پردہ فطرتِ نسواں بھی ہے اور تقاضۂ اسلام بھی محمد عمر نظام آباد متعلم ادارہ أشرف العلوم حیدرآباد

پردہ فطرتِ نسواں بھی ہے اور تقاضۂ اسلام بھی
محمد عمر نظام آباد
متعلم ادارہ أشرف العلوم حیدرآباد
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ اسلام کی تعلیمات اسرار و حکم سے پُر، اور رموز و غوامض سے معمور ہے، نیز فطرت انسانی سے بالکل ہم آہنگ اور مزاج بشری کے عین مطابق ہے، من جملہِ تعلیمات کہ پردہ بھی ہے، جوکہ فطرتِ نسواں اور تقاضۂ حیا ہے ،جس کا اسلام نے اپنے پیروکاروں کو پابند کیا ہے؛ اس لیے کہ سب سے بیش قیمت انسانی جوہر عفت وعصمت ہے، جس کی حفاظت میں پردہ اور حجاب کا اہم کردار رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ جذبات و احساسات اور اخلاق و کردار کو آوارگی سے بچائے رکھنے، تہذیب و تمدن کو زوال و سقوط سے محفوظ رکھنے، معاشرتی برائیوں کا سدِ باب کرنے، اور خانگی زندگی کو خوشگوار اور کامیاب بنانے کے لیے پردہ انتہائی لازمی اور اولین فریضہ ہے، پردہ مرد و زن ہر ایک کے لیے دلوں کو پاک رکھنے کا انتہائی موثر ذریعہ ہے، اور اسی طرح فواحش میں ابتلاء سے بچاؤ ہوسکتا ہے،اس پر مستزاد یہ کہ عفت و عصمت کی حفاظت و ضمانت، اور شرم و حیا کی بقا اسی سے وابستہ ہے، اس کا واحد مقصد خواتین کو تحفظ فراہم کرنا ہے، نہ کہ قید کرنا اور انہیں پابند کرنا ، نیز کہیں یہ ناقصات العقل شہوانی تموج اور مال و متاع کی حرص میں اپنے عفیفانہ اخلاق اور حیا دارانہ جذبات و اعمال سے دستبردار نہ ہو جائیں،
پردہ کی اہمیت: فرائض کے بعد شریعت میں دوسرا فرض پردہ اور حجاب ہے، پردے کی فرضیت کا حکم سن 5 ہجری میں نازل ہوا ہے، قرآن کریم کی سات آیات اور حضور اکرم ﷺ کی ستر سے زائد روایات پردے کی اہمیت کو اجاگر کرتی نظر آتی ہے، شریعت مطہرہ نے عورت کے حق میں پردے کو لازم اور ضروری قرار دیا ہے، بطور خاص "چہرہ "کو اس لیے کہ وہ با عثِ کشش اور ذریعے فتنہ ہے، ورنہ دوسرے اعضاء تو کپڑوں میں ملبوس اور مستور ہوتے ہی ہے، اسی جانب رہنمائی کرتے ہوئے قرآن نے کہا،”یایھا النّبی قل لازواجک و بناتک و نساء المومنین یدنین علیھن من جلابیبھن "( سورۃ الاحزاب: ٥٩) ترجمہ: اے نبی ﷺ ! اپنی ازواج مطہرات، اپنی بیٹیوں ،اور مومن عورتوں سے فرما دیجئے! اپنے (چہروں) پر پردہ لٹکا لیا کریں، اور اسی طرح یہ حکم بھی چہرے کے پردے کی طرف متوجہ کرتا ہے "واذا سالتموھن متاعا فاسالوهن من وراء حجاب "( الاحزاب: ٥٣) جب ازواج مطہرہ سے کچھ پوچھنا ہو تو پردے کے پیچھے سے پوچھا کرے ، نیز عادت اور عبادت کی کوئی نوع ایسی نہیں کہ جس میں عورت کو حجاب اور پردے سے بَری کیا گیا ہو، جب گھر سے باہر جانے کی ضرورت پڑ جائے تو قرآنی دستور کو سامنے رکھے "يدنين عليهن من جلابيبهن ” ( الاحزاب: ٥٩) مطلب یہ ہے کہ گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت ضرورت کے موقع پر،برقع کے التزام، خوشبو کے بغیر، بجنے والے زیورات سے اجتناب، راستے کے کنارے پر چلنا،اور مردوں کے ہجوم میں داخل نہ ہونا ، یہ سب صرف جوہر عفت کے تحفظ کی خاطر ہے ،نیک عورت کی پہچان اہل حقیقت کی نگاہ میں یہ ہے کہ خوف خدا اس کا حسن و جمال ہو، قناعت اس کی دولت ہو، عفت و عصمت اور تہمتوں سے اجتناب اس کا جوہر وزیور ہو، ( تنویر الاذہان من تفسیر روح البیان ) کتاب اللہ کے ساتھ ساتھ ساتھ احادیث نبویہ بھی اس کے وجوب کا ثبوت دیتی ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہے، المرأة عورة فاذا خرجت استشرفها الشيطان ( فیض القدیر : ٦, ٢٦٦)
ترجمہ : عورت پردے میں رہنے کی چیز ہے، عورت جب گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اس کے پیچھے لگ جاتا ہے، حدیث مذکورہ سے معلوم ہوتا ہے کہ پردے کا تعلق عورت کے پورے جسم اور جسم کے تمام اعضاء سے ہے، اور مسند احمد کی روایت میں ہےکہ نابینا صحابی حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ درِ رسول پر حاضر ہوئے حضرت ام سلمہ اور میمونہ رضی اللہ عنھما وہاں موجود تھی، حضور نے ان دونوں سے فرمایا کہ ان سے پردہ کرو، وہ بولیں یہ تو نابینا ہے، آپ نے فرمایا کہ تم تو نابینا نہیں ہو ( مسند احمد: ٦, ٢٩٦) غور کیجئے جب ایک نابینا انسان سے عورتوں کو پردہ کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے،تو بینا مردوں سے پردہ کرنے کا حکم کس قدر اہم اور ضروری ہوگا، اس کے علاوہ اور بھی بے شمار احادیث موجود ہے،جو پردے کے وجوب ولزوم پر دال ہے، ان سب کے باوجود اگر ہم خیرالقرون جیسے پاکیزہ دور پرصرف ایک سرسری نظر ڈالیں تو بہت سے واقعات ایسے ملیں گے جو صحابہ کے پردے کے اہتمام کی اطلاع دیتے ہیں ، چنانچہ ایک صحابیہ کا لڑکا شہید ہوگیا،تو وہ نقاب پہن کر خدمت میں حاضر ہوئی، صحابہ نے عرض کیا! بیٹے کا حال پوچھنے آئی ہو اور وہ بھی نقاب پہن کر؟ بولیں ! میں نے اپنے بیٹے کو کھودیا ہے،شرم و حیا کو نہیں کھویا ، ( ابوداؤد: کتاب الجہاد) ذرا اس واقعہ میں غور کرنا چاہیے کہ انتہائی غم اور پریشانی کی حالت میں بھی پردے کا حکم ان کے ہاتھ سے نہیں چھوٹا، اور ہم محض خواہشات کی تکمیل کیلئے بے حجاب ہوجاتے ہیں،
اور صحابیات کا حال بیان کرتے ہوئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہے کہ عورتیں فجر کی نماز کے لیے مسجد نبوی میں شریک ہوتی تھیں، وہ چادروں میں لپٹی ہوئی تھی، نماز کے بعد مسجد سے نکل کر گھروں کو لوٹتی تھی،کوئی انہیں پہچان نہیں پاتا تھا ، ( بخاری : کتاب الصلوۃ) یہ روایت واضح طور پر چہرہ سمیت پورے جسم کے پردے کے التزام کو بیان کرتی ہے ، صحابہ و صحابیات کے احتیاط کی ایک اور جھلک یہ بھی ہے کہ ایک بار حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی چچا "افلح "ملاقات کے لیے آئے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پردے کا اہتمام کیا اور ان سے ملنے سے انکار کر دیا ،پھر حضور ﷺ کو واقعہ بتایا تو آپ نے مسئلہ بتایا کہ وہ تمہارے رضاعی چچا ہے، تم ان سے ملاقات کر سکتی ہو ، ( مسلم : کتاب الرضاع )
نیز واقعہ افک کے ذیل میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہے کہ حضرت صفوان بن معطل سلمی صبح کے وقت اس مقام پر پہونچے، جہاں میں قافلے سے بچھڑ گئی تھی ،اور قافلے کی واپسی کی منتظر تھی ،پردے کا حکم آنے سے پہلے وہ مجھے دیکھ چکے تھے، انہوں نے مجھے دیکھتے ہی پہچان لیا،اور زور سے "انا للہ وانا الیہ راجعون "پڑھا ،جسے سن کر میں نیند سے بیدار ہوگئی ،اور اپنے چہرے کو چادر سے ڈھانک لیا ( بخاری شریف کتاب المغازی) مذکورہ بالا تمام واقعات یہ بتاتے ہیں کہ پردے کی اہمیت صحابہ کی نظر میں کیا تھی ، اور وہ اس کا کس قدر اہتمام کرتے تھے ، جسم کے ساتھ ساتھ چہرے کا بھی پردہ کرتے تھے ، لیکن ہم ہے کہ پردہ ایک بوجھ تصور کرتے ہیں ،
ہمارا حال زار : ہماری سماجی زندگی اور معاشرے کی حالت زار تو یہ ہے کہ بے حیائی اور ہوسناکیوں کے موجودہ دور میں عورت اغراض فاسدہ کی تکمیل ،اور تجارتی سامانوں کی تشہیر کا ذریعہ بن چکی ہے ، اور آجکل عورت کے لئے ایسے لباس و پوشاک ایجاد کیے جا رہے ہیں، کہ الامان الحفیظ! جو ستر پوشی نہیں؛ بلکہ ستر فاشی کرتے ہے، اور ایسے اسبابِ زینت مہیا کیے جارہے ہیں جو زینت نہیں بلکہ زحمت بلکہ فطری بناوٹ بدلنے کا ذریعہ ہے ، تو وہیں دوسری طرف عورت بھی اپنے استحصال کو حقیقی آزادی اور مذہبی روک ٹوک کو قید و بند سمجھتی ہے، لعنت ہے ایسی آزادی پر جو عزتوں کو پامال اور عصمتوں کو تار تار کردے، تف ہے ایسی مساوات پر جو حقیقی ذمہ داریوں سے غافل کردے،اور مقصد تخلیق کو بھلادے، یہی نہیں؛ بلکہ افسوس کا صد مقام ہے کہ مسلم معاشرے کا متدین طبقہ بھی اس کی زد میں ہے، پردے کا کوئی خاص اہتمام ہی نہیں، غیر محرموں کے سامنے بے حجاب آنا جانا ، بلا تکلف باتیں کرنا ،ناجائز تعلقات قائم کرنا ، فونوں پر چیٹنگ کرنا، وغیرہ کو غلط اور گناہ ہی نہیں سمجھا جاتا ہے، تو وہیں دوسری طرف اگر پردے کا اہتمام ہے بھی تو وہ بطور نام اور محض رسماً ہے ، صرف جسم پر برقع ہے، چہرہ بے نقاب ہے،اور برقع بھی ایسا چمک دار اور چست کہ ہر دیکھنے والے کی نگاہیں ان پر ٹکی رہتی، اور ہر گذرنے والا ان کی جانب متوجہ ہوتا ، ایسا محسوس ہوتاہے کہ ان کا باہر نکلنا ضرورت کی بنا پر نہیں بلکہ اپنے بناؤ سنگھار کی نمائش اور اپنی خوبصورتی کو ظاہر کرنے کے لئے ہے ؛ تاکہ لوگوں کو اپنے جالِ فریب اور دام محبت میں پھانس سکے ، حالانکہ عورت اپنی ذات اور حقیقت کے اعتبار سے ایک مستور اور محجوب شیٔ ہے ، جیسا کہ صریح احادیث نبویہ اس کی تائید کرتی ہے، عقل اور قیاس کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ قیمتی شیٔ کو چھپا کر رکھنا چاہیے، ناکہ انہیں سڑکوں پر برسرعام نکالا جائے، اور لوگ ان سے مستفید ہو، اور یہی وجہ ہے کہ اسلام نے عورت کی انفرادی نماز تک میں ستر اور حجاب کی ہیئتوں کو تجویز کیا گیا، لیکن قربان جائے دور نبوت پر کہ انکا پردہ اور برقع آج کی طرح مزین اور ہیجان انگیز نہیں تھا ؛ بلکہ سیدھا سادہ اور کشادہ برقع اور پردہ ہوتا تھا، جس کی وجہ سے عورت سر تاپا مستور رہتی تھی، اور انکی عفت و حیاء اور پردہ سب پوری انسانیت کے لیے ضرب المثل اور لائق تقلید ہے ، اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا حجاب بھی حجاب شرعی ہو تو اس میں ان شرطوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، ١, برقع پورے جسم کے لئے ساتر ہو ، ٢, دبیز ہو ،٣, کشادہ ہو؛ تنگ نہ ہو ، ٤, نقاب اظہار زینت کے لیے نہ ہو ، ٥, خوشبو نہ لگارکھی ہو ، ٦, مردوں جیسا لباس نہ ہو ، ٧, غیر مسلموں کی پوشاک سے مشابہت نہ ہو ، ٨, اور اس سے ریا اور نمود مقصود نہ ہو ،وغیرہ ، جب یہ شرطیں پائی جائیں گی تب وہ اسلامی حجاب کہلائے گا،اور پھر بنتِ ہوَّا کی چادرِ عفت و عصمت ہوسناک درندوں سے محفوظ رہ سکتی ہے،اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری نئی نسل اور دخترانِ ملت کی عزتیں پامال نہ ہو ، انکی آبروریزی نہ ہو ، اخلاق و کردار پر فرق نہ آئے تو سب سے پہلے والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کی اسلامی نہج پر تربیت کریں، گھروں میں تعلیم کا ماحول قائم کریں، صحابہ اور صحابیات اور نیک لوگوں کے واقعات سنائیں،اور کچھ وقت فارغ کرکے بچوں کے ساتھ بیٹھے، انکی تعلیم کا جائزہ لیں، بُرے دوستوں اور بُری صحبتوں سے دور رکھے، اسمارٹ فون(جیسی مہلک الایمان شیٔ )سے دور رکھے ، اور پردہ کی اہمیت کو ان کے سامنے اجاگر کریں، تو وہی خود اولاد کی ذمے داری ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات کو اپنانے کی سعی کریں، تب جاکر معاشرہ میں کچھ بدلاؤ آسکتاہے، آخیر میں بس خواتین سے ایک ہی درخواست کرونگا
آنکھوں کی بندگی سے نگاھیں جھکا کے چل
شانوں سے گر گیا ہے دوپٹہ اٹھا کے چل
قوموں کی زندگی تیری آغوش میں پلی!
قوموں کی زندگی کا مقدر جگا کے چل
آنکھوں کے تیر تیرے بدن سے پرے رہیں
شرم و حیا کا اپنا لبادہ بنا کے چل
گر ہو سکے تو سیرت زہرا پہ کر عمل
اس زندگی کو یوں نہ تماشہ بنا کے چل
Comments are closed.