مجھے لوگ مشکور عثمانی کہتے ہیں  _________________________   نوید احسن ،قاضی محلہ جالے

مجھے لوگ مشکور عثمانی کہتے ہیں

_________________________

نوید احسن ،قاضی محلہ جالے

________________________ زندگی کی اس بھیڑ میں نہ جانے ہم نے کتنے ہچکولے لئے ہیں ،ہماری سانسوں کی کشتی بارہا بھنور میں پھسی ہے لیکن بل کھاتی کشتی نے ہمیں ہمیشہ کنارہ لگایا ہے ،

مجھے لوگ مشکور عثمانی کے نام سے جانتے ہیں میں عثمانی کیوں لکھتا ہوں یہ کہنے کی ہمیں ہرگز ضرورت نہیں ہے بس ایک نسبت ہے جو عظیم ہے ،میں نے اپنے بچپن کو اپنے لوگوں کے بیچ ایک اچھی تربیت میں گذارا ہے ،جہاں کا ماحول مذہبی ہونے کے ساتھ انسانیت نوازی پر مبنی تھا ،جہاں کبھی کوئی بھید بھاؤ نہیں رہا قدروں کی پاسداری ہماری سرشت میں داخل ہے اس لئے کہ ہمارے پروج انسانیت کے قدردان تھے انہوں نے کبھی کسی کو اس لئے نہیں بانٹا کہ وہ چھوٹا ہے اور وہ بڑا ہے وہ ہندو ہے اور وہ مسلمان ہے اس بات کی گواہی وہ لوگ دیں گے جس کا ہمارے خاندان سے سروکار رہا ہے

چونکہ ہماری آنکھ نے جس خاندان کو صبح اول دیکھا تھا وہ علمی تھا اس لئے ہوتے ہواتے ہم ہندوستان کے عظیم درسگاہ تک پہونچ گئے جہاں ہمیں باشعور دوستوں کا ساتھ ملا اور اچھے مربی اساتذہ کی تربیت میسر آئی سرسید احمد خان کے خوابوں کی سچی تعبیر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا ساتھ اور وہاں کی تربیت نے ہمیں انسانوں کے اس بھیڑ میں بہت کچھ سیکھنے کا موقعہ دیا ،وہاں کی یونین نے ہمیں قبول کیا اور اس حوالے سے ہمیں خدمت کا اور سیکھنے کا خوب موقعہ ملا ،بڑوں کے ساتھ ملے جن کے سامنے زانوئے ادب طے کیا ،اونچ نیچ کو دیکھا سمجھا اور پرکھا اور یہ بھی سیکھا کہ سب سے بڑھ کر رب کی عبادت کے بعد انسانیت کی خدمت بڑی عبادت ہے ،

یہ جو آپ سن رہے ہیں کہ ہم نے "جناح”کے سپوٹ میں ریلی نکالے تھے اور اس سے ہمدردی رکھا تھا یہ سراسر جھوٹ ہے میں جناح کو خوب جانتا ہوں اور اس کی گھٹیا سیاست سے بھی خوب واقف ہوں اور یہ سب تو ہم نے اس وقت اپنے دادا مولانا عثمان صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے سنا تھا جب کہ ہم نے شعور کے آنکھ بھی ٹھیک سے نہیں کھولے تھے ہمارے دادا چونکہ مجاہد آزادی کے سرخیل ہوا کرتے تھے اس لئے ان کو خوب معلوم تھا کہ جناح کی پالیسی کتنی گندی ہے یہ ہم ان کے گود میں قصے کہانی کے طور پر سنا کرتے تھے

اف توبہ میں بھی کہاں الجھ گیا

تو آگے بڑھنے ہیں

چرچا کرتے ہیں 2020 کے بہار اسمبلی الکشن کا مجھے میرے اندر کی ضمیر نے مجھے پھر سے للکارا اور خیال دلایا کہ کیوں نہیں جمہوری ملک میں جمہوری اقدار کی قدروں کے ساتھ اپنے علاقے کی خدمت کو ٹھانا جائے اور بلا مذہب ومشرب انسانیت کی خدمت کی جائے ہم اپنے عزم کے ساتھ اٹھے اور اپنے پروجوں کی پارٹی کانگریس سے خدمت کرنے کے لئے ایک موقعہ دینے کی درخواست کیا بس کیا تھا بات سنی گئی اور یہ موقعہ ہمیں میسر آیا اس درمیان بھی ہمارے بہی خواہوں نے مجھ متعلق مختلف باتیں کہیں لیکن ہمیں اس کا ذرہ برابر تکلیف نہیں ہے چونکے آشیانے میں ہی ٹھٹھرتی شام کو گرم رکھنے کے لئے آگ بھی ملتی ہے جو وجود کو گرم رکھنے کے لئے ضروری ہوتا ہے ،ہمیں اپنے دوستوں نے ہی گرم رہنے کا ڈھنگ سکھایا ہے ،

اچھا عجب اتفاق یہ بھی دیکھئے کہ پارٹی ہمیں کہیں سے بھی ٹکٹ دے سکتی تھی لیکن میرے بھاگ میں ایک ایسا اسمبلی حلقہ آیا جو صدیوں سے تاریخی رہا ہے جس حلقے نے نامور شخصیتوں کو جنم دیا ہے ،جس میں سر فہرست قریب زمانے کے مشہور فقیہ اور ملت کے بہی خواہ ،گنگا جمنی تہذیب کے علم بردار قاضی مولانا مجاہد الاسلام قاسمی رحمہ اللہ کا نام سر فہرست ہے

یہاں آکر جو ہم نے اپنائیت محسوس کیا ہے وہ لائق تحسین اور قابل احترام ہے مجھے یکساں ہندو مسلم کا پیار ملا ہے ہر ایک نے ہاتھوں ہاتھ لیا ہے یہی وجہ ہیکہ میں آنکھ کھلتے بہی خواہوں اور مخلصوں کے بیچ چلا جاتا ہوں جہاں ہر بڑا چھوٹا اٹوٹ محبتوں کے ساتھ اپنی بانہوں میں بھر لینے کی کوشش کرتا ہے اور رات کے ڈھل جانے کا خیال اس وقت ہوتا ہے جب اٹھکھیلیاں کرتا چاند ڈھلنے کے لئے بے قرار ہوتا ہےاور ستارے اپنی آنکھیں موندنے کی تیاری میں ہوتا ہے ،جب میں اپنے ٹھکانے پر آتا ہوں تو اللہ کی مخلوق سوئی ہوتی ہے اس لئے کہ اس کا بیٹا مشکور عثمانی جگا ہوا ہوتا ہے ،

اس لئے یہ بیٹا اس بات کی امید رکھتا ہے کہ انشاءاللہ جاگنے والے اس بیٹے کو آپ ضرور قبول کریں گے

اجازت دیجئے

پھر ایک نئی تاریخ کے ساتھ ملیں گے

ہندوستان ژندہ باد

مہاتما گاندھی ژندہ باد

جالے کی عوام ژندہ باد

Comments are closed.