بسفی اسمبلی حلقہ میں ڈاکٹر فیاض صاحب ہی کیوں؟  از:۔ محمد اللہ قیصر

بسفی اسمبلی حلقہ میں ڈاکٹر فیاض صاحب ہی کیوں؟

از:۔ محمد اللہ قیصر

الیکشن آتے ہی عموما ووٹرس میں اپنے جمہوری حقوق کا احساس پیدا ہوتا ہے، اور دیگر ایام کے مقابلہ کچھ بڑھ جاتا ہے، جو ملک کے جمہوریت کے مضبوطی کی طرف گامزن ہونے کی علامت ہے، ہمارے ملک میں جمہوریت ابھی بھی اپنے بچپنے کے دن گزار رہی ہے، ہاں کچھ علاقوں میں مراہقت کو ضرور پہونچ گئی ہے، لیکن بلوغیت اور ہوشمندی والا احساس "کنبھ کرن” کی نیند سونے کے بعد، الیکشن کے قریب پیدا ہوتا ہے، الیکشن کا وقت قریب ہونے پر اسے یاد آتا ہے کہ آج سے پانچ سال قبل ہم نے کسی کو عوامی کام کیلئے منتخب کیا تھا، اور تبھی وہ اپنے منتخب نمائندہ کے محاسبہ و مواخذہ میں لگ جاتا ہے، کوئی اپنا ذاتی فائدہ نہ ہونے پر ناراض ہوتا ہے تو کسی کو خاطر خواہ عوامی کام نہ ہونے کی شکایت رہتی ہے، ایسا ترقی یافتہ جمہوریت میں ہوتا ہے، لیکن جہاں جمہوریت ابھی رینگ رہی ہو،وہاں ذات، اور برادری کی بنیاد پر نمائندوں کا انتخاب بھی ہوتا ہے، اور ایک حلقہ کے مختلف نمائندوں کے مابین تقابل کیلئے بھی یہی معیار ہوتاہے، نمائندہ جس برادری سے ہے اس کے مخالف گروہ کی نظر میں وہ دنیا بھر کی خرابیوں کا "سراپا” ہوتا ہے، "فساد” "کرپشن” "رشوت خوری” "ظلم و زیادتی” اور دوسری برادریوں کے تئیں "تعصب و تنگ نظری” کا مجسمہ نظر آتا ہے، اس کے برعکس نمائنذہ اپنی برادری والے کی نظر میں خوبیوں کا دوسرا "نام” "ایمانداری” "انصاف پسندی”” نرم گفتاری””بیدار مغزی” "حرکت و نشاط” اور "نرم دم گفتگو گرم دم جستجو” کی چلتی پھرتی تصویر سمجا جاتا ہے،

 

البتہ اگر ان سیاسی لیڈروں کی ذاتی زندگی سے لے کر سماجی تگ و دو اور اس کی حصولیابیوں کا بالکل غیر جانبدارانہ جائزہ لیں تو بہت حد تک مطلع صاف ہوجاتا ہے اور حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ وہ انسان کس زمرے میں آتا ہے، خوبیوں کا مجسمہ ہے، یا خامیوں کی تصویر۔

اس وقت ہمارے اسمبلی حلقہ "بسفی”سے راجد کے امیدوار ڈاکٹر فیاض احمد ہیں،جو گزشتہ دس سالوں سے بہار اسمبلی میں یہاں کی نمائندگی کر رہے ہیں، اور تیسری بار بھی وہی امیدوار بنائے گئے ہیں، ظاہرا حالیہ انتخاب میں بھی عوامی دلچسپی کا مرکز وہی ہیں، کچھ لوگ محاسبہ کے طور پر اپنے تحفظات کا اظہار بھی کر رہے ہیں لیکن کمال ہے کہ "ترقیاتی کاموں” کا انکار کوئی نہیں کرپا رہا ہے، جس کسی کو شکایت ہے وہ ذاتی، اور شخصی نوعیت کا ہے ،کچھ اٹ پٹے بھی ہیں، کسی کا ذاتی کام نہیں ہوسکا، کسی کو کچھ نہیں مل پایا، کسی کو ٹھیکداری نہیں ملی، اگرچہ اختلاف کے وقت وہ کھل کر اس کا اظہار نہیں کرسکتے بلکہ وہ کوئی اور زینہ تلاش لیتے ہیں، اب ظاہر ہے ایسے اعتراض کا تو جواب دینا بھی حماقت ہے، کیوں کہ وہ عوامی نمائندہ ہیں، ان کی اصل توجہ عوام کے کام پر ہونی چائیے، اور رہتی ہے، اسلئے ایسے لوگوں کا روٹھنا ان کے ذاتی مفاد کا نتیجہ ہے، اور ایسے مفاد پرستوں کی "دوستی اچھی نہ ان کی دشمنی اچھی” میرے خیال سے عوام کو ایسے مصلحت پسند اور مفاد پرستوں کی کوئی بات سننے کی بجائے ان کی مخالفت ہونی چاہئے۔ کچھ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ڈاکٹر فیاض احمد”حد سے زیادہ خاموش طبیعت کے مالک ہیں، بہت زیادہ شریف ہیں، ماتحتوں کو ڈانٹ بھی نہیں پاتے”

میرے خیال سے ایسے آدمی کو فیاض صاحب کی زندگی پر غور کرنا چاہئے، کہ ان کی خاموش طبیعت نے جو زندگی میں کمال کیا ہے، اپنی شرافت اور بردباری کے ہتھیار کے سہارے زندگی کے میدان ہائے کارزارِ میں جتنی کامیابیوں کے جھنڈے نصب کئے ہیں، وہ تصور سے بالاتر ہیں، ان کی شرافت اور خاموش مزاجی نے عوام کے بڑے بڑے مسائل چٹکیوں میں حل کئے ہیں۔ "دبنگ” بولتا رہ جاتا ہے وہ کام کرکے نکل جاتے ہیں، یہ ہے ان کی خوبی۔

پتہ نہیں ہندستانی مزاج اس "دبنگئی” کا دیوانہ کیوں ہے، اور یہی وجہ ہے کہ "دبنگوں” نے ان کو خوب ٹھگا ہے، کام کرکے دیا نہیں، بس دوبار مرتبہ "شور غوغا” کیا ،پھر جس کسی دیکھئے اس کی زبان پر "واہ واہی” کے نعرے ہیں، لیڈر کی ذمہ داری کیاہے، اس نے ذمہ داری پوری کی یا نہیں، کوئی اس پر توجہ نہیں دیتا، اور یہی وجہ ہے کہ ہندستان میں سیاسی لیڈران ترقیاتی کام سے زیادہ "دبنگئی” میں یقین رکھتے ہیں کہ ایسے لوگ ہی عوام کے نزدیک اصل لیڈر ہوتے ہیں، یہ ہماری بدقسمتی ہے، ہاں کچھ سنجیدہ لوگ ہیں جو معاملہ فہم ہیں، بات سمجھتے ہیں، اورقول سے زیادہ عمل پر یقین رکھتے ہیں۔

ڈاکٹر فیاض احمد اور ان کے مقابل امیدوار کی زندگی، طریق حیات، مزاج و مذاق، کارنامے، سماج سے تعلق کی نوعیت اور حصولیابیوں کا سرسری جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ان کے مابین مشرق و مغرب جیسا فرق ہے، ایک تعلیم یافتہ دوسرا اس کی اہمیت سے نا بلد، ایک سنجیدہ تو دوسرا "دبنگئی کی علامت” ایک اپنی محنت، جد و جہد، زندگی میں کچھ کرنے کے امنگ سے سرشار ٫گراس لیول” سے اٹھ کر عزت و شہرت کی بلندیوں تک پہنچنے والا تو دوسرا عوام میں خوف و ہراس پیدا کرکے شہرت پانے والا، ان پر تشدد میں مشہور، ایک "سماجی ہم آہنگی””آپسی بھائی چارہ” "باہمی رواداری” "عدم تشد”اور باہمی احترام” جیسے آفاقی اصول کو شاہراہ حیات سمجھتا ہے تو دورا "تشدد” "سخت گیری” "عدم رواداری” ” ایک مخصوص فرقہ کی تذلیل و تحقیر کو کارزارِ حیات میں اپنا اہم ہتھیار سمجھتا ہے، یہ طرز زندگی کا بڑا فرق ہے، ظلم اور جبر کی علامت کو کبھی کبھی ظاہری طور کچھ حمایت مل جاتی ہے لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا درست نہیں کہ سب واقعتا اس ظالم و جابر کے دست و بازو ہیں، کیوں کہ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ سماج کے دیگر افراد ظلم سے بغاوت کی طاقت اسلئے نہیں جٹا پاتے کہ ہر کسی کو دوسرے کی طرف سے پہل کا انتظار رہتا ہے، یعنی بلی کی گردن میں گھنٹی باندھے کون؟ اگر کوئی ایک کھڑا ہو تو سب کھڑے ہو جاتے ہیں، نیز ظلم و تعدی کا مزاج رکھنے والا اکثر خود کو مذہبی چادر میں چھپانے کی کوشش کرتا ہے، کیوں کہ مذہب سے ہمدردی رکھنے والے اس کے کرتوت کو نظرانداز کرکے اس کے ظاہری مذہبی جذبات کی رو میں بہہ جاتے ہیں، یہاں ڈاکٹر فیاض احمد کا مقابل بھی، ایسے شخص سے ہے جو اپنے متشدد مزاج پر پردہ ڈالنے کیلئے لوگوں کے مذہبی جذبات بر انگیختہ کرتا ہے، اور سادہ مزاج اس کی باتوں میں بہک جاتے ہیں، کیوں کہ اس کے پاس دکھانے کیلئے کچھ نہیں ہے، اگر وہ اپنے کارنامے دکھانے لگے، حصولیابیاں شمار کرانے لگے تو ان میں سوائے تشدد ،مار پیٹ، سماج کے دبے کچلے افراد پر زیادتیوں کے علاؤہ کسی عمل خیر کا تذکرہ نہیں آسکتا، دوسری طرف ڈاکٹر فیاض احمد اپنی ذاتی زندگی میں ایک باعمل مسلمان ہیں اور یہی وجہ ہے کہ میدان عمل میں ہر مذہب، ذات،اور برادری والوں کیلئے یکساں طور پر بے لوث خادم، وہ قرآن کے اس حکم پر عمل پیرا ہیں کہ "کسی قوم کی دشمنی میں تم نا انصافی کا جرم نہ کر بیٹھو” لہذا ضرورت مند کسی قوم کا ہو، محتاج کسی برادری کا ہو، ان کی توجہ ضرورت مند کی ضرورت پر ہوتی ہے، اس کی برادری اور ذات و مذہب پر نہیں۔

جہاں تک لوگوں کی خدمت کا تعلق ہے تو ڈاکٹر فیاض احمد کا کوئی ثانی نہیں وہ جب ممبر اسمبلی نہیں تھے تبھی سے اس قرآنی اصول پر عمل کیا کہ "اللہ نے جس طرح تم پر احسان کیا ہے تم اسی طرح اللہ کے بندوں پر احسان کرو” اور "دینے والا ہاتھ لینے والے سے بہتر ہوتا ہے” غریبوں کا گھر بنانے میں تعاون سے لیکر غریب بچیوں کی شادی اورتک میں، جس نے درخواست کی اس کی طرف دست تعاون دراز کردیا، بے شمار لوگ ہیں جنہوں نے ان کے کالج میں کم فیس ہر بی ایڈ کرکے روزگار پا لیا، اور جب ممبر اسمبلی منتخب ہوئے تو گویا ان کے اس عظیم جذبہ کو پر لگ گئے، سرکاری اسکیموں کے ذریعہ عوامی کاز کی جیسے باڑھ آ گئی، سڑک، بجلی، اور تعلیم سب میں ایک انقلابی تبدیلی نظر آنے لگی،

اس کے مقابلہ دوسرے امیدوار کا کوئی ایسا رفاہی کارنامہ ہو تو بتادیں۔ ہاں تخریبی کاموں میں اس کا جوڑ نہیں یہ تو سب کو تسلیم ہے۔

 

وہ "رشوت خوری” سے مکمل اجتناب کرتے ہیں کیوں کہ انہیں ” رشوت لینے والے اور دینے والے دونوں جہنمی ہیں” کا سبق بچپن سے پڑھایا گیا ہے، انہیں سکھایا گیا ہے کہ "باطل طریقہ سے مال نہ کھاؤ” دوسری طرف مقابل امیدوار، مال کی آمدنی کے تعلق سے اس فکر کا حامل ہے کہ "مال جہاں سے آئے آنے دو” خواہ اس میں غریبوں اور محتاجوں کے خون میں "سن” کر ہی کیوں نہ آئے، ظاہر ہے اس فکری اختلاف کا اثر اعمال پر ہوگا ہی، لہذا ایک طرف ڈاکٹر فیاض احمد گناہ کے مواقع رہتے ہوئے رشوت خوری کے گناہ سے اپنا دامن پاک رکھتے ہیں، تو دوسری طرف چھوٹے موٹے کاموں میں اپنا "پرسینٹ” متعین رکھتا ہے، ایسے شخص کو موقع دینے کا مطلب ہے بلی کو "دودھ کی رکھوالی” دینا۔ فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ "رشوت خور” "کمیشن خور” پسند ہے یا رشوت سے نفرت کرنے والا، کمیشن سے بچنے والا ، ایک طرف رشوت، یا کمیشن خوری کی مذمت اور دوسری طرف ایسے ہی شخص کا انتخاب جس کی روزی روٹی "کمیشن خوری” ہو، ایسا تو ہو نہیں سکتا ،اسلئے کہ یہ نفاق کہلاتا ہے جو کسی مہذب انسان کیلئے مرجانے سے کم نہیں۔

وہ کام کے دھنی ہے، خود اندازہ لگائیں کہ اپنے حلقہ میں انہوں نے 300 سڑکوں کی تعمیر کرائی، جن علاقوں میں بجلی کا تصور نا ممکن تھا انہیں بجلی کی روشنی سے جگمگ کیا، تعلیم، طبی سہولیات ہر میدان میں نمایاں کام کیا، کام ہوتا ہے تو نظر آتا ہے، بسفی میں تبدیلی نظر آتی ہے سڑکوں پر چلتی پھر تی دکھائی دیتی ہے، اور رات کا اندھیرا چھاتا ہے تو یہی تبدیلی بجلی بن کر گھروں کو روشن کرتی نظر آتی ہے، اور اس بنیادی اسٹرکچر کے مضبوط ہونے سے "دیہی تجارت کا فروغ، تعلیم کی ترقی اور، طبی سہولیات میں نمایاں اضافہ” سب کچھ چیخ چیخ کر کہتے ہیں کہ یہاں "کام ہوا نہیں” "کاموں کا سیلاب آیا ہے”

ڈاکٹر فیاض صاحب کی جھولی میں دکھانے کو ترقیاتی کاموں کا بنڈل ہے، لیکن مقابل کے یہاں ” مسلمانوں سے نفرت، ان کے خلاف دریدہ دہنی، بدزبانی، دنگا، فساد، اس کے علاؤہ کچھ نہیں ، یہی اس کی پہچان یے، اور دعوے سے کہا جا سکتا ہے کہ بدقسمتی سے اکثریتی فرقہ کا جو ووٹ ان کے پاس ہے، وہ اسی بنا پر ہے کہ شاید "مسلمانوں کی تذلیل و تحقیر اس سے بہتر کوئی نہیں کرسکتا” اور کمال ہے کہ چند ضمیر فروش، بے غیرت مسلمان بھی ہیں، پتہ نہیں ان کا ضمیر قبول کیسے کرتا ہے کہ اپنے قوم کی عزت پامال کرنے والے کو ہی مضبوط کر رہے ہیں، مجھے تو ایسے لوگوں کی شرافت و نجابت پر ہمیشہ شک ہوتا ہے، ایک انسان ایسا کیسے کرسکتا ہے کہ سامنے ایک شخص پوری قوم کو للکار رہا ہے، قوم کی عزت نیلام کرنے کا دعویٰ کررہا ہے، وہ کھلے عام اپنے لوگوں سے کہہ رہا ہے کہ میرے ہاتھ مضبوط کرو ان کی پیشانیاں تمہارے جوتوں میں ہوں گی، اور وہ بیٹھ کر نہ صرف اس کی تائید بلکہ اس کا دفاع بھی کرتا ہے، در اصل یہ حالت تب پیدا ہوتی ہے جب انسان کا دینی و ملی احساس مر گیا ہو۔ اور اس وقت ایک بڑی تعداد ہے جن کا احساس مر گیا ہے، کل تک جو لوگ سی اے اے اور ایم آر سی کی مخالفت میں سڑکوں پر بیٹھے تھے وہ آج اس سیاہ قانون کے محافظوں کی گود میں میں جاکر بیٹھ جائیں تو اسے منافقت کے علاؤہ اور کیا کہا جا سکتا ہے۔

بہر حال اس وقت ہر اعتبار سے بسفی کیلئے ڈاکٹر فیاض احمد سے بہتر کوئی امیدوار نہیں، سماجی تانے بانے کی حفاظت کرتے ہوئے، ترقیاتی کاموں کا تسلسل برقرار رکھنے جو صلاحیت ان میں ہے وہ دوسرے میں عنقاء نظر آتی ہے۔

Comments are closed.