ناموس رسالت پرفرانس کا شدید حملہ اور قوم ِرسول ہاشمیﷺ محمد اعظم ندوی استاذ المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد

ناموس رسالت پرفرانس کا شدید حملہ
اور قوم ِرسول ہاشمیﷺ
محمد اعظم ندوی استاذ المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد
فرانس اپنی اسلام دشمنی میں ساری حدیں پار کر رہا ہے، پہلے تو وہاں اہانت آمیز خاکے صرف روزناموں اور جرائد میں شائع ہوتے تھے، اب یہ جرات کی گئی ہے کہ ان گستاخانہ خاکوں کی نمائش سرکاری عمارتوں پر کی جارہی ہے، اور ستم یہ ہے کہ اس بد ترین گھناؤنے کھیل میں فرانسیسی صدر ایمانویل میکخواں یا میکرون پیش پیش تھے، جن کے بارے میں ترک صدر اردوغان نے بالکل درست تبصرہ کیا ہے کہ میکرون کو دماغی علاج کی ضرورت ہے، وہ اپنا ذہنی توازن کھو چکے ہیں۔
ایمانویل نے حالیہ دنوں میں پیغمبرِ اسلام کے خاکے شائع کرنے کا دفاع کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ مذہب اسلام پوری دنیا میں بحران کا مذہب بن گیا ہے اور ان کی حکومت دسمبر میں مذہب اور ریاست کو الگ کرنے والے ١٩٠٥ئ کے قوانین کو مزید مضبوط کرے گی،اس میں کوئی شک نہیں کہ میکرون کا یہ جنون اور غصہ اسلام کے خلاف بغض اور دشمنی کا اظہار ہے، اس گستاخی کی ہمت اسی چارلی ہیبڈو میگزین نے کی جس نے پہلے بھی بارہا ایسی حرکتیں کی ہیں، اور ٢٠١٥ء میں اس پر چند نوجوانوں کی طرف سے حملہ بھی ہوا تھا جس میں بارہ افراد ہلاک ہوئے تھے، جس میں میگزین کا عملہ اور متنازعہ خاکے بنانے والا کارٹونسٹ بھی شامل تھا، اس میں فرانسیسی صدر کا جرم عظیم یہ ہے کہ وہ اس ناپاک مشن کی پشت پناہی کررہے ہیں بلکہ اب تو صاف لگتا ہے کہ وہ اس اہانت رسول اور اسلام دشمنی کی سرپرستی کررہے ہیں۔
میکرون کی طرف سے مذہبی انتہاپسندی کے خلاف سخت موقف ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پیرس میں ٢٠١٥ء کے حملہ کے ایک درجن ملزمان کے خلاف حال ہی میں مقدمے کی کارروائی شروع ہوئی ہے، جس کے بارے میں عیسائیت کے اس وقت کے ایک مذہبی رہنما نے اس طرح تبصرہ کیا تھا کہ اگر آپ کسی کی ماں کے ساتھ دشنام طرازی کریں گے تو وہ پلٹ کر جواب میں آپ کے چہرہ پر تھپڑ تو رسید کرے گا، اور پوری دنیا میں اس میگزین کی مذمت ہوتی رہی لیکن بے شرمی اور ہٹ دھرمی کی انتہا ہے کہ اس کے باوجود چارلی ہیبڈو اور فرانس باز نہ آئے اور یہ قابلِ مذمت اقدام جاری رہا جس سے مسلمانوں کی شدید دل آزاری ہوتی ہے، اور دنیا کا ہر منصف مزاج انسان اس کو نفرت وعتاب کی نگاہوں سے دیکھتا ہے۔
چند ہفتے قبل فرانس میں رہنے والے ایک پاکستانی نوجوان نے گستاخانہ خاکہ شائع کرنے پر چاقو سے حملہ کرکے چارلی ہیبڈو کے چند ایک کارکنوں کو زخمی کر دیا، حال ہی میں فرانس ہی میں رہنے والے پندرہ سولہ سال کے ایک چیچن مسلمان لڑکے نے اپنے اسکول کے اس استاد کو قتل کر دیا جس نے کلاس روم میں اپنے طالب علموں کو گستاخانہ خاکے دکھائے تھے۔
اس کے باوجود فرانس یہ بنیادی نکتہ سمجھنے سے قاصر رہا کہ مسلمان گستاخی کے عمل کو کسی طور برداشت نہیں کر سکتے اور اِس کی وجہ سے کوئی بھی مسلمان قانون اپنے ہاتھ میں لے سکتا ہے اور اب گستاخی کے عمل میں مزید آگے بڑھتے ہوئے فرانس کی سرکاری بلڈنگ میں گستاخانہ خاکے دکھائے گئے جس پر پوری دنیا کے مسلمانوں کے دل دکھے، انہیں اِس عمل پر شدید صدمہ پہنچا، یہ واقعہ کوئی چند روز پہلے کا ہے اور اسی روز سے سوشل میڈیا پر اِس کی بھرپور مذمت کی جا رہی ہے۔
ترکی کے صدر اردغان نے آگے بڑھ کر اس گستاخانہ عمل کی بھرپور مذمت کی اور فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا، خوشی کی بات ہے کہ پاکستانی وزیراعظم عمران خان کی طرف سے بھی ایک بیان ٹویٹر کے ذریعے سامنے آگیا جس میں انہوں نے فرانسیسی صدر کی اس جاہلانہ حرکت کے حوالہ سے کہا کہ اس گستاخی نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچائی ہے،پھرپاکستان نے فرانسیسی سفیر کو طلب کرلیا، اور پارلیمنٹ میں مذمتی قرارداد پاس کی اور پیرس سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے قاصد کو واپس طلب کرلے،لیکن عرب دنیا ابھی اسرائیل کے اشارۂ چشم وابرو کی منتظر ہے۔
دوسری طرف کویت ان مسلمان ممالک میں سر فہرست ہے جہاں احتجاج کے طور پر فرانس کی مصنوعات اور کھانے پینے کی اشیا کا بائیکاٹ کر دیا گیا اور دوکانوں سے فرانس کے پروڈکٹس کو اٹھا دیا گیا ہے، اسی طرح قطر،یمن،اردن اور سوڈان وغیرہ اور بھی بعض ممالک میں کیا گیا، اور عوام میں غیظ وغضب کی آگ بھڑک اٹھی،اس کا یہ اثر دیکھا گیا کہ فرانس مشرق وسطی کے ممالک سے فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ ختم کرنے کی اپیل کرنے پر مجبور ہوا،گو کہ میکرون کا غرور ابھی پوری طرح خاک میں نہیں ملا اور وہ بار بار اپنے موقف کا اعادہ کررہا ہے کہ ہم پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں،لیکن یہ جلی ہوئی کارتوس ہے،یہ کفر ٹوٹے گا اور میکرون اپنے کیفر کردار کو پہنچے گا۔
کاش دیگرمسلم ممالک کم ازکم فرانسیسی اشیا اور مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کرتے اور فرانس کے اپنے ملکوں میں متعین سفرا کو احتجاجا ملک چھوڑنے کا حکم دیتے،اور سرکاری طور پر فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کرتے،عالم اسلام کے ممتاز عالم دین اور فقیہ حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنے ٹوئٹ میں صراحت کے ساتھ لکھا ہے:” سروردوجہاں ﷺکے خلاف فرانس اور اس کے صدر کی کمینگی کے بعد کیا ہم اب بھی فرانس کی مصنوعات کی خریدو فروخت ،استعمال اور درآمد جاری رکھیں گے ؟ ان دولت کے پجاریوں کو سبق اسی وقت ملے گا جب عالم اسلام ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرے گا، یہ کم سے کم ردعمل ہے جو ہم دے سکتے ہیں”،مجلس تحفظ ختم نبوت ٹرسٹ تلنگانہ وآندھرا پردیش کے ذمہ دار واراکین نے بھی بائیکاٹ کی اپیل کی ، اور فرانس کے اس طرز عمل کی شدید مذمت کی ہے۔
یہ خوش آئند ہے کہ ہالینڈ کے ایک سیاست داں ارنود وان دورن جنہوں نے اس سے پہلے رسول اللہ کی ذات اقدس کی شان میں گستاخیوں پر مبنی ایک فلم بنائی تھی، اسلام قبول کرلیا اور ٢٤اکتوبر کے اپنے ایک ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ :”مسلمانان فرانس ظلم وحق تلفی برداشت نہیں کرتے رہیں گے، پر امن طریقہ سے سڑکوں پر اتریں اور اپنے حقوق کا مطالبہ کریں، پانی سر سے اونچا ہوگیا ہے، الجزائر کی طرح ہم فرانس کی طرف سے دوسری نسل کشی نہیں چاہتے”،اسی طرح ابھی اکتوبر کے وسط میں ایک خاتون نے اس وقت سب کو حیرت زدہ کردیا تھا جب وہ چار سال کے بعد مالی سے آزاد ہوکر فرانس پہنچی تھی،صدر میکرون اس موقعہ کا اسلام دشمنی کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے،اور بڑے طمطراق کے ساتھ اس کے استقبال کے لیے ایر پورٹ پہنچے تھے، لیکن فورا الٹے پاؤں وہاں سے واپس ہوئے جب پتہ چلا کہ٢٠١٦ء میں اغوا کے حادثہ سے دوچار ہونے والی پچھتر سالہ صوفی باترونین اب مریم ہوچکی ہے،اور پھر مالی لوٹ جانا چاہتی ہے،حجاب مخلاف ملک فرانس میں وہ پورے فخر کے ساتھ حجاب کے ساتھ داخل ہوئی،،
اسی قسم کا ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ دو معروف فرانسیسی مفکرین مائیکل آنفرا اور اریک زمور کے درمیان فرانس ار مسلمان کے موضوع پر سی نیوز کے ایک پروگرام فیس الانفو پر گرما گرم بحث ہوئی اور مائیکل جو اپنے ملحدانہ خیالات کے لیے مشہور ہیں،کھل کر مسلمانوں کی حمایت میں آئے،اور کہا کہ مسلمانوں کے اندر عزت وشرف کا احساس باقی ہے، ان میں اخلاق وکردر کی خوشبو ہے،جس سے ہم محروم ہوچکے ہیں،مسلمان اتنے بھولے بھالے ہیں، ہم افغانستان، مالی اور پوری دنیا میں ان پر کھل کر ظلم کرتے ہیں اور وہ اپنی آواز بھی نہیں اٹھائیں گے، کیا ہم مسلمانوں کو احمق سمجھتے ہیں، ہم اپنے قانون چین اور کیوبا میں کیوں نہیں تھوپتے، مالی میں کیوں؟ کیا وہاں انسانی حقوق کا احترام نہیں ہونا چاہیے، یہ بات اس منصف مزاج مفکر کو اس وقت کہنی پڑی جب میکرون اپنی وہی بات دوہرا رہے تھے کہ اسلام بحران کے دور سے گذر رہا ہے۔
مغربی دنیا کی یہ عجیب ناقابل فہم دوغلی پالیسی ہے کہ جب اسلام کے خلاف ہونے والی ہر بات کو وہ آزادی اظہار رائے سے جوڑ کر بری ہوجاتے ہیں، فن لینڈ کے سابق وزیر خارجہ ارکی تموجہ نے بالکل درست کہا تھاکہ جب ہم سیاہ فام لوگوں کا استہزا کرتے ہیں تو اسے نسل پرستی کہتے ہیں، جب یہودیوں کی توہین کرتے ہیں تو اسے سام دشمنی anti-semitism کہتے ہیں کہ جیسے ہٹلر کی طرح ہم پوری عرب سامی نسل کے خلاف ہیں، جب عورتوں کا مذاق اڑائیں تو اسے عورتوں پر ظلم کہتے ہیں، لیکن اگر مسلمانوں پر اہانت اور گستاخیوں بھرے طنز کے تیر ونشتر چلائیں تو اسے اظہار رائے کی آزادی کہتے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ میکرون کے سر میں فرانسیسی استعمارکی بازیابی کا سودا سمایا ہے،اس لیے وہ ماضی میں فرانس کی کالونی لبنان کے موجودہ سیاسی بحران کو حل کرنے کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں،اور تیونس اور الجزائر میں بھی فرانسیسی غلبہ کے خواہاں ہیں،اس سے آگے بڑھ کر ان کا سب سے بڑا مسئلہ ان کی سیاسی ناکامیاں ہیں جن کو چھپانے کے لیے دنیا بھر کے سیاستداں، کیا اپنے کیا غیر، اسلام اور مسلمانوں پر اپنا غصہ اتارتے ہیں، میکرون بھی یہی کررہے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ فرانسیسی باشندوں کے دلوں میں اسلاموفوبیا کی کاشت کرکے انتخاب میں جیت کی فصل کاٹیں،لیکن ان کو شاید معلوم نہیں کہ جو بویا جاتا ہے وہی کاٹا جاتا ہے، نفرت بو رہے ہیں،نفرت کاٹیں گے،اور نفرت کا جو عنوان انہوں نے چنا ہے،یعنی ناموس رسالت سے کھلواڑ کا،یہ ان کو عنقریب لے ڈوبے گا،یہ خانہ خراب منہ کی کھائیں گے اور زرد رو ہوں گے۔
اب فرانس میں میکرون کے مقابلہ میں دوسری سیاسی پارٹیوں کا اثر وروسوخ دوبارہ بڑھ رہا ہے،میکرون ٢٠١٧ء میں برسر اقتدار آئے تھے،اس سے پہلے وہ مختلف دائیں بائیں محاذوں کی نمائندگی کرنے والی پارٹیوں کا چکر لگاتے رہے ہیں،اور مختلف کلیدی عہدوں پر بھی رہے ہیں، ”این مارچ”(جمہوریت آگے آگے) کے نام سے ٢٠١٦ء میں اپنی نئی پارٹی بناکر دن دن پیچھے جارہے ہیں،٢٠٢٢ء میں بارہواں صدارتی انتخاب ہے،میکرون کواس کی فکر کھائے جارہی ہے؛اس لیے وہ’ بانٹو راج کرو’ کی سیاست کررہے ہیں،اس سے پہلے ٢٠١٨ء میں پیلی واسکٹ والوں کی تحریک Yellow vests movement نے ملک کو انقلابی بحران کی دہلیز پر لا کھڑا کیا تھا، میکرون کے تکبر ، اس کے مصنوعی طرز عمل اور عوام کے خلاف تضحیک آمیز رویہ سے عوام میں حکومت اور متمول طبقہ کے خلاف پائے جانے والے غصہ میں روز بروز اضافہ ہی ہوتاجارہا ہے، ان سب باتوں سے ریاست کی اوپری پرتوں میں دراڑیں بڑھ رہی ہیں،اور میکرون پر دباؤ بڑھ رہا ہے،اس لیے مجنونانہ حرکتیں کرنے میں ان کو کوئی عارنہیں۔
کوئی ہے جو ہمارے رہنماؤں کو خبر دے کہ فرانس نے کیسا ظلم عظیم کیا ہے؟اور وہ خود اسی کی آزادیٔ اظہار رائے کی تھیوری کے مطابق کس برتاؤ کا مستحق ہے، کوئی ان کو بتائے کہ ترکی کے صدر اردوغان بھی سیاستدان ہیں لیکن کس جرات کے ساتھ وہ مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہیں، جو حال ہمارے مسلم سیاستدانوں کا ہے، اس سے بد ترین حالت اسلامی دنیا کے اکثر سربراہان کی ہے، اور یہ آج کے مسلمانوں کا سب سے بڑا المیہ ہے،جس قوم کے رہنماؤں کو ناموس رسالت کی بھی پروا نہیں رہی ان کا خدا ہی حافظ ہے،ٹھیک ہے ہمارے پاس زور وزر نہیں، طاقتیں ہماری بکھری ہوئی ہیں،بازو ہمارے توحید کی طاقت سے کبھی قوی تھے،آج غلبۂ شرک وکفر سے کمزور ہیں،لیکن سرور دوعالمﷺکی شان میں کھلی گستاخی ہو اور ہم خاموش ہیں تو ہم اس زمین پر بوجھ ہیں،جو محمد کے در کی خاک نہ ہو اس کے سر پر خاک:
محمد عربی کہ آبروئے ہر دوسرا است
کسے کہ خاکِ درش نیست، خاک بر سرِ او

Comments are closed.