آپ کے شرعی مسائل؟ فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی جنرل سیکرٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا * بانی و ناظم المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد

آپ کے شرعی مسائل؟
فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
جنرل سیکرٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا * بانی و ناظم المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد
کان میں اذان
سوال: بعض عامل حضرات آسیبی اثرات کو دور کرنے کے لئے کان میں اذان دیتے ہیں؛ حالاں کہ اذان نماز کے اعلان کے لئے ہے (محمد راشد خان، دبیر پورہ)
جواب: نماز کے علاوہ بعض اور مواقع پر بھی روایتوں میں اذان دینے کا ذکر آیا ہے، جیسا کہ بچے کی پیدائش کے موقع پر نو مولود کے کان میں اذان دینے کا کتب حدیث میں ذکر آیاہے، اسی طرح ایک روایت میں بیماری سے صحت کے لئے بھی کان میں اذان دینے کا ذکر آیا ہے، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو غمزدہ دیکھا تو فرمایا: اپنے گھر کے لوگوں کو حکم دو کہ وہ تمہارے کان میں اذان دیں، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نقل کرتے ہیں کہ میں نے جب اس کا تجربہ کیا تو مفید پایا:…….. فجربتہ فوجدتہ کذالک (مرقاۃ المفاتیح ، باب الاذان: ۱؍۴۱۴) آسیب بھی بیماری ہی کی ایک شکل ہے؛ اس لئے از راہ علاج اذان دینے کی گنجائش ہے۔
اگر بچہ ملنے کی امید نہ ہو تو باپ پر نفقہ کی ذمہ داری
سوال: زید اور اس کی بیوی کے درمیان علحدگی ہو چکی ہے، زید کا بچہ دو سال کا ہے اور لڑکی والے کا مطالبہ ہے کہ وہ بچہ کا نفقہ ادا کرے؛ لیکن زید کو یقین ہے کہ جب بچہ سات سال کا ہو جائے گا، تب بھی لڑکی والے اس کو بچہ واپس نہیں دیں گے، کیا ایسی صورت حال میں بھی بچہ کا نفقہ ادا کرنا باپ کے ذمہ ہوگا؟ (محمد محسن، عادل آباد)
جواب: جب بچہ اس عمر کو پہنچ جائے، جس میں حق پرورش باپ کو حاصل ہوتا ہے اور بچہ کو باپ کے حوالہ کر دینے میں مضرت کا اندیشہ نہ ہو تو بیوی پر واجب ہے کہ بچہ باپ کے حوالہ کر دے اور باپ کی ذمہ داری ہے کہ اس وقت ماں کے لئے وقتاََ فوقتاََ اپنی اولاد سے ملاقات کی سہولت دے دے؛ لیکن صرف اس اندیشہ کی وجہ سے کہ شاید لڑکے کی ماں لڑکا باپ کے حوالہ نہیں کرے گی، بیٹے کا نفقہ روک لینا جائز نہیں؛ کیوں کہ بیٹے کا نفقہ باپ پر ولدیت کے رشتہ کی وجہ سے واجب ہے اور یہ رشتہ موجود ہے: نفقۃ الأولاد الصغار علی الأب لا یشارکہ فیھا أحد (ہندیہ: ۱؍۵۶۱)
ناپاک کپڑے کے ساتھ مسجد میں داخل ہونا
سوال: اگر کسی شخص کے کپڑے میں نجاست لگی ہوئی ہو، جیسے پائجامہ میں پیشاب کے قطرات ٹپک گئے تھے، جسے دھویا نہیں جا سکا، کیا وہ ایسے کپڑے کے ساتھ مسجد میں جا سکتا ہے؟(عبد الحنان، کریم نگر)
جواب: مسجد اللہ کا گھر ہے، عبادت کی جگہ ہے اور اس کو نجاست سے آلودہ کرنا اس کے احترام کے خلاف ہے؛ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاحب کو مسجد کے سلسلہ میں تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا: یہاں پیشاب اور گندگی کی گنجائش نہیں ہے،’’ إن ھذہ المساجد لا تصلح لشئی من ھذا البول ولا القذر‘‘ (مسلم، حدیث نمبر: ۲۸۵) اس لئے ناپاک کپڑے کے ساتھ مسجد میں داخل نہیں ہونا چاہئے، فقہاء نے بھی اس کے ناجائز ہونے کی صراحت کی ہے۔ ’’ ولا یدخلہ من علی بدنہ نجاسۃ‘‘ (رد المحتار: ۱؍۱۷۲، نیز دیکھئے: البحر الرائق:۲؍۳۴)
ایک ادارہ کی رقم دوسرے ادارہ میں
سوال: ایک صاحب دواداروں (مدارس) کے ذمہ دار ہیں، ان کو ایک ادارہ کے لئے رقم دی گئی؛ لیکن ان کے تحت چلنے والے دوسرے ادارہ کو زیادہ ضرورت تھی، کیا وہ دوسرے ادارہ کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے وہ پوری رقم جو اس رقم کا کچھ حصہ اپنے زیر نگرانی دوسرے ادارہ کو دے سکتے ہیں؟ (صباح الدین قاسمی، بجنور)
جواب: تعاون کے طور پر جو چیز دی جاتی ہے، اس میں یہ بات بھی ضروری ہے کہ اسے اپنے مصرف میں خرچ کیا جائے، اور یہ بھی ضروری ہے کہ دینے والے کے منشاء کی پوری پوری رعایت کی جائے، اپنی طرف سے اس میں کوئی تبدیلی نہیں کرے۔’’ الوکیل إنما یستفید التصرف من المؤکل وقد أمرہ بالدفع الیٰ فلان لا یملک الدفع الیٰ غیرہ کما لو أوصیٰ لزید بکذا لیس للوصی الدفع الیٰ غیرہ فتأمل ( ردالمحتار:۲؍۲۶۹) اس لئے اگر ایک ادارہ کے لئے رقم دی گئی، جس کی فی الحال یا مستقبل میں اس کو ضرورت پیش آسکتی ہے توو دوسرے ادارہ کو یہ رقم دے دینا جائز نہیں ہوگا، سوائے اس کے کہ چندہ دینے والے نے اجازت دی ہو، یا وہ دوسرا ادارہ بھی اسی ادارہ کے زیر انتظام ہو اور اس کی شاخ کے درجہ میں ہو۔
مدرسہ کی آمدنی سے مسجد کے امام ومؤذن کی تنخواہ
سوال: ہمارے یہاں مدرسہ کے تحت گاؤں کی مسجد ہے، مدرسہ ہی اس کے لئے امام ومؤذن مقرر کرتا ہے، کیا مدرسہ کے پیسوں سے اس مسجد کے امام ومؤذن کی تنخواہیں دی جا سکتی ہیں؟ (صباح الدین قاسمی، بجنور)
جواب: مدرسہ کی رقم مدرسہ ہی پر خرچ کی جا سکتی ہے نہ کہ مسجد پر؛ تاکہ چندہ دینے والے کے منشاء کی رعایت ہو سکے؛ لیکن جو مسجد مدرسہ کے زیر انتظام ہو، اس پر خرچ کرنا بھی مدرسہ ہی پر خرچ کرتا ہے؛ لہٰذا عطیہ کی رقم میں سے اس مسجد کے خدام کی تنخواہ دی جا سکتی ہے۔
انشورنس کمپنی میں ماہرانہ تحقیق کی ملازمت
سوال: آج کل مختلف چیزوں کا انشورنس ہوتا ہے، صحت کا بھی، گاڑیوں کا بھی، مکانات اور دوکانوں کا بھی، یہاں تک کہ جانوروں کا بھی انشورنس کرایا جاتا ہے، ایسی صورت میں جب نقصان ہوتا ہے تو کمپنی ڈاکٹرز اور ماہرین کو نقصانات کا اندازہ کرنے کے لئے بھیجتی ہے، اور ان کو اس کی تنخواہ ملتی ہے، کیا مسلمان ڈاکٹرز اور ماہرین یہ ملازمت کر سکتے ہیں اور ان کے لئے اس کی آمدنی حلال ہوگی؟ (رفیع الدین ندوی، جھانسی)
جواب: انشورنس کی یہ صورتیں عام حالات میں ناجائز ہیں؛ لیکن آپ نے جن ملازمین کا ذکر کیا ہے، وہ نہ لوگوں کا انشورنس کراتے ہیں اور نہ ان کو اس کی ترغیب دیتے ہیں، ان کا کام صرف تحقیق کرنا اور رپورٹ دینا ہوتا ہے؛ اس لئے ان کی ملازمت جائز ہے اور ان کو تنخواہ اپنی محنت اور مہارت کو روبہ عمل لانے پر ملتی ہے ؛ اس لئے ان کی آمدنی بھی جائز ہے، استاذ گرامی حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہیؒ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ زندگی کا بیمہ ناجائز ہے، ڈاکٹر معائنہ کرنے کی فیس لیتا ہے وہ جائز ہے، اس کو ہر کام میں خرچ کر سکتا ہے‘‘ (فتاویٰ محمودیہ: ۱۶؍۳۹۰)
نماز میں سر کے بال اوڑھنی سے باہر رہ جائیں
سوال: میرے بال کافی لمبے ہیں، میں نماز میں اس طرح اوڑھنی لپیٹنے کی کوشش کرتی ہوں کہ پورا بال اوڑھنی میں چھپ جائے؛ لیکن بعض دفعہ کچھ بال اوڑھنی کے نیچے لٹک جاتا ہے اور کھلا رہ جاتا ہے، کیا اس سے میری نماز پر کچھ اثر پڑے گا؟ (درخشندہ قمر، ٹولی چوکی)
جواب: عورتوں کے سر کا بال چاہے سر سے نیچے لٹکا ہوا ہو، ستر میں شامل ہے؛ اس لئے اوڑھنی کے اندر پورے بال کو چھپا کر رکھنا واجب ہے، اور جو حصہ ستر میں شامل ہے، اگر اس کا ایک چوتھائی حصہ تین تسبیح پڑھنے کے بہ قدر نماز میں کھلا رہ جائے تو نماز فاسد ہو جائے گی؛ اس لئے جس نماز میں سر کا چوتھائی بال کھلا رہ جانا یاد ہو تو اس کی قضا کر لیجئے اور آئندہ اس سلسلہ میں پوری احتیاط برتئے۔’’ والعورۃ…… جمیع بدنھا حتی شعر ھا النازل فی الأصح (رد المحتار: ۱؍۴۰۵) ویفسدھا أداء رکن…… وھو قدر ثلاث تسبیحات إلیٰ آخرہ (حاشیۃ الطحطاوی علی الدر ، باب ما یفسد الصلاۃ: ۱؍۲۶۶)(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.