمہ داریوں سے بکمال عہدہ برا ہونا ایک امرِ محال ہے” ایک سفسطہ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔
شاز صاحب کے مضمون میں ان کی یہ شکایت کہ: "تاریخ خدائی اسکیم کے مطابق آگے بڑھ رہی ہے جس پر ہمارا کوئی اختیار نہیں” اس بات کی دلیل ہے کہ موصوف کا علم کلام میں مطالعہ صفر ہے۔ وہ یہ تأثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ خدائی اسکیم اور انسانی اختیار میں تضاد ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ خدائی اسکیم کبھی بھی انسانی اختیار کے معارض نہیں ہے۔ انسانی اختیار ہی خدائی اسکیم کے مطابق ہے، خدائی اسکیم کا تعلق خلق سے ہے اور انسانی اختیار کا تعلق کسب سے ہے۔ اگر کوئی شخص ان بنیادی اصطلاحات سے واقف نہ ہو تو اس کو قلم اٹھانے سے پہلے اپنی تعلیم پر توجہ دینی چاہیے، اہلیت سے پہلے "سماجی ذمے داریوں” کو پورا کرنے کی خواہش وہی رویہ ہے جس سے حدیث میں روکا گیا ہے اور شاز صاحب اس حدیث کو اپنی اسکیم کے مخالف سمجھتے ہیں۔
Comments are closed.