النخیل کے مطالعہ نمبر کے لیے لکھا گیا مضمون بعض احباب کی طلب پر شیر کیا جارہا ہے۔ میرے مطالعے کا مختصر سفر یاسر ندیم الواجدی

النخیل کے مطالعہ نمبر کے لیے لکھا گیا مضمون بعض احباب کی طلب پر شیر کیا جارہا ہے۔
میرے مطالعے کا مختصر سفر
یاسر ندیم الواجدی
ماہنامہ النخیل کے مدیر اور مشہور عالم دین جناب مولانا ابن الحسن عباسی کی طرف سے مجھے یہ پیغام ملا کہ میں ان کے رسالے کے مطالعہ نمبر کے لیے کچھ سطور تحریر کروں۔ متعدد بار یہ سوچ کر قلم اٹھایا کہ اپنے عام سی سطح کے مطالعاتی سفر کی مختصر روداد لکھنا شروع کروں، مگر ماضی وحال کے دریچوں میں کچھ خاص ہوتا تو سامنے آتا۔ آخرکار یہ نیت کر کے لکھنے کا آغاز کر دیا کہ مشاہیر کے نقوش میں ایک عامی کی تحریر کا پیوند لگ جانا اس پیوند کے لیے خوش قسمتی کی بات ہے۔
میرا بچپن عام بچوں کی طرح کھیلتے کودتے ہی گزرا ہے۔ میں اس معنی میں خوش نصیب ہوں کہ سوشل میڈیا کے انقلاب سے پہلے ہی بچپن کی دہلیز سے نکل چکا تھا۔ اس لیے جن اوقات میں باہر جا کر کھیلنا ممکن نہ تھا، اردو کی کہانیوں کی کتابیں پڑھ کر اور ہندی کی کہانیوں کی کتابیں سن کر وقت گزاری کرتا تھا۔ میرے ہم عمر لڑکوں میں ہندی کی کامکس پڑھنے کا رجحان بڑی تیزی سے سے بڑھ رہا تھا۔ قریبی دکان سے ایک روپیہ کرائے پر کہانیوں کی کتابیں مل جایا کرتی تھیں، میں کبھی کبھار دوسروں کی دیکھا دیکھی ان کتابوں کو گھر پر لاتا، تو ہندی نہ جاننے کی وجہ سے تصویروں کو تکتا رہتا۔ میری والدہ جو مجھے اس مخمصے میں دیکھتیں، تو چاچا چودھری کی کہانیاں پڑھ کر سنا دیتیں۔ والدہ کی اس عنایت کا اثر یہ ہوا کہ ہندی کبھی نہ پڑھ پایا۔ والد صاحب نے میری اس مشکل کا یہ حل نکالا کہ وہ اردو میں نکلنے والے بچوں کے رسائل جیسے ماہنامہ ہلال اور ماہنامہ نور وغیرہ میرے لیے لے آتے تھے۔ کہانیوں کے شوق کی وجہ سے یہ رسائل دو تین گھنٹے میں مکمل ہوجاتے اور میں پھر خالی ہاتھ کھڑا ہو جاتا۔
میں نے قرآن کریم کا بڑا حصہ گھر پر ہی حفظ کیا ہے اور حفظ کے اس سفر میں میری والدہ محترمہ کا بڑا کردار رہا ہے، سبق کا پارہ اور آموختہ میں اکثر وبیشتر انھی کو سنایا کرتا تھا اور وہ مجھے گھنٹوں لے کر بیٹھی رہتی تھیں کہ میں توجہ کے ساتھ یاد کرتا رہوں۔ حفظ کے اس سفر کے دوران روزانہ صبح اٹھ کر والد صاحب کو سبق سنانے سے پہلے، جس وقت میں رات کو یاد کیا ہوا سبق دہراتا، اس دوران والد صاحب مشہور زمانہ اخبار روزنامہ قومی آواز پڑھتے۔ میرے سبق سنانے کے بعد وہ اپنے تجارتی کتب خانے دارالکتاب چلے جاتے۔ ان کے ترغیب دلانے کی وجہ سے مجھے اخبار پڑھنے کا شوق ہو چلا تھا، اس لیے قومی آواز اخبار میرے ہاتھ آ جاتا اور میں اس کی سرخیاں سمجھنے کی کوشش کرتا۔ میری عمر آٹھ سال تھی جب بھارت میں منڈل کمیشن کا چرچا زوروں پر تھا۔ اخبار کا پہلا صفحہ اسی کمیشن کی خبروں سے بھرا رہتا اور میں اپنے ذہن میں موجود منڈل اور کمیشن جیسے الفاظ کی مثالی تصویر کے مطابق ان خبروں کی تشریح کرلیتا، آج جب اس معصومانہ تشریح کے بارے میں سوچتا ہوں، تو سنجیدگی کچھ دیر کے لیے رخصت ہوجاتی ہے۔ بچپن سے اخبار بینی کی عادت ایسی پڑی کہ یہ آج تک باقی ہے اور اس نے ملکی اور عالمی حالات سے باخبر رہنے میں مجھے بڑا فائدہ پہنچایا ہے۔
انھی دنوں کی بات ہے کہ والد صاحب کے ساتھ دہلی کا سفر ہوا، وہ مجھے پرانی دہلی میں جامع مسجد کے سامنے واقع مرکزی مکتبہ اسلامی میں لے کر گئے اور مجھ سے کہا کہ میں جتنی چاہوں اتنی قصوں اور کہانیوں کی اردو کتابیں اپنے لیے منتخب کر سکتا ہوں۔ یہ میرے لیے زندگی کا پہلا موقع تھا کہ میں نے کسی کتب خانے پر جا کر کتابوں کی خریداری کی ہو، بلکہ گھریلو تجارتی کتب خانہ ہونے کی وجہ سے الحمد للہ کتابیں خریدنے کے مواقع ابھی تک دوسروں کی بنسبت کم ہی پیش آئے ہیں۔ اُس موقع پر میں نے کم و بیش سو کتابیں اپنے لیے پسند کی تھیں، جن میں شیکسپیر کے ناولوں کے چند تراجم بھی شامل تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ان کتابوں کے پڑھنے کے شوق نے دہلی سے دیوبند واپسی کا سفر بڑا مشکل کر دیا تھا۔ شیکسپیر کے ناول چھوڑ کر بقیہ کتابیں قلیل عرصے میں پڑھ لیں۔ ان ناولوں کے اردو تراجم بارہا شروع کیے، لیکن اپنی نوعمری اور ان کہانیوں میں ترجمہ پن ہونے کی وجہ سے، میں ان کو کبھی ختم نہیں کر پایا۔
انھی دنوں والد صاحب نے رسالہ تعلیم الاسلام پڑھنا تجویز کیا اور میں رسالے کا پہلا حصہ کتب خانے سے گھر لے آیا۔ غالبا کسی دینی موضوع پر یہ میری پہلی کتاب تھی۔ چند گھنٹوں میں اس رسالہ کی ورق گردانی کرکے، دوسرا حصہ لینے کے لیے کتب خانے پر پھر جا پہنچا۔ اب یہ یاد نہیں رہا کہ تعلیم الاسلام کے کتنے حصے مکمل کر لیے تھے، لیکن اگلے حصوں کے لیے کتب خانے بار بار چکر لگانا ضروریاد ہے۔
میری عمر دس گیارہ سال رہی ہوگی، جب والد صاحب سیرت کی مشہور زمانہ کتاب الرحیق المختوم کا اردو ترجمہ گھر لے کر آئے۔ دوپہر کے وقت کھانے سے فارغ ہو کر والد صاحب اخبار کا تفصیلی مطالعہ کرتے اور اس کے بعد کچھ دیر آرام۔ گرمیوں کے ایام میں یہ وقفہ کم و بیش ڈھائی گھنٹوں پر مشتمل ہوتا، میں بھی اسی کمرے میں ایک طرف الرحیق المختوم لیٹے لیٹے پڑھتا۔ کتاب کے مصنف نے جس دلنشین انداز میں سیرت طیبہ بیان کی ہے، اس کی چاشنی آج تک ذہن میں ہے، اکثروبیشتر میرا قیلولہ اسی چاشنی کی نظر ہوتا۔ اس کتاب نے بچوں کی کہانیاں بھلا کر، ایک نئے زاویے سے مطالعہ کا شوق میرے دل میں پیدا کر دیا تھا۔ الرحیق المختوم کے مطالعے کے بعد انہی دنوں جہاد افغانستان سے متعلق ایک مشہور ناول "پہاڑوں کا بیٹا” ہاتھ لگا۔ ناول کے مرکزی کردار علی اور اس کی بہادری نے مجھے یہ ناول کم و بیش تین مرتبہ پڑھنے پر مجبور کردیا، تیسری مرتبہ یہ کتاب بھارت سے امریکہ کے سفر کے دوران جہاز میں مکمل کی۔
"پہاڑوں کا بیٹا” نامی ناول کے بعد میرے ذہن کو اس موضوع پر لکھے گئے ناولوں کو پڑھنے کا ذائقہ لگ چکا تھا۔ "خاک اور خون” ایک دوست کو ایک ہی نشست میں سناکر پوری کی، "جب امرتسر جل رہا تھا” تراویح کے بعد شروع کرکے سحری تک ختم کردی۔ عمر کا یہ وہ دور تھا جب کشت وخون میں لپٹی تحریریں ہی ذوق مطالعہ کی تسکین کا سامان فراہم کرتیں۔ ان میں کچھ کتابیں ایسی بھی تھیں جو قانونی مجبوریوں کی وجہ سے عام کتب خانوں میں دستیاب نہیں تھیں، بڑی تگ ودو اور محنت کے بعد وہ کتابیں کچھ وقت کے لیے ہی ملتی تھیں، اجارے پر لی ہوئی ان کتابوں کا دورانیہ بمشکل دو یا تین دن ہوتا تھا، لیکن ہمیشہ دورانیہ پورا ہونے سے پہلے ہی کتاب پوری ہوجایا کرتی تھی۔
اس موضوع پر مزید کتابوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے، میں نے اکابر دیوبند کی سوانح اور تذکروں کو پڑھنا شروع کیا۔ دارالعلوم دیوبندکی شیخ الہند اکیڈمی نے مولانا اسیر ادروی کے لکھے ہوئے سوانحی خاکوں کی اشاعت کا سلسلہ شروع کیا ہوا تھا۔ حضرت نانوتوی اور حضرت شیخ الہند کے تفصیلی خاکوں نے دل و دماغ پر بڑا گہرا اثر چھوڑا۔ میری عمر کوئی تیرہ یا چودہ سال رہی ہوگی، جب میں نے مولانا عبیداللہ سندھی کا تذکرہ قدرے تفصیل سے پڑھا۔ پھر اتفاق یہ ہوا کہ دیوبند کے ایک مشہور تجارتی مکتبے کے مالک (جو رشتے میں میرے پھوپھا بھی ہوتے ہیں) کے یہاں ہماری دعوت ہوئی۔ جس کمرے میں ہمیں بٹھایا گیا، وہیں پاکستان سے آئی ہوئی کچھ کتابیں بھی رکھی ہوئی تھیں۔ میری نظر "مولانا عبیداللہ سندھی کی ذاتی ڈائری” پر پڑی اور میں نے آداب مہمانی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس کتاب کو پڑھنا شروع کردیا۔ کتاب کا ہر صفحہ مولانا عبیداللہ سندھی کی عظمت کی گواہی دے رہا تھا۔ مجھے ایک طرف اس عظیم کتاب کو پڑھنے کی خوشی ہو رہی تھی، تو دوسری طرف بار بار یہ خوف کھایا جا رہا تھا کہ اس مختصر مدت میں، یہ کتاب میں ختم نہیں کر پاؤں گا۔ وہی ہوا جس کا خطرہ تھا، کتاب کو بیچ میں چھوڑنا پڑا۔ اگلے دن والد صاحب سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ کسی طرح میزبان کے یہاں سے کتاب کا ایک نسخہ حاصل کرلیں۔ لیکن حیرت انگیز طور پر والد صاحب نے مجھے اس کتاب کے پڑھنے سے منع کردیا، شاید وہ میرے لیے اس کتاب کو میری کم عمری کی وجہ سے مضر سمجھ رہے تھے۔ لیکن ان کو یہ معلوم نہ تھا کہ میں اس کم عمری کے باوجود وہ کتابیں بھی پڑھ چکا تھا، جن کا نام سنتے ہی والد صاحب کو غصہ آ جاتا تھا۔ جب کبھی کوئی طالب علم اس طرح کی کسی کتاب کو تلاش کرتے ہوئے ان کے تجارتی مکتبے پر پہنچتا، تو وہ قدرے سختی کے ساتھ اس کو سمجھاتے کہ وہ ایسی کتابیں نہ پڑھے۔
مطالعے کے اس مختصر سفر میں، جن دو شخصیات نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ حجت الاسلام امام قاسم نانوتوی اور مولانا عبیداللہ سندھی ہیں۔ حضرت نانوتوی کی علم کلام پر گرفت اور مولانا عبیداللہ سندھی کی آفاقیت ووسعت ہمیشہ میرے لیے نمونہ رہے۔ حضرت نانوتوی کی کتابوں میں انتصارالاسلام کو سب سے پہلے پڑھنے کا موقع ملا۔ یہ الگ بات ہے کہ طالب علمی کے زمانے میں حضرت کی "تقریر دلپذیر” نامی کتاب دارالعلوم دیوبند کے انعامی جلسے میں، ہمیں انعام میں ملی تھی۔ کتاب پر حضرت کا نام دیکھ کر یاد آیا تھا کہ وہ ایک مصنف بھی تھے۔ حضرت کی سوانح ضرور پڑھی تھی، لیکن ان کی تصانیف کا تذکرہ ہمیشہ خشک موضوع ہونے کی وجہ سے چھوڑ دیا کرتا تھا۔ اسی لیے کتاب کا عنوان دیکھ کر یہ سمجھا کہ کتاب حضرت نانوتوی کی تقریروں کا مجموعہ ہوگی۔ درجہ رابعہ یا خامسہ کے اس طالب علم نے جب دو تین ورق پڑھے اور اسے یہ سمجھ میں آیا کہ وہ کچھ نہیں سمجھا، تو اس نے تبرک سمجھ کر اس کتاب کو اپنی الماری میں دفن کردیا اور یہ تصور کرلیا کہ حضرت نانوتوی کو اس کے لیے سمجھنا ناممکن ہے۔
درجہ ہفتم میں، علامہ تفتازانی کی کتاب شرح عقائد نے مجھے اپنا گرویدہ بنالیا تھا، جب تدریس کا دور آیا اور یہ کتاب مجھ سے متعلق ہوئی، تو مباحث کو سمجھنا میرے لیے آسان تھا، لیکن میں امریکہ میں ایک ایسے مدرسے میں مدرس ہوا تھا جہاں ذریعہ تعلیم انگریزی زبان رہی ہے۔ میں انگریزی زبان سے ایک حد تک واقفیت رکھتا تھا، لیکن تفتازانی کی اس کتاب کے مشکل اور فلسفیانہ مباحث کو انگریزی میں پڑھانا میرے لیے آسان نہ تھا۔ جیسے تیسے اس مشکل پر قابو پایا اور وقت مقررہ سے کچھ پہلے کتاب ختم کر دی۔ انھی دنوں مجھے انتصارالاسلام ہاتھ لگی۔ حضرت نانوتوی کی اس مختصر کتاب کو پڑھ کر علم کلام سے محبت میں شدت پیدا ہوگئی۔ اس کتاب کو میں نے شرح عقائد کے طلباء کو بھی پڑھایا۔ طلبہ کے شوق و ذوق کو دیکھ کر میں نے حضرت کی مزید کتابیں مطالعہ کرنا شروع کیں۔ حجت الاسلام، قبلہ نما، تقریر دلپذیر اور مباحثہ شاہجہاں پور وغیرہ کتابوں کو الحمدللہ بارہا پڑھا اور ان کے کچھ مباحث کو پڑھایا بھی۔
درس نظامی کی میری محبوب کتاب شرح عقائد کی تدریس کا میرا منہج یہ رہا ہے کہ کتاب کے ہر مبحث کے مطابق جدید فلسفے کے مباحث کا خود بھی مطالعہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں اور طلبہ کو بھی کرواتا ہوں۔ اس لیے کہ شرح عقائد کی ابتدا میں ایپسٹمالوجی یعنی علمیات کا بیان ہے، پھر فزکس ہے، پھر آنٹالوجی ہے اور پھر میٹا فزکس ہے، نیز فزکس کے مباحث میں کچھ جگہوں پر جیومیٹری سے استدلال بھی ہے۔ ہم لوگ چوں کہ اس وقت متاثر ہوتے ہیں جب انگریزی اصطلاحات کا استعمال ہو، اس لیے میں نے مندرجہ بالا الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ اس کتاب کو جدید مغربی فلسفے کے ساتھ پڑھنے پڑھانے کی ضرورت ہے۔ الحمد للہ یورپ ایپسٹمالوجی یعنی اسباب علم کی بحث میں آج بھی علامہ تفتازانی کے سامنے بونا ہے۔ اس میدان میں جو سوالات ڈیکارٹ، کانٹ اور جان لاک نے اٹھائے ہیں، ان کا جواب صدیوں پہلے تفتازانی چٹکیوں میں دے کر آگے بڑھ گئے ہیں۔
اسی لیے مصنفین میں اگر حضرت نانوتوی اور مولانا عبیداللہ سندھی میری پسندیدہ شخصیات ہیں، تو درسی کتابوں میں شرح عقائد میری پسندیدہ کتاب۔ تقریر و خطابت کے موضوع پر "خطبات حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب” کا میرے ناقص علم کے مطابق کوئی ثانی نہیں ہے۔ یقینا اس میدان میں دیگر کبار علماء کی مختصر اور تفصیلی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں، لیکن جو بات حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب کے خطبات میں ہے، وہ اس ناچیز کو کسی دوسرے مجموعہ خطبات میں نہیں ملی۔
شعر وشاعری کا مجھے کبھی کوئی شوق نہیں رہا۔ لیکن جوش ملیح آبادی کی کتاب یادوں کی برات کو متعدد بار پڑھا۔ اردو زبان میں تذکرہ نگاری کا جو انداز جوش نے اپنایا ہے، وہ شاید ہی کسی کا ہو۔ بارہا اس کتاب میں استعمال ہونے والی تعبیرات کو یاد بھی کیا اور اپنی تحریروں میں استعمال بھی کیا۔ اس میدان میں حضرت مولانا انظر شاہ کشمیری کی کتاب "نقش دوام” (جو دراصل ان کے والد امام العصر علامہ انور شاہ کشمیری کا تذکرہ ہے) کے حواشی میں لکھے ہوے سوانحی خاکے بھی بڑے دلچسپ اور قابل تقلید ہیں۔
انگریزی کتابوں اور تفصیلی مقالات پڑھنے کا میرا طریقہ یہ رہا ہے کہ میں ہر پیراگراف کے برابر میں اردو میں اس پیراگراف کا خلاصہ لکھ لیا کرتا ہوں اور اہم الفاظ یا جملوں کو ہائی لائٹ بھی کردیتا ہوں۔ کیوں کہ انگریزی زبان میں جب بھی مطالعہ کیا، کسی علمی ضرورت کے لیے ہی کیا اور انگریزی کی ادبی کتابیں یا سوانحی خاکوں سے دور رہا۔ علمی نکات کو اگر کہیں لکھا نہ جائے تو وہ ذہن سے نکل جاتے ہیں، اس لیے پیراگراف کا خلاصہ لکھنے کی عادت پڑ گئی۔ اس بنا پر مطالعہ اگرچہ سست روی کا شکار ہوتا ہے، لیکن مضمون حسب منشاء قید ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہ طریقہ میں نے حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کی کتابوں کے ساتھ بھی اپنایا۔ حضرت کی کتابوں پر اپنی سہولت اور فہم کے اعتبار سے جگہ جگہ حواشی لکھ دیے، تاکہ بوقت ضرورت ان حواشی کا مطالعہ کرنے سے پورا مضمون ذہن میں آجائے۔
مختلف مسالک کے خلاف لکھی جانے والی مناظراتی رنگ کی کتابوں سے مجھے کبھی دلچسپی نہیں رہی ہے، دارالعلوم دیوبند کی انجمن تقویۃ الاسلام شعبہ مناظرہ کے ایک فعال رکن ہونے کی حیثیت سے اس موضوع پر بہت سی کتابیں پڑھنے کا موقع ملا۔ تمرین کے مقصد سے، کئی بار مناظرے بھی کیے، لیکن مسلکی تبلیغ کی طرف کبھی ذہن نہیں چل پایا۔ البتہ کچھ ملحدین اور آریہ سماجیوں سے جب مناظرے کی نوبت آئی تو اس تمرین نے یقینا فائدہ پہنچایا۔ میں جب بھی نوجوان فضلائے مدارس سے ملتا ہوں، تو ان سے یہی درخواست کرتا ہوں کہ وہ مطالعہ کرتے وقت اسلام کی وسعت اور آفاقیت کو ملحوظ رکھیں اور جدید دور کے تقاضوں کے مطابق دین کی عقلی تشریح پر توجہ دیں۔ سوشل میڈیا کے دور نے بہت سے لوگوں کو قلم کار بنا دیا ہے، نوجوان فضلاء اگر اس ٹیکنالوجی کا مثبت اور تعمیری انداز میں استعمال کریں، تو جہاں معاشرتی سطح پر اس کا فائدہ ہوگا، ذاتی سطح پر بھی خود ان کو اس کا فائدہ پہنچے گا۔ اگر وہ "ٹرینڈ” کرتے موضوعات پر مثبت اور مختصر تحریر بھی لکھیں گے، تو قارئین کی فوری پذیرائی سے ان کا حوصلہ مہمیز ہوگا۔ ان میں زیادہ سے زیادہ لکھنے کا شوق پیدا ہو گا اور وہ لاکھوں لوگوں کی اصلاح کا فریضہ انجام دے سکیں گے، لیکن شرط یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو مسلکی تنازعات اور تنقیص پر مبنی مضامین سے دور رکھیں۔
Comments are closed.