بہار الیکشن ۔۔۔ گٹھ بندھن کنفیوژن – اپنوں پر عدم اعتماد اور غیروں کا مسلم اور سیکولر مخالف روش تحریر : مسعود جاوید

بہار الیکشن ۔۔۔ گٹھ بندھن کنفیوژن – اپنوں پر عدم اعتماد اور غیروں کا مسلم اور سیکولر مخالف روش

تحریر : مسعود جاوید

میں بھی حیرت زدہ تھا کہ ابھی تک بہار الیکشن میں اصل مسالہ یعنی مذہب کے نام پر پولرائزیشن گول بندی کیوں شروع نہیں ہوئی! پچھلے الیکشن میں کہا گیا تھا کہ فلاں پارٹی کی جیت پر پاکستان میں پٹاخیں جلاکر خوشی منائی جائے گی۔ لیکن اس بار این ڈی اے والے آپس میں ہی شکوک و شبہات اور پس پردہ الزام تراشیوں اور صفائی دینے میں مشغول ہیں۔ اس بار نیتیش مکت سرکار یا نیتیش کے ساتھ؟ ” اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے” یہ شعر پڑھنے کی نوبت تو نہیں آئے گی ؟ گٹھ بندھن کے تقاضوں کے تحت جن کو ٹکٹ نہیں دیا جا رہا ہے وہ بغاوت کر رہے ہیں ! لیکن یہ بھرم بھی جلد ہی ٹوٹ گیا جب بی جے پی کے ایک لیڈر نے کہا کہ راجد کی جیت کے بعد ریاست میں کشمیری دہشت گرد گھس آئیں گے۔
بی جے پی کے لئے بہار الیکشن میں شکست یا فتح کے دور رس نتائج ہوں گے اس کے لئے اس بار بی جے پی وزیر اعلی کی قیادت میں حکومت سازی اصل مطمح نظر ہو سکتی ہے اس لئے کہ اس نظریہ کے غلبہ کا یہ دور ہے اگر ابھی نہیں تو کب ؟ آزادی کے بعد سے اب تک کبھی بھی بی جے پی( الائنس کے باوجود) ، وزیر اعلی بہار کا زمام اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی ہے۔
بہار میں مذہب کے نام پر گول بندی کبھی نہیں ہوئی۔ بحیثیت مجموعی تمام تر کوششوں کے باوجود بہار، دوسری بعض ریاستوں کے برعکس، فرقہ پرست ماحول کے لئے سازگار نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانان بہار نے کبھی اپنی پارٹی تشکیل دینے کی نہیں سوچی۔ مسلمانوں کے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی قدر نہ کی گئی تو ظاہر ہے ردعمل کے طور پر مسلم پارٹی کا مطالبہ ناگزیر ہو جائے گا۔ کیا بہار کی عوام بلاتفریق مذہب اور جات اپنے ریاستی مفادات کی بنیاد پر جمہوری عمل میں حصہ لے گی؟
بادام کھانے سے عقل آتی ہے یا ٹھوکر کھانے سے ! ۔. بادام ان دنوں کافی مہنگا ہے ہر شخص افورڈ نہیں کر سکتا جو افورڈ کر سکتے ہیں وہ بادام کی پانچ گیریاں پانی میں بھگو کر چھلکے اتار کر کھا رہے ہیں۔ یہ بھی صحت کے لئے بہت مفید ہے لیکن عام لوگوں کی دسترس سے باہر ہے اس لئے عام لوگوں کی بات کی جائے۔ عام لوگوں کو ٹھوکر کھانے کے بعد عقل آتی ہے۔ تو ہندوستان کی عوام بالخصوص بہار کی عوام ٹھوکر کھا چکی۔
– اگر مرکز کی بات کریں تو آج تک ١٢٥ کروڑ کا پیکج کا جو اعلان ٢٠١٥ میں کیا گیا بہار کے لوگ آج تک اس کا انتظار کر رہے ہیں،
– خصوصی ریاست کا درجہ کا وعدہ وعدہ ہی رہا،
– غیر منصوبہ بند طریقے پر لاک ڈاؤن کے اعلان نے مہاجر مزدوروں کو مہاراشٹر, گجرات, دہلی اور دیگر ریاستوں سے بھوکے پیاسے سینکڑوں میل پیدل چلنے پر مجبور کیا تھا وہ منظر اس قدر المناک تھا کہ متاثرین تو متاثرین دیکھنے والوں کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے اور سننے والوں کے کلیجے منہ کو آگۓ۔ – نیتیش کمار کی بات کریں تو انہوں نے بے حسی کی ساری حدیں پار کرتے ہوۓ اعلان کردیا کہ پرواسیوں کو گھسنے نہیں دیں گے جو جہاں ہے وہیں رہے۔ کیا اس انسانیت سوز اعلان سے پہلے انہوں نے جائزہ لیا تھا کہ ان ایک ایک کمرے میں بیوی بچوں کے ساتھ کرایہ پر رہنے والے غریب مزدوروں کو جن کے مالکان نے مکان خالی کرنے کا حکم دے دیا ہے اب وہ کہاں جائیں گے۔ بھوک پیاس سے بلکتے بچوں کے کھانے پینے اور دوا دودھ کا کیا ہوگا ؟ ان مزدوروں کی اکثریت unorganized sector میں کام کرنے والوں کی ہے یعنی یومیہ مزدور یعنی کام کرو تو اجرت کام بند پیسہ بند۔ ظاہر ہے کنسٹرکشن کا کام اور فیکٹریاں بند ہو گئیں تھیں ان کے مالکان نے ان مزدوروں سے آنکھیں پھیر لی تھی اب یہ بے یارومددگار کب تک ان مقامات پر survive کر سکتے تھے اس لئے ان کے لئے ایک ہی راستہ بچا تھا کہ اپنے گھروں کو لوٹ جائیں۔
ریاست کی تعمیر و ترقی کی بات کریں تو ١٥ سال تک حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد اب نیتیش جی پر انکشاف ہوا کہ چونکہ بہار میں سمندر نہیں ہے اس لئے خاطر خواہ ترقی نہیں ہوئی۔ کچھ بھی کہ کر نکل جانے کی فطرت ان کی حلیف پارٹی کے نیتاؤں کی ہے لیکن شاید صحبت کا اثر نیتیش جی پر بھی ہوا جو اس طرح کی مضحکہ خیز بات انہوں نے کی۔ کسی ریاست کی سمندر سے جڑے ہونے کی افادیت درآمد اور برآمد سے ہے اس لئے کہ بحری نقل و حمل ٹرانسپورٹ کا خرچ کم پڑتا ہے لیکن ایسی متعدد ریاستوں کی مثال موجود ہے جو سمندر سے جڑی ہوئ نہیں ہیں مگر صنعتی ھب ہیں اس لئے کہ سمندری نقل و حمل کا متبادل بری نقل و حمل موجود ہے۔ سمندر سے جڑا نہ ہونا ایک عذر لنگ ہے۔ صنعتوں اور فیکٹریوں کے لئے سمندر کا نہ ہونا مانع نہیں ہے اس کے لئے پر امن ماحول کا فقدان پولیس انتظامیہ اور نیتاؤں کا نیکسس ذمہ دار ہے۔ اس کے لئے انویسٹمنٹ کی موزوں پالیسی کا فقدان ذمہ دار ہے۔ بہار کی قیادت خواہ کانگریس، راجد یا جدیو ہو کیا کسی نے بہار کے خواندہ اور ناخواندہ ورک فورس کو روزگار فراہم کرنے کے وسائل پر کبھی توجہ دی ؟ دہلی اور دیگر ریاستوں کے اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں بہت بڑی تعداد بہاریوں کی ہوتی ہے کیا بہار کی قیادت نے کبھی بہار کو ایجوکیشن ھب بنانے کا سوچا ؟

Comments are closed.