"حسب موقع غلط کو درست بنانے کا ارادہ قائم رکھنا چاہیے” حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی مدظلہ

"حسب موقع غلط کو درست بنانے کا ارادہ قائم رکھنا چاہیے” حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی مدظلہ

 

محمد صابر حسین ندوی

[email protected]

7987972043

 

بابری مسجد کی پوری داستان ہندوستان میں مسلمانوں کے سینہ کا وہ پھوڑا ہے جو ہمیشہ تازہ رہے گا، اور اس کی تازگی ہی اسے تابندگی اور شادابی، اور انہیں مستقبل کیلئے لائحہ عمل تیار کرنے کا موقع فراہم کرے گی، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ موجودہ حکومت سیکولرازم کی آڑ میں فاشزم کا منصوبہ رکھتی ہے، ہندوتو اور ہندو راشٹر کا خواب رکھتی ہے، اس وقت پورا نظام انہیں کے پاس ہے، مگر اسے بھی قبول کرنا چاہئے کہ ہماری تمام کوششیں ایسی تھیں جسے مچھلی نے خشکی پر تیرنے کی تمنا کی ہو، ببول سے انگور اور کریلے سے میٹھا رس نکالنے کی کاوش کی ہو، یہ مسلم حقیقت ہے کہ دنیا ایک نظام پر چلتی ہے، معجزات پر نہیں، مسلمانوں نے ایمان، ایمان کی رٹ میں قدرت کے نظام سے ہی بغاوت کردی، وہ صحیح معنوں میں وہ تیاری نہ کرسکے جو مطلوب و مقصود تھی؛ بہرحال جو کچھ بھی ہو کچھ نہ ہونے سے اچھا ہے، اندھیرے میں ایک معمولی چراغ بھی تاریکی چھانٹ دیتا ہے، ویسے بھی اس امت کی خاصیت ہے کہ وہ اپنی ناکامیوں سے سبق لیتے ہوئے آئندہ کی راہ ہموار کرتا ہے، امید و بیم میں جینا اور زندگی کی ڈور رب حقیقی کے ہاتھ میں دے کر کوششیں کرنا اس کا مقدر ہے، اس سلسلہ میں ہفت روزہ دعوت نیوز نے مرشدی حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم کا ایک اہم انٹرویو شائع کیا ہے، جس میں بہت سے متجسس سوالات کے جوابات ہیں، آپ کی خاص بات یہ ہے کہ اشارۃ جملوں وہ سب کچھ کہہ جاتے ہیں جو کہنا چاہئیے، بس ضرورت بغور پڑھنے اور سمجھنے کی ہے، یہاں پر صرف دو اہم سوال کے جوابات نقل کئے جاتے ہیں –

س- بابری مسجد قضیہ کے دوران کن کن مراحل میں سیاسی مداخلت ہوئی اور کیا کیا مشکلات پیدا ہوئیں یا ملی دباؤ اور کوئی اور مداخلت ہوئی جس سے عدالت کے اندر یا باہرحل نکالنے میں رکاوٹ پیدا ہوئی؟

ج-دنیا کے ایسے ملکوں میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں ان کے دینی حلقوں کی پامالی کی مثالیں سامنے ہیں اور مسلمانوں پر یہ ذمہ داری ہے کہ ان کے دائرہ عمل واختیار میں جو کچھ ہو وہ تو ان کو کرنا ہے، اس کے بعد جو بھی اللہ کو منظور ہوگا اس کو قبول کرنا ہے اور جن کا قابل عمل حل علمائے دین اور ماہرینِ قانون دیں ان کے مشوروں اور رہنمائی سے کام لینا ہے اور اللہ تعالیٰ سے مدد کی امید رکھنا ہے جو حالات کو بدلتا ہے اور مشکلات کو حل کرتا ہے۔ ہندوستان میں اس وقت سیکولر حکومت ہونے اور عدالتی نظام کے باوجود جو خلاف ورزی ہوئی ہے اس سے مایوس نہیں ہونا چاہیے اور اللہ کی مدد کی امید رکھنی چاہیے اور حسب موقع غلط کو درست بنانے کا ارادہ قائم رکھنا چاہیے کہ بابری مسجد کے علاوہ دیگر جگہوں کی سن 1947 کے وقت جو پوزیشن تھی وہی برقرار رہے گی یہ فیصلہ عدالت نے دیا ہے اور یہ فیصلہ ہمارے لیے اچھی دلیل فراہم کرتا ہے۔ شرعی نقطہ نظر سے ہم اتنی ہی کوشش کے مکلف ہیں جو ہم کرسکتے ہیں لیکن خود ہی مساجد سے دستبردار ہوجانا صحیح نہیں ہے۔ ہمیں حالات کے بہتر ہونے کا انتظار کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اس سے اچھی امید رکھنی چاہیے۔

س-اب جب کہ ایودھیا میں مندر کی تعمیر کا کام شروع ہوا چاہتا ہے اور بھارت کے مسلمانوں نے عدالتی فیصلے کو تسلیم بھی کرلیا ہے تو ہماری اگلی نسلوں کو اس نوعیت کے مسائل سے دوچار نہ ہونا پڑے اس کے لیے آپ اور دیگر علما کی نظر میں کیا لائحہ عمل ہونا چاہیے؟

ج- بابری مسجد کا قفل کھلوانا، مورتیاں رکھوانا، نماز پڑھنے پر پابندی لگانا، درشن کے لیے اجازت دینا، شیلا نیاس کرانا، لاکھوں کی تعداد میں وہاں لوگوں کو اکٹھا ہونے دینا، اس وقت تک کوئی کارروائی نہ کرنا جب تک کہ وہ مسجد شہید نہ ہوگئی ہو، پھر شیڈ ڈال کر عارضی مندر بنادینا، مسجد ماننے کے باوجود رام مندر کے حق میں فیصلہ کرالینا، وزیر اعظم کے ہاتھوں سنگ بنیاد رکھوانا، پھر جرم کا اعتراف بلکہ اس جرم پر فخر کرنے والوں کو عدالت سے بری کیا جانا کیا یہ سب سیاسی مداخلت کا نتیجہ نہیں ہے؟ عدالت کے باہر اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش بہت ہوئی، گفتگو کا سلسلہ بھی کئی بار چلا لیکن اکثریتی فرقہ خاص مسجد کی جگہ لینے پر مصر تھا اور چونکہ وہ سمجھ رہا تھا کہ وہ لے سکتا ہے، اس لیے وہ اسی پر اڑا ہوا تھا، ایسی صورت میں جبکہ رویہ بالکل اڑیل ہو کیسے یہ مسئلہ عدالت کے باہر حل ہوسکتا تھا؟عدالت کے باہر کوئی مسئلہ اس وقت حل ہو سکتا ہے جب دونوں فریق مصالحت کے ارادہ سے بیٹھیں نہ کہ ایک فریق صرف لینے کے لیے بیٹھے؟

 

 

 

Comments are closed.