مشکور احمد عثمانی سے ایک گزارش

 مفتی محمد اللہ قیصر قاسمی 

 مشکور احمد عثمانی جو کچھ آپ کے ساتھ ہو رہا ہے وہ کوئی نیا نہیں، ایسا کھیل ہر اس شخص کے ساتھ کھیلا جاتا ہے جو مسلمانوں کی حمایت میں ایک لفظ بھی بولے، آپ تو فرقہ پرست طاقتوں سے سیدھے ٹکرا ہی گئے، لڑے، بھڑے، اور خوب اڑ کے، جم کے، اور ڈٹ کے مقابلہ کیا، بے خوف و خطر "آتش نمرود” میں کود گئے، پھر جو کچھ ہوا وہ دنیا نے دیکھا کہ زعفرانی صحافت کی بھڑکائی ہوئی آگ کے بھنور سے ایسے نکلے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں، ہمت، حوصلہ، جوش، ولولہ، ، قومی غیرت و حمیت، ملک و قوم سے محبت، کسی کی دل شکنی سے اجتناب، لیکن اپنی تذلیل و تحقیر کرنے والے کا تعاقب سب کچھ دیکھنے کو ملا، سر سید کے چمن پر حملہ ہوا تو آپ کے چہرے کی تمتماہٹ اور پیشانی پر پڑے ہوئے بل، سنجیدگی و متانت سے لبریز زبان حال میں چیخ چیخ کے کہہ رہے تھے۔ 

چمن ہے میرا ،چمن کا میں ہوں، چمن کی ہر شئ عزیز مجھ کو۔
وہ اور ہوں گے جنہوں نے اپنا گلوں سے ،دامن سجالیا ہے،
فضائیں تاریک، راہ مشکل، قدم قدم پر ہے موج طوفاں۔
میرے مولی میری مدد کر کہ میں نے بیڑا اٹھا لیا ہے۔

انہوں نے یہ آگ بھڑکائی تھی علی گڈھ کو بدنام کرنے کیلئے لیکن وہ اس بات پر ششدر رہ گئے کہ اس قوم کے نوجوانوں میں ابھی زندگی کی رمق باقی ہے، وہ توقع کر رہے تھے کہ نوجوانوں کی یہ بھیڑ ایسے چھپ چھپا کے تماشا دیکھنے پر مجبور ہو جائے گی جیسے "ایک بکری کا شکار ہونے پر گلہ کی باقی بکریاں بے بسی کی تصویر بن کر کھڑی ہو جاتی ہیں، اور بھیڑیا چٹخارے لے لے کر بکری کے خون کا ایک ایک قطرہ نچوڑ تاہے، گوشت کی بوٹیاں نوچتاہے، پھراپنے نتھنوں پر لگے خون کو زبان سے صاف کرتے ہوئے ایسے پلٹتا ہے گویا کہہ رہا ہوں”مزا آگیا” ادھر بکریوں کی لاچار آنکھیں اور تھکی تھکی "ممیاہٹ” سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ ایک دوسرے کو تسلی دیتے ہوئے کہہ رہی ہوں کہ
"مرحومہ نے احتیاط نہیں کیا، انہیں بھاگنے میں ذرا تیزی دکھانی چاہیے، لیکن کیا کریں اس بیچاری کی قسمت میں یہی تھا ” جی ہاں! یقین جانئے علی گڑھ کے فرزندوں سے انہیں یہی توقع تھی، لیکن آپ نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا، اڑ گئے، ڈٹ گئے، بھڑ گئے، اور یہ کہتے ہوئے ظلم کے خلاف بغاوت کا اعلان کیا کہ۔
ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف
گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی
ظالم کو جو نہ روکے وہ شامل ہے ظلم میں
قاتل کو جو نہ ٹوکے وہ قاتل کے ساتھ ہے
ہم سر بکف اٹھے ہیں کہ حق فتح یاب ہو
کہہ دو اسے جو لشکر باطل کے ساتھ ہے
آپ نے "ظلم پر خاموشی” جیسی منافقت سے انکار کردیا،
دنیا میں قتیل اس سے منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا۔
اور آپ کی قوم نے بھی آپ کا فولادی حوصلہ دیکھا جو زبان حال سے کہہ رہا تھا
میں جھکا نہیں، میں بکا نہیں، کہیں چھپ چھپا کے کھڑا نہیں
جو ڈٹے ہوئے ہیں محاذ پر، مجھے ان صفوں میں تلاش کر۔
آپ نے محاذ پر ڈٹ کر نہ جانے کتنے ڈرے سہمے شاہینوں کو ان کے اندر موجود "قوت پرواز” کا احساس دلایا،انہیں یاد دلایا کہ، تم جس دین کو مانتے ہو "ظلم کی مخالفت”اس کی روح میں شامل ہے، اس کے نظام کا سارا تابانا، ظلم خواہ وہ کسی بھی نوعیت کا ہو اس کی روک تھام سے شروع ہوتا ہے اور اسی کی مخالفت پر ختم ہوتا ہے۔
اننکے اندر یہ فکر پیدا کی کہ
ظلم کے طوفان سے ٹکرانے والے ہی دنیا بدلتے ہیں،
پھر حوصلہ پاکر انہوں نے اپنے ہر پھیلانے شروع کئے، جو فرقہ پرستوں کے سالہا سال کی محنت ہر پانی پھیرنے جیسا تھا، وہ حیرت زدہ تھے کہ خوف و دہشت میں سہمی قوم کے بچوں میں قوت گویائی کہاں سے آئی.
اسی فکر نے ان کی نیند حرام کردی، ٹیوی چینلز کے ناگ اپنا پھن پھیلانے لگے، ماضی میں ظلم و تعدی کے خلاف اٹھنے والوں کو دبانے کے جس طریقہ کا انہوں نے تجربہ کیا تھا وہی اپنا نے لگے "بدنام کرو” کی پالیسی پھر سے اپنائی گئی۔ آپ کو بھی "جناح پریم” کا طعنہ دیا گیا، چیخ چیخ کر کہا گیا کہ یہ شخص ہندستان سے مخالفت کی ذہنیت رکھنے والوں کا سرغنہ ہے، اور اب بھی کہا جارہا ہے، ایسا کیوں؟ اس کے پیچھے کون اور کیوں ہیں؟
تو صاف صاف سنئے، مسلمانوں کی حمایت میں بولنے والے خواہ مسلمان ہوں یا ہندو ان کو "سر” کرنے کیلئے فرقہ پرستوں کی اسٹریٹجی ہے کہ اسے خوب بدنام کیا جائے، اس کی عوامی شبیہ بگاڑی جائے، الزام تراشی کے تیر نشتر سے اسے چھلنی کیا جائے، طعنہ و تشنیع کے تیر اس تسلسل سے برسائے جائیں، کہ وہ تاب نہ لاکر بلبلا اٹھے، اور اپنی بگڑتی شبیہ کو سنوارنے کی فکر میں غرق ہوجائے، ، دوسری طرف چونکہ عوامی شخصیت کیلئے سب کچھ عوام ہوتے ہیں، لہذا نشانہ پر آنے والا شخص ان کی نظر میں خود کو صاف ستھرا ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش میں لگ جاتا ہے، اور اس کوشش میں انسان بسا اوقات اپنی سرحد بھول جاتا ہے، مذہبی سماجی،اخلاقی اصول سب پیچھے چھوٹ جاتے ہیں، اسے یاد اگر کچھ رہتا ہے، تو وہ ہے اس کی اپنی ذات، اپنا مفاد، اپنی مصلحت، اور سماج میں اپنی بگڑتی تصویر، اسے صاف کرنے کی فکر سایہ بن کر چھا جاتی ہے، اس طرح دھیرے دھیرے وہ دشمنوں کے چنگل میں پھنستا چلاجاتا ہے پھر غیر شعوری طور پر وہی کام کرتا ہے جو دشمن چاہتا ہے،

اس کردار کشی کے پیچھے اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ
، مسلمانوں کا حمایتی اگر ہندو یے، تو وہ غیر شعوری طور پر حمایت سے کترانے لگے، آئندہ مسلمانوں کے مسائل پر گفتگو سے بچنے پر مجبور ہوجائے، پھر وہ جنیو پہن کر، مذہبی رجحان نمایاں کرنے والی تصاویر کھچواکر لوگوں کو احساس دلانے کی کوشش کرتا ہے کہ ہم بھی "ہندو ہیں” جیسا کہ ہم نے کئی کانگریسی لیڈروں کو دیکھا ہے، اپنے مذہبی رجحان کا احساس دلانا یقینا غلط نہیں لیکن ظلم پر خاموشی کا جرم بھی کرنے لگتے ہیں اور ظلم پر خاموشی ظلم سے بڑا جرم ہے، کیوں کہ ظالم کو مزید طغیانی و سرکشی کا حوصلہ ملتا ہے اور اس کا دائرہ وسیع تر ہوجاتا ہے، اور اگر مسلمان اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز بلند کرتا ہے تو پھر مانو ان کی بانچھیں کھل جاتی ہیں، پوری لیڈر شپ اور صحافت آگ اگلتی نظر آتی ہے، ان کے کچھ مخصوص تذلیل آمیز القاب ہیں جو چسپاں کرکے کردار کشی، الزام تراشی، طعن و تشنیع کا بازار گرم کیا جاتا یے، اور یہ طوفان اس قدر جارحیت زدہ ہوتا ہے کہ نشانہ پر آنے والے شخص کا وجود لرز جائے، "باہو بلی” "دبنگ” دہشت گرد” "پاکستانی” "جناح پریمی” "الگاؤ وادی” حتی کہ ملک سے بغاوت تک کا الزام اس کے سر تھوپ کر اس کی شخصیت کو مشتبہ کرنے کی کوشش ہوتی ہے، اور یہاں بھی مقصد صاف ہوتا ہے کہ ” اکثریتی فرقہ کی زیادتیوں”کے خلاف کھڑے ہونے سے باز آجاؤ، کمزور دل والے اپنی تصویر پر شبہات کی گرد ہٹانے کیلئے بہت جلد ایک قدم پیچھے ہٹ کر اپنی زبان مقفل کر لیتے ہیں، اور ملک کی اکثریت کی نظر میں اپنی تصویر صاف کرنے کی غرض سے ہر وہ کام شروع کردیتے ہیں جو انہیں خوش کرسکے، الزامات کی گرد صاف کرنے کی دھن میں یہ بسا اوقات یہ فراموش کردیتے ہیں کہ وہ ایک مسلمان بھی ہیں،
ایسی باتیں کرنے لگتے ہیں جو دوسروں کی فکر سے ہم آہنگ ہو، اگر چہ دین اس کی اجازت نہ دے، گویا ان کی نظر میں دین کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی، بلاترد پیشانی پر ٹیکا لگاتے ہیں، ہولی اور دیوالی منانا "ہم آہنگی "کی علامت سمجھا جاتا یے، وندے ماترم، اور جے شری رام جیسے شرکیہ جملے "ملکی اقدار وروایات کا حصہ سمجھے جاتے ہیں، ، ایک طرف دین کا تقاضا ہو اور دوسری طرف اپنی امیج ہر کسی کے نزدیک”قابل قبول” بنانے کیلئے، شرک کا دلدل تو وہ شرک کے دلدل میں آلودہ ہونا ہی پسند کرتے ہیں، اور غضب ہے کہ انہیں احساس تک نہیں ہوتا، تنبیہ کرنے پر پیشانی شکن آلود ہوجاتی ہے۔
، دراصل امتحان کا یہی وقت ہوتا ہے، یہیں انسان کی اولول العزمی اور حوصلے مندی ثابت ہوتی ہے، مشکل ترین حالات میں اپنے دینی و فکری اصول و مبادی کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہنا، ان سے انحراف کو اپنی موت تصور کرنا، یہ سب انسان کی ثابت قدمی ، مستقل مزاجی، صبر و تحمل اور مضبوط قوت ارادی کو ثابت کرتے ہیں، کمزور ارادے والا اپنی حدود میں رہتے ہوئے حالات نہ سدھرنے کی صورت میں انہیں لانگ کر وہ کام کرتے لگتا ہے جو انسان کے اخلاقی، سماجی اور دینی اصول کے بالکل منافی ہو،

اب تک جو کچھ آپ نے کیا وہ "ابتداء عشق”تھا اب "آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا” آپ کے ساتھ یہ سب شروع ہو چکا ہے، الزامات کی بارش ہورہی ہے، طعنوں کے تیر برسائے جا رہے ہیں، ملک سے آپ کی محبت کا انکار ہورہا ہے، ملک کی خدمت کے جذبہ کو نکارنے کی کوشش ہورہی ہے، عوام کی نظر میں آپ کو ملک مخالف ذہنیت رکھنے والا ثابت کرنے کی کوشش ہورہی ہے، جبکہ سبھی جانتے ہیں کہ یہ تمام باتیں جھوٹ کا پلندہ ہے، اور یقین جانئے یہ سب اسی پرانی اسٹریٹجی کا حصہ ہے” نئے تیر لایا پرانا شکاری” اس وقت آپ کو مزید حوصلہ مندی اور اولولعزمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ثابت کرنا ہوگا کہ آپ کا دل ایک طرف ملک کی محبت سے سرشار ہے تو دوسری طرف دینی جذبہ آپ کی رگوں میں خون بن کر دوڑتا ہے، دین کے اصولوں سے کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا چاہے اس کی جو قیمت چکانی پڑے،
اگر آپ ثابت قدم رہے تو ان شاءاللہ وہ دن دور نہیں جب آپ پر ملت کا اعتماد نہ صرف بڑھے گا بلکہ دوسروں کی نظر میں بھی آپ محبوب بن کر ابھریں گے اور آپ کی شکل میں قوم کو ایک حوصلہ مند اور بے باک لیڈر ملے گا۔ ان شاءاللہ
ملیں گے تمہیں راہ میں بت کدے بھی
ذرا اپنے اللہ کو یاد رکھنا
جہاں بھی نشے میں قدم لڑکھڑائیں
وہیں ایک مسجد کی بنیاد رکھنا
ستاروں پہ چلتے ہوئے ابن آدم
نظر میں فرشتوں کی افتاد رکھنا

Comments are closed.