آمد رسول ﷺ سے قبل دنیا کے حالات بقلم: ڈاکٹر سید عروج احمد

آمد رسول ﷺ سے قبل دنیا کے حالات
بقلم: ڈاکٹر سید عروج احمد
پیغمبراسلام کی بعثت سے قبل انسانیت حکمرانوں کے ظلم وتشدد سےکراہ رہی تھی۔اس مظلوم دنیا نے کیا کیا مظالم سہے اور کیسی کیسی روشیں اختیار کیں اس کا مختصر جائزہ لینے کے بعد ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہمارے آقا کی آمد نے تمام انسانیت کو جینے کا حق دیا۔۔۔
رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد کو ساڑھے پانچ سو سال گزرچکے تھے۔ دنیا ایک مست ہاتھی کی طرح ہو گئی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ انسانیت اب تباہ ہوکر رہے گی۔ انسان اپنی خواہشات کے آگے مجبورتھا،رسم و رواج کی غلامی سے نکلنا اس کے لئے دشوار تھا۔ایسا لگتا تھا کہ دنیا کی گاڑی ایسی ڈھلان پر آگئی ہے کہ شاید اب یہ سنبھل نہ سکے۔اس تاریک دنیا میں ایسا کوئی ستارہ نہیں تھا جس سےچلنے والوں کو صحیح سمت مل سکے۔دنیا کے تمام مذاہب اپنی اصلی شکل کھوچکے تھے! یہودیت کچھ بے جان رسموں کا مجموعہ تھا۔جس میں زندگی کی کوئی رمک باقی نہ تھی۔ اس کے پاس یہودی نسل کے علاوہ نہ تو دیگر دنیا کے لئے کوئی پیغام تھا اور نہ ہی نجات کا راستہ۔ عیسائیت پہلے ہی مرحلے سے سینٹ پال کی گندگی کا شکارہوچکی تھی۔ روم کے نصرانیوں کی بت پرستی اس کے خون میں گھل گئی تھی اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تعلیمات اسی مشرک کے ملبے تلے دبی ہوئی تھی۔ زرتشتیت چند رسموں سے زیادہ نہیں تھی۔ان رسومات کو ادا کرنے کے بعد، وہ من چاہی زندگی جینے کے لیے بالکل آزاد تھی،ان میں اور ایک بدکردار وضمیر فروش شخص کے درمیان کوئی فرق نہیں تھا۔
بدھ مت بھی ایک بت پرستی والے مذہب میں تبدیل ہوگیا تھا۔ خدا کا انکار کرنے والےگوتم بدھ کو ہی خدا مان کر انہیں کے بت کو معبود بنالیاگیا تھا۔ جہاں تک ہندو مذہب کا تعلق ہے ، تو وہ اپنے دیوی دیوتاؤں کی کثرت میں دیگر اقوام سے کافی آگے بڑھ گیاتھا۔ ان کے معبودوں کی تعداد تینتیس (33) کروڑ مان لی گئی۔ یعنی ہر وہ چیز جو فائدہ یا نقصان پہنچائے ان کے یہاں اس کی پوجا کی جاتی تھی۔
خواہ وہ پتھر،
کنکر،ہوا،پانی،آگ یا گوبر ہی کیوں نہ ہو۔۔
اسی طرح جن عربوں نے حضرت ابراھیم علیہ السلام سے تعلق کا دعویٰ کیا تھا،وہ بھی بت پرستی میں ملوث ہو چکے تھے۔اس دور میں،دنیا کی دو عظیم طاقتیں سلطنت روم اور سلطنت ایران،(فارس) تھیں,جو اخلاقی لحاظ سے زوال پذیر تھیں۔ مال ودولت کی کثرت اورعیش پرستی میں مخموروہ حقوقِ انسانی کو پامال اور ظلم و بربریت تک پہنچ چکی تھیں.. جس کی وجہ سےغریب عوام انتہائی پریشان حالی اور مشکلوں میں زندگی بسر کر رہی تھی۔ طرح طرح کے ٹیکس اور مختلف پابندیوں نے ان کی زندگی کو جہنم بنا دیا اور وہ جانوروں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔۔ اسی بے راہ روی،ظلم و زیادتی اور طوائف الملوکی کے ساتھ دنیا کی عمر بڑھ رہی تھی۔۔ چھٹی صدی عیسوی کے شروع میں انسانیت کےحالات بد سے بدتر ہو تے جا رہے تھے۔۔ایک طرف ہندوستان میں ذات پات کانظام،انسانوں میں طبقاتی تقسیم ومنافرت اور عیاشی کا دور دورہ تھا۔ عورت کی کوئی عزت نہیں تھی۔شوہر کے مرنے کے بعد اس کی زندگی جانوروں سے بھی بدتر تھی۔ ذات پات، چھوا چھات اپنے عروج پر تھی۔شودروں کو اچھوت سمجھا جاتا تھا۔ نہ تو وہ کچھ حاصل کرسکتے تھے،نہ ہی اپنے اہل و عیال کے لئے کچھ اکٹھا کرسکتے تھے ، نہ ہی وہ کسی اعلی ذات کے ساتھ بیٹھ سکتے حتی کہ وہ انھیں چھو بھی نہیں سکتے تھے ، اور نہ ہی ان کے لئے مقدس کتابوں کا مطالعہ جائز تھا،پوری قوم امتیازی سلوک کا شکار تھی اور ٹکڑوں میں بٹ گئی تھی۔ ملک میں سیکڑوں ریاستیں تھیں جو آپس میں لڑتی رہتی تھیں۔ اسی دور میں عرب دنیا کی تہذیب سے بہت دور تھے۔ لیکن ان کا عملی نظام بھی بالکل خراب ہوچکا تھا۔ وہ شراب اور جوئے کے عاشق تھے۔ان کی سنگ دلی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ صرف اپنی جھوٹی شان کے لیے اپنی لڑکیوں کو زمین میں زندہ دفن کرتے تھے۔قبائلی اور نسلی تعصبات بہت گہرے ہوگیے تھے، اسی لیےخلاف مزاج کوئی چھوٹا واقعہ بھی اکثر انتہائی طویل اور شدید لڑائی کا سبب بن جاتا تھا۔بہت ساری جنگوں کا عمل چالیس سال تک جاری رہا اور اس میں ہزاروں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
مختصر یہ کہ یہ تاریخ کا بدترین وقت تھا۔
ان حالات میں عالم انسانیت کی بقا وتحفظ اور بھلائی کے لیے اللہ تعالٰی نے اپنے آخری نبی، پیارے محبوب ،خاتم النبیین، رحمت اللعالمین, محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انسان کو انسان کی غلامی سے آزاد کرا کے اللہ کی غلامی میں لانے کے لئے محسن انسانیت بنا کردنیا میں مبعوث فرمایا….ع
آپ کے آنے سے پہلے میکدہ سنسان تھا
آپ کیا آئے کہ آئے وجد میں جام و سبو
Comments are closed.