فرانس کے خلاف ترکی کا دو ٹوک رویہ!! محمد صابر حسین ندوی

فرانس کے خلاف ترکی کا دو ٹوک رویہ!!

محمد صابر حسین ندوی
[email protected]
7987972043

فرانس کے صدر ماکروں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والی حمایت کی، وہاں کی پارلیمنٹ نے دنیا کی بڑی آبادی اور اس کے آقا کے خلاف گستاخانہ رویہ اختیار کیا؛ لیکن دنیا نے خموشی کی پٹی منہ پر باندھے رکھی، سبھی کے ہونٹ سل گئے، کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ آزادی رائے کی آڑ میں کسی مقدس شخصیت اور مذہبی و جذباتی تعلق کو ٹھیس نہیں پہنچایا جاسکتا، صدر فرانس عمانویل ماکروں نے مسلسل بیانات بھی دئے؛ اسلام کو دہشت گردی کا مجمع قرار دیا، مسلمانوں کو بدامنی کا باعث بتلایا اور پورے فرانس بلکہ دنیا میں ان پر شکنجہ کسنے کی بات کہی، جس سے لگتا تھا کہ وہ فرانس سے اسلام میں رہی سہی آبادی اور اسلامی اقدار کو مسخ کردینا چاہتے ہیں؛ بلکہ دنیا کے سامنے اسلامو فوبيا کا ایک ایسا چہرا لانا چاہتے ہیں جس سے پوری دنیا اسلام بالخصوص پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے نفرت کرے، انہیں شک کی نگاہ سے دیکھے اور ان کے خلاف ریزولیوشن پاس کرے، مگر سلام ہو اس ترکی کے مرد مجاہد اور نیک نیت و نیک طبیعت شخص جناب طیب أردوغان مدظلہ پر جو خلافت عثمانیہ کی یاد اور اسلامی غیرت و حمیت کی مثال ہیں، انہوں نے فرانس کو تنبیہ کیا اور یہاں تک کہہ دیا؛ کہ وہ اپنا دماغی علاج کروائیں، یہی بات فرانس کو چبھ گئی، اس نے اسے اپنے صدر کی بے عزتی اور توہین گردانی، اور اس کے پس پشت پورے یورپ نے اسلامی عزت تار تار کرنا شروع کردی، آزادی رائے سے متضاد جانا، اظہار خیال کا غلط استعمال سمجھا؛ اور ایک مہم چھیڑ دی کہ ترکی اور پورے اسلامی تعلیمات کو نیزے پر رکھ دیا جائے، چنانچہ اس کے خلاف ایک محاذ تیار ہوگیا ہے، آج یورپ اور مغربی ممالک کی پالیسیاں صاف ظاہر ہوگئیں ہیں، ان کے چہرے سے نقاب اتر ریا ہے کہ کس طرح وہ جمہوریت اور آزادی کو اپنی ایک خاص لونڈی سمجھتے ہیں؛ اسے ایک ہتھیار بنا کر استعمال کرتے ہیں اور اپنا مفاد حاصل کرنے کیلئے دنیا کو اکساتے ہیں۔
ان سب کے دوران خوشی کی بات یہ ہے کہ بعض مسلم ممالک نے بیداری کا ثبوت دیا ہے، چنانچہ ترکی نے جب فرانسیسی مصنوعات و ایجادات کا مقاطعہ کرنے سفارش کی اور دنیائے اسلام کو متوجہ کیا تو قطر، اردن جیسے اسلامی ملکوں نے فرانسیسی سامان کا بائیکاٹ کردیا ہے، شاپنگ مالس اور دیگر دکانوں سے وہاں کے مصنوعات ہٹا دئے گئے ہیں، یا اس جگہ پر اعلان لگا دیا گیا ہے، جس میں محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ موجود ہے، ایمانی غیرت و حمیت اور جوش کا بھرپور خیال رکھا گیا ہے، اس کے علاوہ عرب ممالک کے باشندے ٹویٹر اور دیگر ذرائع ابلاغ پر بھی متحرک نظر آتے ہیں، لوگوں نے راستوں پر بینر بھی لگائے ہیں، جس ناموس رسالت کی دہائی دی گئی، اس کیلئے سر کٹانے کا جذبہ ظاہر کیا گیا ہے، نعت رسول سے لبریز اور دلی احساسات سے بھرپور اشعار بھی مذکور ہیں، مگر افسوس اب بھی بہت سے ممالک نے کھل کر اپنا منصوبہ ظاہر نہیں کیا ہے، بالخصوص سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک نے جو ترکی مصنوعات پر پابندی لگاتے ہیں؛ لیکن اس کی ہمت نہیں ہے کہ ناموس رسالت کے نام پر بھی مغرب کے سامنے کھڑا ہوا جائے، وہ جانتے ہیں کہ ان کی گردن وہیں پھنسی ہویی ہے، ان کی ایک ایک سانس ان کے بل بوتے ہے، چنانچہ اگر انہوں نے حرکت کی تو سانس ٹوٹ جائے گی، گردن مروڑر دی جائے گی، یہی وجہ ہے کہ اب تک اس پیمانہ پر مقاطعہ کی تحریک نہ ہوئی ہے؛ البتہ اتنا ضرور ہے کہ ہر کوئی اپنے اپنے دائرہ میں فرانس کی مخالفت اور مغربی پالیسیوں کی قلعی کھولنے میں لگا ہے، جس سے آج فرانس بھی مجبور ہوا جاتا ہے، کاش مسلمان متحدہ طور پر ایک سر ہو کر ان کا بائیکاٹ کریں، عالمی قوانین جو خود اس کے احساسات کو تحفظ فراہم کرتے ہیں ان کا استعمال کریں اور دنیا کے سامنے ایک تصویر پیش کریں؛ کہ آزادی رائے کی آڑ میں رسالت مآب پر انگشت نمائی برداشت نہ کی جائے گی، مسلمان خواہ وہ بھوکا اور پیاسا رہے اور زندگی کی بنیادی ضروریات کو بھی ترسے؛ تب بھی سرور کونین کی شان میں کوئی گستاخی قبول نہ کی جائے گی۔

Comments are closed.