میوات کے قاسم نانوتوی مولانا محمد قاسم صاحب میل کھیڑلا رحمہ اللہ ایک نظر میں

میوات کے قاسم نانوتوی مولانا محمد قاسم صاحب میل کھیڑلا رحمہ اللہ ایک نظر میں
____
ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور
عالم میں تجھ سا لاکھ سہی تو مگر کہاں
____
رب ذوالجلال کے طے شدہ نظام کے تحت جس طرح یہ دنیا، یہ کائنات اور اس کی رنگینی و بوقلمونی، حسن و سنگار، نقش و نگار سب فانی ہے، اسی طرح جو مخلوق بھی اس کا حصہ بنی، جس نے بھی اس میں دم بھرا فنائیت اس کا بھی مقدر ٹھہری، بقاء اور دوام صرف خدائے وحدہ لاشریک کی شان ہے *ویبقی وجہ ربک ذوالجلال والاکرام* باقی سب *کل من علیھا فانٍ* کا حصہ ہیں
سکون و ثبات سے خالی مستقبل کے حال اور حال کے ماضی بننے کا عمل جتنا برق رفتار ہے اتنا ہی حیران کن بھی، ماضی کا حصہ بن چکی حسین یادیں کل کا ہی واقعہ لگتی ہیں،
غرض! یہ زندگی اپنے ہنگاموں کے ساتھ الگ الگ رنگ اور قسم قسم کے تماشے دکھاتی ہے، کسی کو زوال سے عروج بخشتی ہے تو کسی کو عروج سے زوال کے گہرے گڑھے میں ڈھکیل دیتی ہے، قدرت و قسمت کے ان مختلف مناظر کے ساتھ فرمان باری *کل نفس ذائقۃ الموت* کے تحت کوئی ذی شعور یا غیر ذی شعور مخلوق موت کا مزہ چکھے بغیر نہیں رہ سکتی،
فرق صرف اتنا ہے کہ کسی کی موت جہاں والوں کو سکون فراہم کرتی ہے،جبکہ کسی کی جدائی دوسروں کا چین برباد کر دیتی ہے، کسی کی موت کو لوگ تحفہ سمجھ کر قبول کرتے ہیں، تو کسی کی موت مسکراتی کلیوں کا تبسم چھین لیتی ہے، موت کے ستم سے کوئی گمنام و بے نشاں ہوجاتا ہے، تو کوئی نقوشِ جاوداں چھوڑ کر تاریخ زریں رقم کر جاتا ہے، کسی کے خواب تعبیر کو ترس جاتے ہیں تو کوئی اپنے خوابوں کو حقیقت کی تعبیر دے جاتا ہے،
اول الذکر بے نصیب جبکہ مؤخر الذکر بانصیب و بامراد لوگوں کی فہرست میں شامل ہوجاتا ہے،
ایسے ہی بامراد اور نقوشِ جاوداں چھوڑ کر جانے والے خوش نصیب لوگوں میں سے ایک حضرت *مولانا محمد قاسم صاحب میواتی رحمہ اللہ سابق مہتمم و بانی جامعہ اسلامیہ دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑلا بھرتپور راجستھان* بھی ہیں،
یقیناً آپ کے کارہائے شیشہ و آہن آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں
*نسب نامہ اور ولادت با سعادت * :
مولانا محمد قاسم صاحب ابن مولانا محمد ایوب صاحب ابن میاں جی موسی صاحب رحمھم اللہ.
آپ نے میوات کے مشہور گاؤں *گھاسیڑہ* کے محلہ علی بخش پٹی (محلیان) میں سن ١٩٣٨ء کو ایک علمی و دینی خانوادہ میں اس جہان آب و گل میں جلوہ گری فرمائی
*صورت و حلیہ مبارک*: قد چھوٹا، رنگ بےحد صاف اور گورا، داڑھی بالکل سفید گھنی اور سیدھی، جسم معتدل، متوازن اور فرتیلا، نقشہ پر کشش وجاذب نظر،
لباس اور وضع قطع اس طرح کہ کلیوں کا کرتہ شرعی پاجامہ، اکثر دیوبندی ٹوپی، سر پر شروع میں سبز اور بعد میں اخیر زمانے تک سفید عمامہ خدا داد کشش اور حسن میں کئی گنا اضافہ کر دیتا تھا، طبیعت میں بےحد نفاست، نظافت اور سادگی، خوش مزاج، ملنسار، متبسم چہرے پر بے پناہ نورانیت اور شخصیت میں ایسی جاذبیت تھی کہ نظر ہٹانے کو جی نہیں چاہتا تھا،
بلا شبہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آسمان سے کوئی فرشتہ نازل ہوا اور زمین پر بلا تکلف چل پھر رہا ہے،
بس ایک شمع تھی جس کے گرد ہمہ وقت پروانوں کا ہجوم رہتا تھا.
*مولانا محمد قاسم نام اور وجہ تسمیہ*
آپ تبلیغی جماعت کے معماروں میں شامل میاں جی موسیٰ صاحب رحمہ اللہ کے پوتے اور اس مبارک خانوادہ کے ایک روشن چراغ ہیں ، آپ کے والد محترم مولانا محمد ایوب صاحب نے مولانا قاسم نانوتوی کی نسبت پر آپ کا نام *محمد قاسم* رکھا،
شاید اسی مناسبت سے آپ جد و جہد، خلوص و تقوی گفتار و کردار، ریاضت و مجاہدہ، سعئ پیہم اور تگ و تازِ مسلسل میں مولانا قاسم نانوتوی کے شانہ بشانہ نظر آئے، گویا *آپ میوات کے قاسم نانوتوی* تھے.
*تعلیم ابتداء سے انتہاء تک* :ابتداء سے شرح جامی تک مدرسہ اشرف الإمداد کامیڈہ میں تعلیم حاصل کی، بعدہ مرکزعلم أم المدارس دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا، سن ١٣٨٠ھ مطابق ١٩٦٠ء میں دورہ حدیث شریف سے فراغت پاکر سند فضیلت حاصل کی،
سن ١٩٦١ء میں دارالعلوم دیوبند سے ہی تکمیل علوم کیا، دارالعلوم دیوبند میں دوران تعلیم زھد و خلوص کا یہ عالم تھا کہ آپ کے ایک استاد طلباء کے روبرو بطورِ رشک فرمایا کرتے تھے جسے کامیاب ہونا ہو وہ اس میواتی جیسا بن جائے، سن ١٩٦٢ء میں سفر و حضر میں حضرت مولانا اسعد مدنی رحمہ اللہ کے ہمراہ خادم خاص کی حیثیت سے رہے، اسی دوران مولانا اسعد مدنی رح آپ کی علمی لیاقت کو دیکھ کر بار بار آپ سے باصرار یہ فرماتے رہے کہ آپ تدریس کے لئے دارالعلوم دیوبند میں صرف درخواست ڈال دیں باقی کام میرا ہے، لیکن حضرت کے قلب و جگر میں تو اہل میوات کی ضلالت و جہالت کے دلدوز مناظر گردش کر رہے تھے، اس لئے مؤدبانہ جواب دے دیتے کہ حضرت! مجھے تو اپنی قوم کی خدمت کرنی ہے، آپ کی قوم کے لئے یہی تڑپ، کڑھن اور افکار و آلام تھے جو آپ کو دیدہ بے خواب اور ماہئی بے آب بنائے رکھتے تھے،
سن ١٩٦٤ء میں مدرسہ کامیڈہ میں نیابتاً تدریسی خدمات انجام دیں،
پھر وہاں سے علٰیحدگی اختیار کر کے سن ١٩٦٥ء میں دہشت زدہ کر دینے والے بیابان (جہاں سے بانئ جماعت تبلیغ حضرت جی مولانا محمد الیاس رحمہ اللہ نے گزرتے وقت علم کی بو محسوس کی تھی) میں بے سرو سامانی کی حالت میں توکلاً علی اللہ جامعہ اسلامیہ دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑلا کا سنگِ بنیاد رکھا اور اخیر تک توکل علی اللہ کے اصول پر ہی عمل پیرا رہے، آپ سے پہلے بقول مقامی بزرگان بارہ آدمیوں نے یہاں کوشش کی لیکن علاقہ کی دینی بے اعتنائی کے سبب کوئی ثابت قدم نہ رہ سکا،
شاید یہ شاہکار قدرت نے آپ کے لئے مقدر کیا تھا،
قیامِ جامعہ کے بعد علم و اصلاح کے جس میدان میں بھی آپ قدم رنجہ ہوئے گردشِ ایام کی الجھنوں اور موج حوادث کے تھپیڑوں کے ہزار رکاوٹ بننے کے باوجود آپ موجِ تند جولاں بن کر قدم آگے بڑھاتے رہے اور فتح کے دروازے آپ کے لئے وا ہوتے گئے،آپ بزبان حال یوں گویا تھے،
حادثات نو بنو پر مسکراتا جاؤں گا
فتحِ بابِ زندگی کے گیت گاتا جاؤں گا
ابتداءً مدرسہ میں چھپروں کی شکل میں کچھ کچے کمرے تھے، آپ دہلی تشریف فرما تھے کہ کسی طالب علم کی ذرا سی غفلت کی وجہ سے پورا کا پورا مدرسہ جل کر خاکستر ہو گیا، سب حواس باختہ تھے کہ حضرت جب آئیں گے تو یہ ماجرہ دیکھ کر ان کے دل پر کیا بیتے گی، اطلاع ملنے کے بعد حضرت تشریف لائے، سارا ماجرہ دیکھا، سنا اور اپنی لگائی گئی بہار کا خزاں کی شکل میں مشاہدہ کیا ، لیکن اس مرد آہن کی جبینِ مبارک پر اضطراب کی کوئی سلوٹ یا پریشانی کی کوئی شکن نظر نہ آسکی،آہ!
ع ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے
پھر سن ١٩٨٠ء سے پختہ تعمیر کا آغاز کیا گیا،
سن ٢٠٠٠ء میں جمعیت میں قدم رنجہ ہوئے تو جمعیت علماء صوبہ راجستھان کے صدر منتخب ہوئے اور مسلسل دو مرتبہ صدر رہے، تیسری مرتبہ بہت اصرار کے باوجود آپ نے معذرت کرتے ہوئے استعفاء پیش کر دیا،
راہ سلوک کی بات کریں تو پہلے شیخ زکریا رحمہ اللہ سے بیعت تھے بعدہ سن ٢٠٠٠ء میں قطب وقت حضرت مولانا افتخار الحسن صاحب کاندھلوی رحمہ اللہ سے منسلک ہوئے، طبیعت کے منجھے اور معاصی کی آلودگی سے پاک ہونے کی وجہ سے اسی سال خلعتِ خلافت سے سرفراز ہوئے اور مقام ولایت میں اوجِ ثریا پر پہونچ گئے، پھر مرشدِ کامل کی حیثیت سے ہزاروں گم گشتہ راہ انسانوں کو صراط مستقیم کی رہنمائی فرمائی ، مریدین کا سلسلہ میوات و بیرون میوات سے روز بروز بڑھتا ہی گیا،
آپ کے سفر پرتاپگڑھ میں صرف ایک ہی سفر میں تقریباً بیس ہزار (٢٠٠٠٠)لوگ بیعت ہوئے.
فللہ الحمد و الامتنان
*دعوت و تبلیغ*
تحریک تبلیغ سے عقیدت و محبت اور اس کام سے دلچسپی تو آپ کو اپنے اجداد ورثہ میں ملی تھی،
گویا آپ تو اس جماعت سے عقیدت کے سایہ میں ہی پلے بڑھے تھے، آپ کے جد امجد میانجی موسیٰ رحمہ اللہ اس تحریک کے اہم ستونوں میں سے ایک تھے،
جنہونے اسی کار عظیم کے لئے اپنے تمام کاموں کو پس پشت ڈال دیا، ان کے بعد آپ کے والد محترم اور چچا مولانا عبدالکریم صاحب کی عقیدت بھی ڈھکی چھپی نہیں تھی، تو اس جماعت سے آپ کی وابستگی بھی قدرتی بات تھی،
چنانچہ نہ صرف یہ کہ آپ کو اس تحریک سے قلبی انسیت تھی بلکہ آپ نے اس باب میں بھی نا قابل فراموش کردار ادا کیا، سب سے پہلے فراغت کے بعد نصاب تبلیغ(جو اس وقت سات چلہ تھا) کی تکمیل کی، بعد میں گاھے گاھے وقت لگا تے رہے، مرکز نظام الدین کی طرف سے منعقد ہونے والے جلسوں میں بڑی دلچسپی لیتے، ان کے انتظام وانصرام اور جلسوں کی نمایاں کامیابی کے لئے جان توڑ کوشش فرماتے،
علاقے کے کچھ علماء کا انتخاب فرما کر جماعتوں میں تقسیم فرماتے، گاؤں گاؤں پہنچ کر لوگوں کی ذہن سازی کرتے اور جلسے کے لئے ماحول ہموار فرماتے،
جلسے سے پہلے پے در پے پروگرام کرتے اور اکابرینِ مرکز کی منشاء کے مطابق پُرجوش اور ولولہ انگیز خطابوں سے لوگوں کو جلسے سے قبل کچھ وقت لگانے پر آمادہ فرماتے، آپ کے خلوص کا نتیجہ تھا کہ جب بھی کہیں خطاب فرماتے تو ایک ہی خطاب سے چھوٹی چھوٹی مجلسوں سے بڑی بڑی جماعتیں تیار ہو جاتی تھیں،
تبلیغ سے متعلق ماہانہ اور ہفتہ واری پروگراموں میں پابندی سے شرکت فرماتے، نوح کے ماہانہ جوڑ میں اکثر حاضری دیتے،
اسکے علاوہ اکثر، لوگوں کے نزاعات کو چکاتے وقت جب صلح کی کوشش فرماتے، تو آخر میں فریقین کی تبلیغ میں وقت لگانے کیلئے تشکیل ضرور فرماتے، یوں معمول کے مطابق پیش آمدہ واقعات میں بھی موعظت کا پہلو تلاش کر کے دعوت الی اللہ کے فریضہ کو انجام دینے کی فکر فرماتے ،
خدا درد والوں کو آباد رکھے
کہ جاگےہوئےہیں جگائےہوئے ہیں
جامعہ میں اکثر تعلطیلات کے موقع پر عام طلباء سے چلہ کی جبکہ فارغین طلباء سے سال کی تشکیل فرماتے اور آپ کی شفقت کا عالم یہ تھا کہ طلباء کی تشکیل شدہ جماعتوں کو روانہ کر نے کیلئے خود انکے ہمراہ مرکز نظام الدین تشریف لے جاتے اور مشفقانہ وداعی سے نوازتے،
یہ تمام جھلکیاں آپ کی کار تبلیغ سے غیر معمولی دلچسپی کا پتا دیتی ہیں.
*اصلاح معاشرہ اور خدمت خلق*
آپ کی حیات کا ایک روشن باب اصلاح معاشرہ کی فکر بھی ہے،
عمومی فکر کے علاوہ ایک وقت وہ رہا جب آپ نے اصلاح معاشرہ کی فکر پوری طرح اوڑھ لی اور پوری تندھی کے ساتھ معاشرہ کی اصلاح کیلئے جدوجہد کی،
آپ نے اپنے رفقاء سے ملکر ایک جماعت بنائی اور میوات کے تمام گاؤوں کا دورہ کرنے کی ترتیب بنائی، چنانچہ تاریخ طے فرما کر روزانہ ایک گاؤں میں حاضر ہوتے، گاؤں کے تمام باشندگان خواہ کسی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں (مسلم ہوں یا غیر مسلم) اس جماعت میں شرکت کرتے، آپ خطاب فرماتے اور دوران خطاب اصلاح طلب امور کی نشاندہی فرماتے، اسکے بعد ہر گاؤں کی کارگزاری کیلئے وقت طے فرماتے کارگزاری کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ ان جلسوں سے مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلم متاثر ہوتے اور جتنے امور کی جانب توجہ دلائی جاتی وہ ان امور کی تکمیل میں مسلمان بھائیوں سے زیادہ متحرک نظر آتے،
چنانچہ کئی دفعہ یہ بات سننے کو ملی کہ جب آپ کو کسی گاؤں میں گئے کچھ زیادہ عرصہ بیت جاتا تو وہاں کے غیر مسلم یہ شکایت کرتے کہ حضرت آپ نے وہ سلسلہ کیوں روک دیا ہم تو آپکی بتائی ہوئی تمام باتوں پر عمل کرتے ہیں آپ کے مسلمان ہی نہیں مانتے.
تمام عمر خدمت خلق کے مختلف شعبوں سے منسلک رہ کر اس فریضہ کی انجام دہی فرماتے رہے، خاص طور سے قوم کو سودی کاروبار سے بچانے اور تجارت سے منسلک کرنے کیلئے آپ نے یہ مہم بھی شروع کی کہ بڑی تعداد میں ٹھیلے ترازو اور باٹ وغیرہ بنوائے، کھانے پکانے کے برتنوں کا انتظام کیا، لوگوں خصوصاً نوجوانوں کی اشہبِ فکر وعمل کو مہمیز دی اور انکے ذوق کے مطابق مذکورہ آلات انکے درمیان تقسیم فرما کر کوئی کاروبار شروع کرانے کا انتظام فرمایا،
اکثر لوگوں نے تو اپنی بد ذوقی کا مظاہرہ کرکے آپکو مایوس کیا، جبکہ کچھ لوگوں نے اس موقع کو غنیمت جانا، اپنے ہنر کو استعمال کیا اور تجارت کے میدان میں بہت آگے تک گئے، کم ہمت اور ملال ویاس کے شکار لوگوں کو یہ سبق دیا کہ
آگر ہمت کرے پھر کیا نہیں انسان کے بس میں
یہ ہے کم ہمتی جو بے بسی معلوم ہوتی ہے
*مکاتب کا قیام اور مساجد کی باز آباد کاری*
قوم کے بچوں کی اسلامی تربیت اور انکی شفاف لوح قلب پر دینی نقوش منقوش کرنے کیلئے آپ نے جابجا مکاتب قائم فرمائے، تاکہ وہ آگے چلکر عصری علوم بھی حاصل کریں تو کم از کم اپنے ایمان و عقائد کی حفاظت کر سکیں، اس وقت تقریباً ۲۸ مکاتب جامعہ کے زیر نگرانی مصروف عمل ہیں،
تعمیر مساجد کا باب بھی آپ کی حیات کا اہم عنوان ہے، سیکڑوں چھوٹی بڑی مسجدیں آپ کے توسط سے وجود میں آئیں، بحمد اللہ تا حال سلسلہ جاری ہے، لیکن تعمیر مساجد سے کہیں زیادہ مساجد کی آباد کاری پر آپ کا زور صرف ہوا ، آپ کو ہمیشہ یہ فکر دامنگیر ہوتی کہ کس طرح مساجد کی رونقیں بحال ہو جائیں، خصوصاً سن ٢٠٠٤ء میں ارتداد زدہ اور دینی وعملی اعتبار سے پچھڑے علاقوں کو آپ نے توجہ کا مرکز بنایا اور انہیں آبادی و شادابی فراہم کرنے کا ذریعہ بنے، جہاں امام کی ضرورت تھی وہاں امام مہیا کرنے کی فکر کی، اسی طرح مساجد کی تعمیر یا ضروریات کے تعلق سے جو بھی تقاضے ہوتے تو آپ انکا تکفل فرماتے، اس طرح سیکڑوں مساجد آپ کے طفیل شادابی و آبادی سے ہم کنار ہوئیں.
ان کے علاوہ اور بھی متعدد تحریکوں کے واسطے سے دین و قوم کی خدمت کے لئے تا حیات متحرک رہے،
قصئہ مختصر یہ ک وہ اپنی زبان میں سادگی، صفائی، بے تکلفی اور قادرالکلامی کے لحاظ سے بے عدیل تھے، اپنی تقریر کی چہل پہل میں وہ ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ کا مظہر معلوم ہوتے، خوف و خشیت اور استحضار کا یہ عالم تھا کہ جب کسی چھوٹی یا بڑی مجلس میں تعلیم یا بات کرتے ہوئے خدا کی شانِ کبریائی اور عالم ما بعد الموت کا کچھ ذکر آ جاتا تو خود اور سامعین ہچکیاں لےلے کر رونے لگتے، دعا کراتے تو ایک گھنٹہ بلکہ اور بھی زیادہ وقت سے پہلے دعا ختم ہونے کا تصور نہ ہوتا، پورا مجمع دہاڑ دہاڑ کر روتا، اخلاقِ حسنہ کا یہ عالم تھا کہ پہلی مرتبہ ملاقات کرنے والے کو بھی ایسا محسوس ہوتا جیسے کتنے دنوں سے محبت کا تعلق ہو، جودوسخا میں حاتم طائی کا ثانی معلوم ہوتے تو مردم سازی اور قائدانہ صلاحیتوں کی جامعیت کے لحاظ سے علم دین کی آبیاری کرنے والے سالاروں کی صف میں بالکل نمایاں نظر آتے، یعنی وه ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔ آپ بھی اگر عرصہ حیات میں ان سے ملتے تو ان کے کارہائے نمایاں اور ہمہ جہت شخصیت کو دیکھ کر مولانا ابوالکلام رحمۃ اللہ علیہ کی آواز میں آواز ملا کر وہی الفاظ دہراتے جو مولانا ابو الکلام نے علامہ حالی کے لئے فرمائے تھے کہ
بہت جی خوش ہوا حالی سےمل کر
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں
اور آج بھی ان کے لگائے ہوئے عظیم الشان شبستان علم (جس میں ٢٠٠٠ طلباء اور ١٦٠٠ طالبات زیور تعلیم سے آراستہ ہو رہے ہیں، یہ ادارہ درجہ ناظرہ، حفظ، عربی اول تا دورہ حدیث شریف اور تکمیل افتاء تک کی تعلیم پر مشتمل ہے، نیز انجمن شعبہ مناظرہ، اصلاح البیان، اصلاح اللسان اور النادى الادبی (عربی) بھی اپنے جلوے بکھیرنے میں مصروفِ عمل ہیں) کو دیکھ کر ان کے عہد کی ساری رنگینیاں اور سر مستیاں ذہن و دماغ پر تسلط قائم کرکے دینی حمیت کا پیغام دیتی ہیں،
أولئك آبائی فجئنی بمثلھم
إذا جمعتنا یا جریر المجامع
میوات کا یہ روشن چراغ پورے انہماک کے ساتھ اپنی روشنی گوشہ گوشہ پہنچا ہی رہا تھا کہ اچانک علالت کے ایام شروع ہوئے پہلے الور پھر دہلی میں چند روز زیر علاج رہنے کے بعد ١٧ /رجب ٣٣٤١ھ بمطابق ٧ /جون٢١٠٢ء بروز جمعرات بعد اذان مغرب شب جمعہ داعئ اجل کو لبیک کہا اور روحِ قفس عنصری سے پرواز کرگئی ، اناللہ وانا الیہ راجعون۔
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
تمهىں سوگئے داستاں کہتے کہتے
نماز جنازہ میں عوام و خواص کا اتناجمِ غفیر تھا کہ جب جنازہ چلنا شروع ہوا تو اندرون جامعہ اور باہر کا پورا جنگل انسانی سیلاب کی شکل اختیار کئے ہوئے تھا ، جنازہ میں شرکت کیلئے لوگ طوفانِ بلا خیز کی طرح امڈ پڑے تھے، تعداد کا اندازہ تقریباً لاکھ سوا لاکھ بیان کیا ہے ، اہل میوات اپنے سروں پر ماتم کر رہے تھے کہ اب میوات کا کیا حال بنےگا اور نمدیدہ آنکھوں کے ساتھ اس مردِ مجاہد کو الوداع کہا،
نماز جنازہ آپکے چچا *مولانا عبد الکریم صاحب* رحمہ اللہ سابق شیخ الحدیث مدرسہ عالیہ فتحپوری نے پڑھائی.
حضرت مولانا محمد قاسم صاحب رحمہ اللہ کے علوّ مرتبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کی وفات کے بعد جب آپ کے جانشین اخلاف آپ کے شیخ و مرشد حضرت مولانا افتخارالحسن کاندھلوی رحمہ اللہ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو شیخ نے فرمایا کہ میں شدید علالت کے باعث حاضری نہ دے سکا، لیکن اگر طبیعت اتنی سازگار ہوئی کہ سفر کر سکوں تو اپنے محسن کی قبر پر حاضری ضرور دوں گا. سوچئے کوئی شیخ اپنے مرید کو محسن کہے تو اس سے اس شخص کے مقام کا اندازہ کیا جا سکتا ہے، رب کریم آپ کی جملہ مساعئ جمیلہ کو شرفِ قبولیت عطاء فرمائے، آپ کے گلشن کو تا ابد سرسبز و شاداب رکھے، آپ کے چمن، جملہ تلامذہ اور تمام امور خیر کو صدقہ جاریہ بنا کر آپ کی نیکیوں میں شامل فرمائے اور پوری امت کو آپ کا نعم البدل مرحمت فرمائے. آمین یا رب العالمین
مثلِ ایوانِ سحر مرقد فروزاں ہو ترا
نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا
____________
(مفتی) محمد صابر شھاب بھرتپور راجستھان
خادم :جامعہ دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑلا
____________
Comments are closed.