آہ – – کلیجہ منہ میں آنے کو ہے!! محمد صابر حسین ندوی

آہ – – کلیجہ منہ میں آنے کو ہے!!
محمد صابر حسین ندوی
7987972043
انسان کی بے بسی و بے کسی اور لاچاری، ضعف و کمزوری، نادانی لاغر ہوجانا اس کے ہم مثل تمام الفاظ لے آئیے، ہر ایک لغت سے چن چن کر وہ لفظ نقل کردیئے جس سے انسان کی بے وقعتی اور اس کا جھول ظاہر ہوتا ہو؛ تب بھی اس حقیقت کا احساس شاید ہی ہو، جس کا وہ حقیقی معنوں میں مجموعہ ہے؛ لیکن کسی زندہ شخص کو مرنے جانے کے بعد دیکھ لیجئے! ساری لغتیں ہیچ ہوجائیں گی، ڈکشنریز خواہ کسی بھی زبان کی ہو، الفاظ بھلے دنیا کے مشہور ترین زبانوں میں سے ہوں، وہ سب ردی کاغذ سے بڑھ کر نہیں ہوگا، چلتا پھرتا، ٹہلتا اور ہنستا، بولتا انسان کیسے لمحہ بھر میں سب کچھ اپنے پیچھے چھوڑ کر دنیا کے جھمیلوں، تام جھام اور شور شرابے کو بھول کر سفر آخرت پر چل پڑتا ہے، سامنے پڑی اس کی نعش ایک سرد، ٹھنڈی اور بے جان ہے، جس میں اب کوئی حرکت نہیں ہے، اب جو چاہے اسے ہلا سکتا ہے، اپنی انگلیوں پر اسے کنٹرول کر سکتا ہے، اپنی من مانی کرسکتا ہے، یہ وہی ہے جس کے سامنے اگر کسی نے آواز اونچی کردی، باتوں ہی باتوں میں اگر کسی نے ایک لفظ تیکھا کہہ دیا یا ایسی کوئی ترشی گھول دی جو اس کے مزاج کے خلاف ہے تو دنیا جہان ایک کردیتا ہے، اس کے سامنے موجود انسان ایک ٹارگیٹ بن جاتا ہے، جسے وہ تہہ و تیغ کردینا چاہتا ہے، وہی انسان اب اس حال و کیفیت سے یہ کہے جاتا ہے؛ کہ ہائے دنیا تونے کیا دیا اور میں نے کیا لیا، میری جوانی، جوش اور سرگرمی، بڑھاپا، ضعف اور بال بچے، شہرت دولت اور عزت وناموس سبھی کچھ تو زمین دوز ہوگئے، اب یہ خالی ہاتھ، خالی جیب اور ٹوٹی ہویی سانسیں ہیں، وہ کہتا ہے اے جوانوں تمہیں کس جوانی کی پڑی ہے؟ تم کس شہرت اور حیثیت کے پیچھے بھاگ رہے ہو؟ سب کچھ رہ جائے گا، تم بڑھ جاؤ گے! تمہارا جسم بھی خاک ہوجائے گا، پرزہ پرزہ مٹی اور کیڑے مکوڑوں کی خوراک ہوجائے گا، ساری توانائی اور ولولہ پر خاک پڑ جائے گی، دیکھنے والے دیکھتے رہیں گے اور دو چند آنسوؤں اور اپنے پرایوں کے غل اور چیخ و پکار کے درمیان بھی یہی ہوگا کہ کالی مٹی اپنے اندر نگل لے گی!
آج بندہ کی ہمشیرہ کے سسر محترم کا انتقال پر ملال ہوگیا، انہوں نے اپنی زندگی جی، متوقع عمر بھی پائی، صحت و تندرستی، محنت و جفاکشی کے ساتھ آخری سانس لی، مٹی میں اپنے ہاتھوں کو گرد آلود کرتے ہوئے موت کو گلے لگایا، وقت بے وقت (جو موت کی خاصیت ہے) زندگی کو خیر باد کہا، مرحوم کے سلسلہ میں عموماً لوگ رطب اللسان ہیں، ذکر خیر کی محفل سجی ہے، آپ صوم و صلاۃ کے پابند تھے، بڑی خوبی یہ تھی کہ ان کی عمر محبت اور کدو کاوش کی داستان ہے، ہاتھوں کی کمائی کھانے والے، پراگندگی میں بندگی اور للہیت کے پیکر تھے، آنکھوں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار پایا تھا، مکہ مکرمہ اور کعبۃ اللہ والہانہ فضا پائی، حج کی برکت نے ان کی کایا پلٹ دی تھی، اب وہ اپنے رب حقیقی کے دربار وہی سرفرازیاں لیکر حاضر ہیں، اے اللہ اسے قبول فرمالے- – – -انا للہ وانا الیہ راجعون اللهم اغفر له وارحمه واسكنه فسيح جناته ويلهم أهله وذويه الصبر والسلوان – – – – اس ماحول میں رہ رہ کر یہ خیال آتا ہے کہ موت دراصل زندگی کی حقیقت اور اس کی بے ثابتی کا ایک الارم ہے، بالخصوص جب اپنوں کے درمیان یہ غم و ملال سرایت کرے، آنسوؤں سے نڈھال، چہرے مایوس اور دل مغموم ہوجائے تو صحیح معنوں میں کلیجہ منہ کو آجاتا ہے، روح کانپ جاتی ہے، ایک عبرت کا نشان دے جاتی ہے، دل بیٹھنے لگتا ہے کہ ہم کس دنیا میں ہے ہم کیا کر رہے ہیں؟ محبت و مودت کی مالا بکھری جاتی ہے، انسانیت دم توڑ رہی ہے، صرف اس لئے کہ ہر کوئی دنیا میں اپنی ایک جگہ بنالے، اپنا ایک مقام بنالے، مگر کونسا مقام؟ کونسا مرتبہ؟ وہی جس کے سلسلہ میں آپ کی نعش کے پاس بیٹھ کر آپ ہی کے عزیز مذاکرہ کریں گے، ایک نئے دور کی بات کریں گے، آپ کی تمام حیثیت و مرتبت کو بھول کر وہ اپنی بلندی کے منصوبے بنائیں گے اور آپ کو جلد از جلد دفن کر کے ایک مصیبت سر سے ٹالنے یا پھر اس میں بھی اپنی مرضی جتانے کی کوشش کریں گے، واقعی سوچنے اور سمجھنے کی بات ہے، زندگی بس اتنی ہے کہ آپ اپنے رب کو راضی کرلیں، موت سے قبل موت کے بعد کی تیاری کرلیں، جو ملے اس پر بھی راضی ہوں اور جو نہ ملے اس پر بھی دل مطمئن رہے، بس اسے اللہ تعالی فیصلہ سمجھ کر سر تسلیم خم کردیں۔
Comments are closed.