مفتی محمد اشرف قاسمی کی فقہی وتحقیقی نگارشات

بقلم: قرۃ العین
پی،ایچ،ڈی،اسکالر
مادھو کالج۔وکرم یونیورسٹی،اجین۔

آ پ کا وطن اصلی ضلع گونڈہ (یوپی) ہے۔تاریخ پیدا ئش 4/جون 1980ء ہے۔جناب والادینی اور علمی گھرانے کے چشم وچراغ ہیں،عربی مدارس میں جملہ دروس نظامیہ کی تحصیل کی۔ دارالعلوم دیوبند سے امتیازی نمبرات سے فراغت کے بعد تدریب فی الا فتا(فتوی نویسی کی مشق) کی تکمیل کی۔ ساتھ ہی الہ آ باد عربی وفارسی بورڈ سے مختلف امتحا نات پاس کر کے فاضلِ طب تک کی رسمی اسنادحا صل کیں۔ لکھنؤیونیورسٹی سے ایم اے عربک میں درجہ اول سے کامیاب ہو ئے۔ ایم پی میں گذشتہ سال ڈی ایل ایڈ کا امتحان پاس کرکے اس کی سند حاصل کی۔ چند مقامات پرطبابت کے ساتھ مختلف درجات کے طلباء کو اردو عربی فارسی کی تعلیم میں مشغول رہے۔ نیز تقریباً دو دہائیوں  سے بنیادی طور پر فتوی نویسی کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔کچھ لوگوں کے اصرار وطلب پر شہر مہد پور کو اب مستقل اپنا وطن بنالیا ہے۔اور2010ءسے یکسو ہو کر”دارالا فتا ء، شہر مہد پور“ میں فتوی نویسی کی خدمات میں مصروف ہیں۔ فتوی نویسی میں تحقیق اور اصول افتاء کی پابندی واہتمام کی وجہ سے ملک کے مؤقرومقتدرمفتیان کرام اور اداروں نے موصوف پر اپنے اعتماد کااظہار کیا ہے۔ اسی وجہ سے عالمِ اسلام کے معتمد تحقیقی وفقہی ادارے”اسلامک فقہ اکیڈمی،دہلی انڈیا“کے قافلۂ تحقیق وتفحص میں رفیقِ علمی،مقالہ نگاراورمندوب کے طورپرمختلف دینی موضوعات پر تحقیقی مقالات لکھنے کے لیے موصوف کو دعوت نامے موصول ہوتے ہیں اور موصوف اکیڈمی کی عظیم خدما ت کے پیش نظر پوری عرق ریزی کے ساتھ اپنے مقالا ت لکھ کر اکیڈمی کو ارسا ل کرتے ہیں۔ جنھیں اکیڈمی اپنے وقیع مجلے میں شائع کرتی ہے۔ موصوف نے دس سال کی مدت میں تقریبا 35/ وقیع رسالے لکھے ہیں۔ نیزمتعددمقالا ت کے ذریعہ مختلف شعبوں میں مسلمانوں کی دینی رہنمائی کی ہے۔ جن میں ”اجراء قواعد بروایات سبعہ برحا شیہ قرآن مجیدمکمل“،”اشرف التجوید“،”عقد استصناع یعنی ورک کنٹریکٹ“،”الیکشن سے مربوط مسائل“،”سونا چاندی کے کاربار سے متعلق مسائل“،”سوناچاندی سے متعلق مقالات پرعرض مسئلہ“،”بیع وفا(ہیبی ڈپوزت کی صورتِ جواز)،”عصری مدارس اور اسلامی ہدایات“،”علوم فرض کفایہ“،”تعلیمی وطبی اداروں کا قیام“،”محفوظاتِ سراجی“،”دعوت وتبلیغ کی ضرورت و اہمیت اورطریقۂ کار_،”قرآ ن کریم کی کتابت اوررسم الخط سے متعلق مسائل“،”اہل کتاب سے مرافقت“،”تعزیر بالمال اور اسلامی ہدایات“،”بغیرمحرم کے خواتین کا حج وعمرہ کا سفر“،”شرعی پردہ "،”اہل کتاب اور صابی خوا تین سے شادی“،”بارات، جہیز، ولیمہ“،”اقسامِ طلاق اور بیک وقت تین طلاق دینے کا حکم“،”مدارس کے چندہ کے لیے خلاف شریعت علاقائی تصدیقات“،”مکاتب میں پڑھانے والے علماء؛ علماء ربانی ہیں“،”آسمانِ رشد وہدایت کا درخشندہ ستارہ،کاتب وحی، فاتح عرب وعجم حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ“،”علامہ انور شاہ کشمیریؒ اور علوم وفنون“،”مسلم اورغیرمسلم ممالک میں مقیم مسلمانوں کے لیے رہنما اصول“،”جمہوری ملک میں مسلمانوں کی ذمہ داریاں“، ”دعوت وتبلیغ سے نظریات مضاعف (ملٹی پلائی)ہوکر پھیلتے ہیں“،”ہماری ایک دلت بہن کوشل اور فتوحات،جو ہوعزمِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجریں“،”اذان: وبا ئی امراض سے حفاظت کے لیے ایک روحانی عمل“،”ثریا ستارہ کے بارے میں ایک گمراہ کن پروپیگنڈہ "،” جمعہ کے دن گھروں میں باجماعت نمازجمعہ وظہر”،” آن لائن یا کیش لیس معاملات اور فتنہ دجال”،”حضرت گرونانک اور اسلام، (اردو، ہندی،انگریزی)“،”مسجد ومندرکاتنازع؛ توحید و شرک کی نظریاتی جنگ”،”سلطان ٹیپو شہید کے دیارمیں، سفرنامہ آندھراپردیش وکیرالا“،”روداد سفر؛اُناؤ، ہردوئی،امروہہ،دلی“،”ہیں نظرمیں دشت وکوہسار، آدیواسی علاقوں میں سفر کی یاد داشت“،”ایسے اسلاف سے ملتا ہے ہمارا شجرہ؛خانقاہ نعیمیہ، بہرائچ، یوپی،انڈیا، کے مہر وماہ کا تذکرہ“،”حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد پالنپوریؒ کی کچھ باتیں“،”صدیوں تجھے گلشن کی فضا یاد کرے گی“،”راحت اندوری،خصوصیات وامتیازات“،”حضرت اقدس مفتی عبد الرشیدصاحب (سیو،ودیشہ)کے دربارمیں؛ یادداشت“،”لاک ڈا ون میں میرے روزوشب اورکچھ یادیں“،”عروج واقبال کے لیے چاراہم کام“۔”اردو ودیگر زبانیں اورفضلاء مدارس“۔
ان میں سے اکثر مقالا ت مختلف جرائد ورسائل میں شائع ہو ئے ہیں۔ ان کے علا وہ ڈیرھ دوسال کے عرصہ میں مختلف مضامین فتاواجات کی شکل میں تقریبا دوہزارصفحات پر مشتمل اپنا تحریر ی سرمایہ تیاراور محفوظ کیا ہے۔ موصوف کی جو کتا بیں زیورطباعت سے آراستہ ہو کر ملک وبیرون ملک میں اصحاب علم سے خراج تحسین وصول کر رہی ہیں،ان میں ”مختلف قومیں اوراسلام“، ”شادی اور شریعت حصہ اول“،”ولیمہ کا مسنون طریقہ“، فتنۂ ارتداد سے بچنے کا طریقہ“،”مسجدیں اور علامات قیامت“،”تبلیغی جما عت اور تحریک ولی اللہی“،”تعمیر مساجد اور انسانیت کی رہنمائی“قابل ذکر ہیں۔
آ خر الذکر کتاب پر مختلف رسائل واخبارات میں مقتدر علماءکرام کی طرف سے تہنیتی تبصرے شائع ہوئے۔ فقیہ العصرحضرت مولاخالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم کتاب پر تفصیلی تبصرہ اور کلمات تبریک لکھتے ہوئے فرماتے ہیں۔
”..مساجد کی اہمیت اور فضائل پر عربی اور اردو میں کئی ایک کتابیں ہیں،لیکن زیر مطالعہ کتاب’تعمیر مساجداور انسانیت کی رہنما ئی‘ خاصے کی چیز ہے،اس کتاب میں صرف مساجد کے فضائل ومناقب سے بحث نہیں کی گئی ہے؛بلکہ مسجد کا ہماری زندگی میں کیا کردار ہونا چاہئے؟ اس پر بھی سیر حاصل بحث ہے،جو وقت کی آ واز ہے۔…ہر بات مدلل اور حوالے کے ساتھ ہے، جس سے کتاب کا اعتبار، وقار اور وزن بڑھ جاتا ہے۔
موجودہ دور میں جب کہ مساجد کے تعلق سے بیشتر مسلمانوں کی سوچ یہ ہے کہ وہ زیا دہ سے زیا دہ پنج وقتہ نما پڑھنے کی جگہ ہے اور بس۔ محبی فی اللہ مؤلف عزیز مولانا محمد اشرف صاحب قاسمی نے اس عامیانہ اور سطحی سوچ کو بدلنے کے لیے قلم کا سہا رالیا ہے۔ اوراس موضوع پر یہ بیش قیمت کتاب تحریر کی ہے، ان کی یہ کتاب نہ صرف فکرونظر کے نئے دریچے واکرتی ہے؛ بلکہ یہ بھی بتاتی ہے کہ مسلمانوں کی ترقی اور تنزلی کامعیارجہاں ’کتاب اللہ‘ سے مسلمانوں کا تعلق یا بے تعلقی ہے، وہیں مسجدوں کے تعلق سے ہمارا طرزعمل بھی ہے۔“
(کلمات تبرک،حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، تعمیرمساجد اور انسانیت کی رہنما ئی ص25/ تصنیف: مفتی محمد اشرف قاسمی، ناشر: مکتبہ شاہ ولی اللہ 1/25۔ B رحمن کمپلیکس، بٹلہ ہاؤس،جوگابائی، جامعہ نگر،نئی دہلی25۔)
سن 2017ء میں مجلس اتحادِ امت (اجین)کی میزبانی میں اسلامک فقہ اکیڈمی کا فقہی سیمینار منعقد ہوا،تو اس وقت شہر اجین ومضافات میں مختلف موضوعات پر ملک کے نامور کے علماء کرام کے بیانا ت ہو ئے۔ اسی سلسلۂ بیانات میں جماعت خانہ مسلم ناگوریان، مہد پور میں ”غیر سودی کا روبار“موضوع پر مولانا خالد سیف اللہ خالد سیف رحمانی زید مجدہ کا پُرمغز بیان ہوا۔ اس بیان کو ”اسلامک بینکنگ“عنوان سے معنون کرکے کتابی صورت میں مفتی صاحب مو صوف نے مرتب کردیا۔جسے”مجدد الف ثانی اکیڈمی،مہدپور“ نے دیدہ زیب ورق، پُرکشش کتابت، خوبصورت ٹا ئٹل پیج کے ساتھ شائع کیا۔ یہ رسالہ بھی مفتی صاحب کی تصنیفی کاوشوں کا گرانقدر حصہ قراردیاجاسکتاہے۔ حضرت مفتی عبد الرشید صاحب(خلیفہ محی السنۃ حضرت اقدس شاہ ابرارا لحق ہردوئی)نے فارسی زبان میں عربی گرامر کی مشہور کتاب”نحومیر“ کامنظوم اردوترجمہ ”النحو المنظوم“ کے نام سے لکھا۔تو مفتی محمد اشرف قاسمی نے اس کے نوک وپلک کو سنوارکر اپنی اکیڈمی سے شائع کرایا۔ یہ کتاب اردو زبان میں عربی گرامر کے لیے ایک نعمت غیر مترقبہ ہے۔ جس میں مفتی اشرف صاحب کی جہد وسعی کا بھی کافی دخل ہے۔ محی السنۃ حضرت مولانا ابرارالحق ہردوئی کے خلیفہ حضرت اقدس مفتی عبد الرشید صاحب نے مفتی محمد اشرف قاسمی صاحب کے بارے میں مسجد ابرار سیو میں حاضر ین کے سامنے مائک پر فرمایا کہ:
”یہ مفتی محمد اشرف قاسمی ملک کے چوٹی کے علماء میں سے ہیں۔ ایم پی میں صرف دو علماء ہیں جو تصنیف وتالیف کے میدان میں اتنے بڑے پیمانے پر کام کرتے ہیں۔ ان دو میں ایک مفتی محمد اشرف صاحب(مہدپور) ہیں۔“
(روزنامہ نیا نظریہ،اجین، یکم اکتو بر2020ء جلد نمبر9/)
موصوف کا اشہب قلم جب چلنا شروع کرتا ہے تو پھرمنزل پر ہی پہونچ کردم لیتا ہے۔ اس طرح اجین کی سرزمیں پر علم وتحقیق کا یہ مسافر جویان علم کے لیے ریگستان میں نخلستان کا ایسامنظر پیش کررہا ہے،جو طویل زمانے تک کے لیے عالم اسلام میں اجین کی شہرت وناموری کاباعث اور اجینی علم وادب کا مینار ثابت ہوگا۔ فقط
قرۃ العین
پی ایچ ڈی اسکالر۔ مادھو کالج۔
وکرم یونیورسٹی اجین۔ایم پی۔

Comments are closed.