"بہار” کا صوبائی الیکشن اور اہل بہار کا فرض         محمد قمرالزماں ندوی مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

"بہار” کا صوبائی الیکشن اور اہل بہار کا فرض

 

محمد قمرالزماں ندوی

مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

 

*تقریبا* دو عشرے سے پورے بہار میں الیکشن کا گرما گرم ماحول چل رہا،ہر جگہ انتخابی گہما گہمی ہے، ریلیوں کی بھرمار ہے ، یہ انتخاب مستقبل میں بہت کچھ اندیشے اور نتیجے ظاہر کرنے والا ہے، اس لئے سابقہ تمام اسمبلی انتخابات کے مقابلے میں اس کی اہمیت کچھ زیادہ ہی لوگ محسوس کر رہے ہیں ۔

خوشی کی بات ہے کہ *سابقہ* انتخاب ہی کی طرح اس بار بھی سیکولر پارٹیوں کا مضبوط محاذ اور گٹھبندھن بن گیا ہے۔۔ اور اس محاذ سے وہ پارٹی اس بار باہر ہے، جس نے ماضی میں سیکولر ووٹروں کو زبردست دھوکا دیا تھا، ان کا آتم گھات کیا تھا، اور ان کے ارمانوں کو چھلنی چھلنی کر دیا تھا اور دشمن کے گود میں شاداں و فرحاں چہک کر وہ پارٹی بیٹھ گئی تھی۔

اس بار بھی اس صوبائی انتخاب میں ہمیں ہوش سے کام لینا ہے ، عقل و شعور کا صحیح طور پر استعمال کرنا ہے،جذبات میں آکر کوئی فیصلہ نہیں کرنا ہے۔ ہمیں اس پر غور کرنا ہے کہ فرقہ پرست پارٹی کو کون سا محاذ شکست دے سکتا ہے ، کس محاذ میں یہ طاقت ہے ۔ اور یہ بھی غور کرنا ہے کہ فرقہ پرست پارٹی کس کو اصل ٹارگیٹ کر رہی ہے اور وہ اپنا اصل حریف، مقابل اور دشمن کس کو سمجھ رہی ہے۔۔

ہماری کمی یہ ہے کہ ہم زیادہ تر اخباری بیانات دے کر سوشل میڈیا پر اپنی بات کہہ کر خاموش ہوجاتے ہیں اور مطمئین ہوجاتے ہیں، کہ ہم نے بہت تیر مارلیا بڑا کارنامہ انجام دے دیا ۔ زمینی سطح پر ہماری محنت صفر کے درجہ میں ہوتی ہے ۔ جبکہ فرقہ پرست پارٹیوں کی حلیف اور معاون جماعتیں بیان بازی اور زبانی جمع خرچ پر ہی اکتفا نہیں کرتیں، بلکہ وہ اپنے لوگوں میں گھر گھر پہنچتی ہیں اور ذھن سازی کرتی ہیں اور ان کو غلط پروپیگنڈہ کرکے متاثر کرتی ہیں ،مسلمانوں کا خوف دلاتی ہیں ۔ لیکن ان کی یہ ساری مہم اور یہ سارا کام انتہائی راز دارانہ اور خفیہ طریقے سے انجام پاتا ہے ۔

سال گزشتہ جھارکھنڈ کے لوگوں نے بھی سوجھ بوجھ سے کام لیا، علماء اور دانشور طبقہ نے اپنا فرض ادا کیا، لوگوں تک پہنچے اور میٹنگیں کیں، اور سیکولر ووٹوں کے تقسیم ہونے سے کل کیا نقصان ہوگا اس سے آگاہ اور خبر دار کیا۔ الحمدللہ اس کا خاطر کا نتیجہ نکلا اور سیکولر پارٹیوں کی حکومت بنی۔۔ ۔۔۔۔۔۔ لوگوں نے آرام اور سکون محسوس کیا ۔۔۔۔۔

اس وقت چناوُ میں صرف اخبارات کے ذریعہ مسلمانوں کی سیاسی رہنمائی کرنے کے بجائے بہتر ہے کہ میسج اور واٹسیپ کے ذریعہ خفیہ انداز میں یہ خدمت انجام دی جائے کہ کہاں کس امیدوار اور پارٹی کو ووٹ دینا زیادہ بہتر اور موثر ہوگا،اگر دو مسلمان الگ الگ پارٹیوں سے کھڑے ہیں تو کس کو ووٹ دینا بہتر ہوگا اس کی رہنمائی بھی ہم خفیہ انداز میں کریں ۔

*آپ صلی اللہ علیہ وسلم* جب کسی مہم پر روانہ ہوتے تو پہلے سے ساری تیاری ہوتی لیکن قریبی رفقاء اور ساتھیوں کو بھی خبر نہیں ہوتی کہ آپ کا کہاں کا ارادہ ہے ؟ صرف غزوئہ تبوک کے موقع پر آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو پہلے سے اپنے ارادے سے باخبر کر دیا تھا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مدینہ میں ایسے لوگ نہیں تھے جن کا رومیوں سے ربط ہو ۔ اگر آپ سے منزل دریافت بھی کی جاتی تو مبھم طریقہ پر بتاتے کہ فلاں سمت اور علاقہ کی طرف جانا ہے ۔ متعین طور پر اپنی منزل کو ذکر نہیں کرتے ۔ یہاں تک کہ فتح مکہ کے موقع پر بھی آپ نے اپنے سفر کو اس قدر مخفی رکھا اور ایسا نامانوس راستہ اختیار کیا کہ مکہ کی سرحد تک پہنچنے پر بھی لوگوں کو کوئی خبر نہ ہوسکی ۔ اسی طرح تیرہ سالہ مکی دور میں بھی زیادہ تر دنوں میں آپ نے مصلحتا دعوت کے کام کو بہت خفیہ اور راز دارانہ انداز سے انجام دیا ۔ بعض حضرات کو آپ نے مصلحت کے تحت قبول اسلام کو چھپانے کا حکم دیا ۔

*لیکن* آج ہمارے اندر قبل از وقت ہی تشہیر اور پروپیگنڈہ کا مزاج بن گیا ہے ۔ ہمارے مذھبی قائدین اور سیاسی رہنما کسی پارٹی یا رہنما کے کھلے عام تائید اخبارات کے ذریعہ کرنے لگتے ہیں جس کا منفی اثر سامنے آتا ہے ۔

بہر حال اب بھی جگنے اور سیاسی شعور سے کام لینے کا وقت ہے ، ہم سب پہلے آپس میں متحد ہونے کی کوشش کریں اور آپسی خلیج کو دور کریں ،ووٹ اور الیکشن کی اہمیت کو سمجھیں ۔ ایثار و اخلاص اور قربانی کا اپنے اندر جذبہ پیدا کریں ۔ اجتماعی مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دیں ۔ جس حلقہ سے کئی پارٹیوں نے مسلم امیدوار کھڑے کرائے ہیں وہاں حکمت و دانائی سے کام لیں ۔ ان میں سے کسی کو اجتماعی مفاد کے لئے ہٹ جانے یا نرم پڑ جانے پر تیار کریں تاکہ ہمارا ووٹ منتشر نہ اور فریق مخالف کو جیتے کا موقع نہ مل سکے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

الیکشن اور سیاست بھی آج جنگ ہے اور جنگ کے بارے میں یہ نبوی تعبیر بھی ہے کہ *الحرب خدعة* جنگ مخالف اور مد مقابل کو پٹخنی دینے اور حسن تدبیر کا نام ہے ۔ یہاں صرف سادہ لوحی سے کام نہیں چلے گا بلکہ تدبیر، تدبر ، فراست،ذہانت اور دماغ سے کام لینا ہوگا۔

بعض لوگ انتخاب اور الیکشن کو خالص دنیا کا کام سمجھتے ہیں اور ووٹ دینے کو دین سے الگ کام سمجھتے ہیں وہ اپنا ذھن صاف کریں اور اسلام کے سیاسی نظام کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔ الیکشن اور انتخاب میں مسلمانوں کی شمولیت اور ووٹ دینا یہ بھی آج کے حالات میں ظالم حکومت سے بچنے اور بچانے کے لئے ثواب و عبادت ہی سمجھا جائے گا ۔ اس لئے جو لوگ ان ایام میں جان بوجھ کر جماعت میں وقت لگاتے ہیں اور ووٹ نہیں دیتے وہ ملت کا نقصان کر رہے ہیں ۔ اس لئے وہ لوگ اپنے روئیے میں تبدیلی لائیں ۔

اس وقت ہم مسلمان جس صورت حال گزر رہے ہیں اس وقت امت میں اتحاد انضام سے قائم نہیں ہوسکتا بلکہ تقسیم اور حصہ داری سے قائم ہوسکتا ہے یعنی اگر ہم چاہیں کہ سب لوگ ہمارے ساتھ آکر مل جائیں تو یہ بات دوسروں کے لئے ممکن ہے قابل قبول نہ ہو، لیکن اگر حلقے تقسیم کر لئے جائیں تو ہوسکتا ہے کہ اس سے سبھوں کو کامیابی کا کوئی حصہ مل جائے ۔

ایک بار پھر میں یہ باور کرا دوں کہ میرا کسی بھی پارٹی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اور نہ کسی کی مخالفت کرنا میرا کام ہے اور مشن ہے ،ملت کے اجتماعی مفاد میں جو بہتر سمجھتا ہوں اس کو ضرور لوگوں تک پہنچچاتا ہوں، کیونکہ یہ میری ذمہ داری اور فرض ہے۔۔۔ اہل سیمانچل سے خاص طور پر اپیل اور درخواست ہے کہ تقسیم اور حصہ داری کا، سوجھ بوجھ سے عقل و فراست سے کوئی ایسا راستہ نکالیں کہ فرقہ پرست پارٹیاں بے وقار ہوجائیں ، مجلس کا وقار بھی باقی رہ جائے، اس کی آواز بلند ہوجائے اور گونجنے لگے،اور محاذ کو بھی مجموعی نقصان نہ اٹھانا پڑے امید کہ علماء کرام اور دانشوران قوم احقر کے اس درد کو سمجھیں گے اور مشکل کا حل نکالیں گے، اور یہ مشکل تو ہے لیکن ناممکن ناممکن ہے۔۔

Comments are closed.