"لمحہ گزر گیا تو سمجھئے صدی گئی "

"لمحہ گزر گیا تو سمجھئے صدی گئی ”

 

محمد قمر الزماں ندوی

مدرسہ نور الاسلام، کنڈہ پرتاپگڑھ

 

ووٹ ایک امانت ہے، شہادت و گواہی ہے، اور یہ وکالت بھی ہے، اس کا صحیح اور درست استعمال یہ صرف سماجی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ یہ مذھبی عمل اور دینی فریضہ بھی ہے، نیز ووٹ ایک ہتھیار بھی ہے، جس سے جمہوری ملکوں میں تبدیلی اور انقلاب لایا جاتا ہے، ظالم و جابر اور ناپسندیدہ حکمرانوں اور پارٹیوں کو اقتدار سے باہر کیا جاتا ہے اور اس کے مقابلے میں جو اچھے لوگ اور اچھی پارٹی ہوتی ہے، اس کو حکومت و اقتدار سونپی جاتی ہے، اس لیے ووٹ کا ضرور استعمال کرنا چاہیے اور خوب سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے، پہلے اچھی طرح حالات کا جائزہ لینا چاہیے اور باہم صلاح و مشورہ کرنا چاہیے، علماء کرام اہل علم اور دانشوروں کی خفیہ میٹنگ ہر حلقہ میں ہونی چاہیے، کسی بھی پارٹی کے جیتنے اور ہارنے کے انجام اور عواقب پر پر غور کرنا چاہیے، ماضی کے تلخ تجربات کو سامنے رکھنا چاہیے، مستقبل کے اندیشوں اور توقعات کے درمیان موازنہ کرنا چاہیے۔ اس وقت ہندوستان کا جو ماحول ہے اور فرقہ پرستی جس طرح عروج پر ہے اور اقلیتوں کو جس طرح حقوق سے بے دخل کیا جارہا ہے اور ان کے ساتھ ناانصافی کی جارہی ہے،اس میں جہاں برہمن لابی کا پورا عمل دخل ہے، وہیں اس وقت اسرائیل سے یہاں کی حکومت کی گہری دوستی ہے، وہ ہندوستان کا مشیر بنا بیٹھا ہے، ہندوستان کی سیاست میں وہ امریکا کے ساتھ مل کر دخیل ہے، اسرائیل ہندوستان میں اپنے سیاسی عزائم رکھتا ہے اور امریکا اس کی پشت پناہی کرتا ہے، اسرائیل کی پالیسی ہے کہ ہندوستان میں اس پارٹی کی حکومت رہے اور ایسے لوگ اقتدار میں آئیں، جن کا ریموٹ کنٹرول اس کے ہاتھ میں ہو، وہ اس کی پالیسیوں کے مطابق فیصلے کریں۔ اسرائیل دوسرے ملکوں کے بارے میں بھی یہاں تک دخیل بن رہا ہے کہ داخلہ پالیسی، اقتصادی نظام، دفاعی سودے اور خارجہ پالیسی کے معاملے میں ترقی پذیر ممالک ان کی قائم کی ہوئی حدود سے باہر نکلنے کی کوشش نہ کریں۔۔

ان دنوں بہار میں چناوُ ہے، انتخاب کا وقت بالکل قریب ہے، ۲۸ اکتوبر اور ۳/ اور ۷ نومبر کو تین مرحلے میں یہ الیکشن ہونا ہے، مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے لیے یہ وقت کرو یا مرو کی طرح ہے ایسے وقت میں مسلمانوں کو انتہائی تحمل برداشت اور سوجھ بوجھ سے کام لینا ہے اور ان کو ترجیحات طے کرنی ہے ، ان کی ذمہ داری ہے کہ برائی ظلم تعصب اور اتیا چار کو روکنے کی کوشش کریں۔ ملک سیاسی اعتبار سے دو راہے پر کھڑا ہے، اگر مسلمان جذبات کی رو میں بہہ گئے ہوش پر جوش کا غلبہ ہوگیا اور فیصلہ کرنے میں چوک گئے تو یاد رکھئے کہ پھر فسطائی طاقت پر لگام لگانا مشکل ہوجائے گا۔۔ اور حال یہ ہوگا کہ ۔۔۔

 

لمحہ گزر گیا تو سمجھئے صدی گئی

 

اس وقت بعض سیاسی پارٹیاں اور خاص طور پر کچھ مسلم پارٹیاں کانگریس کے خلاف سخت محاذ کھولے ہوئی ہیں اور مرادآباد، میرٹھ اور بھاگلپور فسادات جو کانگریس کے دور میں ہوئے یا اس نے کرایا ، اس کا خوب چرچا کر رہے ہیں اور بابری مسجد کے سلسلے میں اس کے منافقنہ رول کا تذکرہ کر رہے ہیں، یقیناً کانگریس نے یہ سب کچھ کرایا اور اس کو اس کے جرم کی سزا ملی، اور مل رہی ہے اور آگے اور ملے گی، لیکن جو مسلم لیڈران ابھی کانگریس کو ننگا کر رہے ہیں ان کا مقصد مسلمانوں کی ہمدردی نہیں ہے وہ مسلمانوں کو کنفیوز کر رہے ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ مسلمانوں کے ووٹ منتشر ہو جائیں گے اور یہ چھوٹی چھوٹی پارٹیاں ان کے ووٹ کو تتر بتر کردیں گی، متحدہ محاذ کو ناکامی ہوگی اور فرقہ پرست پارٹیوں کا اقتدار پر قابض ہونا آسان ہو جائے گا پھر وہ جس طرح اپنے منصوبے کا نفاذ کریں گے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں رہے گا اور جو حالت اور درگت ہوگی وہ سب خود دیکھ لیں گے۔۔

کانگریس کسی طرح قابل رحم نہیں ہے، لیکن موجودہ حکومت کے مقابلے میں یہ ہمارا اس سے کمتر دشمن ہے۔ آزادی کے بعد سے پہلی بار مسلمانوں پر اس طرح کے حالات آئے ہیں کہ نفسی نفسی کا عالم ہے، ہمارا جینا دوبھر ہو گیا ہے، ہمارے خلاف اتنی گہری سازشیں ہو رہی ہیں، کانگریس نے بہت کچھ ہمارے خلاف کیا لیکن اتنا نہیں، جتنا آج موجودہ حکومت کر رہی ہے،۔۔۔

اس لیے اگر اس وقت بڑے دشمن کو مات دینے کے لیے کانگریس کو ووٹ دیا جائے جو مہاگٹ بندھن کا حصہ ہے، جو سیکولر فرنٹ کا جز ہے، جس میں لیفٹ پارٹیاں بھی ہیں، تو یہی عقلمندی اور دانشمندی کی بات ہوگی، اور اھون البلیتن پر عمل ہوگا، جو کے شریعت کی بھی ہدایت اور گائڈ لائن ہے ایسے مشکل وقت میں۔۔۔۔۔

میں اہل بہار سے گزارش کروں گا اور خاص طور پر علماء کرام سے کہ، آپ لوگ ترجیحات طے کریں ۔۔۔

پہلی ترجیح آپ لوگ یہ طے کریں کہ فرقہ پرست کے نمائندوں کو شکست دینے کی پوری کوشش کریں اور جو امیدوار اس کو شکست دینے کی صلاحیت رکھتا ہو اس کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کریں۔ خواہ وہ کسی پارٹی کا ہو اگر آزاد امید وار ہی اس کو چت دے رہا ہو تو اس کو بھی ووٹ دے کر کامیاب کریں۔ چاہے مسلمان امید وار ہو یا غیر مسلم۔۔

دوسری ترجیح یہ ہے کہ اگر آپ کے علاقے میں مسلمان اکثریت میں ہیں، اور کوئی مسلم پارٹی کا امیدوار ہے اور وہ جیتنے کی پوزیشن میں ہے، تو متحد ہوکر تمام لوگ ان کو ضرور فتح دلائیں، لیکن اگر وہاں محاذ کا بھی مضبوط امیدوار ہو اور مسلم پارٹی کو ووٹ دینے سے تیسرا آسانی سے نکل جا رہا ہو تو پھر وہاں محاذ کو جیت دلائیں اور مسلم پارٹی کے حق میں ووٹ دے کر اپنے حق کو ضائع نہ کریں۔۔۔ اور بالواسطہ فرقہ پرست پارٹی کو فائدہ نہ پہنچائیں۔۔

جہاں کوئی مسلم امیدوار وار نہ ہو وہاں سیکولر فرنٹ اور متحدہ محاذ کے امیدوار کو کامیاب کریں ۔

جہاں ایک حلقہ سے کئی کئی مسلم امیدوار ہو۔جس کی وجہ سے مخالف کے جیت جانے کا پورا امکان ہو وہاں گفت و شنید کے ذریعے مسئلہ کا حل نکالئے اور کسی ایک پر سب متفق ہو جائیے۔۔

ایک بار پھر گزارش کروں گا کہ آپ سب متحد ہوکر کوئی لائحہ عمل طے کریں اور منتشر ہونے سے بچیں، آپ کے انتشار کا سب سے زیادہ فائدہ آپ کے دشمن کو ہوگا۔۔۔ اس لیے جذبات میں آکر ہرگز کوئی فیصلہ نہ کریں۔۔ سوچ سمجھ کر کام کریں۔ مجلس بھی بھنگ نہ ہو اور محاذ بھی نہ ٹوٹنے پائے۔ کیوں اگر محاذ مضبوط ہوگا اور مجلس بھی اچھی رہے گی تو کام بن جائے گا۔۔۔

Comments are closed.