سلام اس پر کہ جس نے زخم کھا کر پھول برسائے محمد قاسم اوجھاری

سلام اس پر کہ جس نے زخم کھا کر پھول برسائے
محمد قاسم اوجھاری
فتح مکہ کا زمانہ چل رہا ہے عرب میں ایک عظیم انقلاب برپا ہو رہا ہے اہل اسلام سپر پاور بن کر ابھر رہے ہیں، مسلمانوں کے حق میں فتح و کامرانی کا سورج طلوع ہو رہا ہے اور اس پوزیشن میں ہو رہے ہیں کہ اب کفار مکہ کو ان کے مظالم کا مزہ چکھائیں گے، ان سے ہر ظلم و ستم کا بدلہ لیں گے مکہ میں اسلامی علم لہرائیں گے، ہر مسلمان جذبہ انتقام سے سرشار ہے سینوں میں انتقام کی آگ بھڑک رہی ہے، جوش انتقام میں بار بار زبان پر یہ الفاظ آرہے ہیں اليوم نضربكم على تنزيله، ضربا يزيل الهام عن مقيله، ويذهل الخليل عن خليله (ترمذی رقم ٧٨٦٧) آج ہم تمہیں ایسی مار ماریں گے کہ تمہاری کھوپڑی سر سے الگ ہو جائے گی اور تم اپنے دوست و احباب کو بھی بھول جاؤ گے۔
سپاہیوں کی اس درجہ حوصلہ مندی اور جرات مندانہ کلمات پر فاتح مکہ کو تو آگ بگولہ ہو جانا چاہیے تھا کیونکہ سربراہان مملکت کا یہی دستور رہا ہے کہ فوج کے حوصلہ اور جرات کو دیکھ کر سینہ آگ سے بھڑک اٹھتا ہے، قرآن کریم کہتا ہے: ان الملوك اذا دخلوا قرية افسدوها وجعلوا اعزة اهلها اذلة (سوره نمل ٣٤) بادشاہ جب فاتح بن کر کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اس بستی کے نظم و انتظام کو تباہ و برباد کر دیتے ہیں، اس علاقے کے باعزت لوگوں کو ذلیل و رسوا کرکے ذلت و خواری کا پرچم ان کے ہاتھوں میں تھما دیتے ہیں، یہی حکام عالم کا امتیاز اور طور و طریقہ رہا ہے۔
لیکن وہ بادشاہ جس پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے تھے مکہ اور طائف کی گلیوں میں جس کو لہولہان کیا گیا تھا جس کے راستوں میں کانٹے بچھائے گئے تھے اور ہر طرح سے اس کو ستایا گیا تھا ظلم و جبر کی تمام کہانیوں کو پس پشت ڈال کر تواضع و انکساری کو سینے سے لگائے ہوئے اخوت و محبت اور عفو درگزر کی ایک عظیم مثال قائم کر کے امن و سلامتی کا پرچم لہراتے ہوئے مکہ میں داخل ہوتا ہے، کفار قریش آپ کے سامنے آئے شرماتے ہوئے سہمے ہوئے ڈرے ہوئے، رحمت عالم نے قریش مکہ سے مخاطب ہو کر فرمایا: يا معشر قريش ما ترون اني فاعل فيكم (فتح الباری) اے قریشیو: تم جانتے ہو میں آج تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں گا ؟
کہنے لگے؛ کہ اللہ کے رسول ہم نے آپ جیسا حلیم و بردبار نہیں دیکھا، کسی انسان کو رتبہ اور مرتبے میں آپ کے ہم پلہ نہیں پایا، آپ کی شرافت ضرب المثل ہے اور شریفوں سے شرافت کی ہی توقع رکھی جاتی ہے، اس لیے ہمیں آپ سے خیر و معافی کی امید ہے۔۔۔ لیکن دل اندر سے کہہ رہے تھے کہ آج جان کی خیر نہیں ہمارے ایک ایک ظلم کا بدلہ لیا جائے گا، آج ایک ایک مسلمان شہید کے خون کے بدلے کا دن ہے، ہمیں اپنے کرتوتوں کی سزا بھگتنی ہی پڑے گی، ابو جندل کی پیٹھ سے لے کر بلال حبشی کے سینے تک کتنے جسم ہیں جن کو ہم نے نہیں چھیدا، نہیں تپایا، نہیں داغا، ہمارے ہی ظلم و ستم کے سبب محمد بن عبد اللہ کو گھر سے بے گھر ہونا پڑا تھا، ہمارے ہی سردار ابوسفیان کی بیوی نے محمد کے پیارے چچا حمزہ کا کلیجہ چبایا تھا، اور ابن قمیہ ہمیں میں سے تھا جس نے در یتیم آمنہ کے چہرے کو لہولہان کیا تھا۔۔۔ رحمت عالم ظلم و ستم کی ہر کہانی کو بھلا کر کہتے ہیں: اليوم يوم المرحمة اليوم يوم بر ووفاء (البدایہ والنهایہ) لوگوں آج معافی کا دن ہے رحم و کرم کا دن ہے آج احسان و وفا کا معاملہ کیا جائے گا، لا تثريب عليكم اليوم اذهبوا فانتم الطلقاء (فتح الباری) آج تم سے کوئی پوچھ گچھ نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو۔
سلام اس پر کہ اسرار محبت جس نے سمجھائے
سلام اس پر کہ جسنے زخم کھاکر پھول برسائے
بس یوں سمجھئے کہ قاتلوں کو پھانسی کے تختے پر چڑھا کر اتار دیا گیا، تلواریں گردن کے قریب لاکر روک دی گئیں، موت کا فرشتہ حلقوموں کی طرف اپنا ہاتھ بڑھا چکا تھا کہ اسے تھما دیا گیا، انسانیت کی پوری تاریخ عفو و درگزر اور اخوت و محبت کی اس مثال سے خالی ہے، کسی مبالغے کے بغیر پوری دیانت اور کمال ذمہ داری کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر جامع شخصیت تاریخ و سیر میں کہیں نظر آتی ہی نہیں، آپ کا پیغام ملکوں اور خطوں سے نکل کر ایک عظیم انقلاب کی شکل میں رونما ہوا، اور اس پیغام سے پوری دنیا گونج اٹھی قوموں کی تقدیریں بدل گئیں، غلام تک پستیوں سے نکل کر شہہ نشینوں پر جا بیٹھے، یہ انقلاب چہروں اور صورتوں کا نہیں فکر و نظر اور ضمیر و باطن کا انقلاب تھا جس نے چوروں اور لٹیروں کو بھی انتہائی دیانت دار اور امن پسند بنا دیا، اس نے دشمنوں کو بھی اپنے گلے لگایا، صالح تمدن اور پاکیزہ معاشرے کی بنیاد ڈالی۔
آپ کی حیات طیبہ کھلی ہوئی ایک روشن کتاب ہے قلم ہزاروں سطریں بھی کاغذ پر منتقل کردے تب بھی آپ کے کسی ایک وصف کی مکمل تصویر نہیں کھچ سکتی۔۔۔ اگر دل کی آنکھیں بالکل بے نور ہو جائیں تو اس کا کوئی علاج نہیں، ہاں اگر دل میں درد اور طبیعت میں احساس ہو چشم بصیرت میں ذرا سی بھی روشنی موجود ہو تو آپ کی زندگی کو پڑھنے والا یہ کہنے پر مجبور ہوجائے گا اور اس کا دل خود بخود کہہ اٹھے گا کہ بس یہی زندگی حق و صداقت پیار و محبت عفو و درگزر اور اخوت و بھائی چارگی کا آخری معیار ہے۔
Comments are closed.