توہین رسالت سے مضطرب مسلمان؛انصاف پسند ممالک نوٹس لیں! تحریر:محمداطہرالقاسمی جنرل سکریٹری جمعیت علماء ارریہ

توہین رسالت سے مضطرب مسلمان؛انصاف پسند ممالک نوٹس لیں!
تحریر:محمداطہرالقاسمی
جنرل سکریٹری جمعیت علماء ارریہ
______________________
توہین رسالت کے نتیجے میں بھارت سمیت تمام عالم میں اس وقت امت مسلمہ میں جو اضطراب و بےچینی برپا ہے،مسلمان سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں اور فرانسیسی مصنوعات کا جس طرح مسلسل بائیکاٹ ہورہاہے اس کا واحد ذمے دار فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون ہے۔
توہین رسالت کے حالیہ قضے کو عالمی قانونی پروٹوکول کے مطابق اگر ہینڈل کیا جاتا تو یہ برے دن دیکھنے نہیں پڑتے مگر فرانسیسی صدر نے گستاخانہ خاکے کی حمایت کرکے پوری دنیا کے مسلمانوں کو مشتعل کرڈالا۔
جبکہ ہمارا مذہب دنیا کے تمام مذاہب اور ان کے پیشواؤں کا احترام کرتے ہوئے ان کی شان میں کسی بھی قسم کے نازیبا کلمات کو برا سمجھتا ہے اور ہرقسم کےتشدد اور دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے تو آخر انسانیت کے سب سے بڑے محسن اور مذہبی پیشوا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کو وہ کیسے برداشت کرسکتا ہے!
اظہار رائے کی آزادی اگر جائز ہے تو آخر اس کا نشانہ صرف اور صرف اسلام اور مسلمان ہی کیوں بن رہے ہیں؟آخر ایسے لوگ مذہب اسلام اور مسلمانوں کے علاوہ دنیا کے دیگر مذاہب یا پیشواؤں پر اپنی ان گندی زبانوں کا استعمال کیوں نہیں کرتے؟
اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ان کا مقصد اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں مذہب اسلام کی تذلیل،ان کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین اور ان کے ماننے والے دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی تضحیک ہے۔
اس لئے مغرب کی طرف سے اظہار رائے کی یہ آزادی دوہری پالیسی اور کھلی ہوئی منافقت ہے جو دراصل اظہار رائے کی آزادی کے نام پر اظہارِ بغض و عداوت ہے۔
جس ملک میں ہولوکاسٹ پر کچھ بولنا یا تحقیق کرنا جرم ہو وہاں کائنات کی اس عظیم ہستی جو مسلمانوں کے لئے سب کچھ ہیں،جن کی ذات،شخصیت،شب وروز،پیدائش سے لے کر وفات تک کی تریسٹھ سالہ بےداغ و بےمثال زندگی اور ان کے جملہ اقوال و افعال مسلمانوں کے ایمان و عقیدے کا لازمی حصہ ہوں؛ان کے خلاف اظہار رائے کی آزادی کے نام پر گستاخانہ کارٹونوں کی اشاعت سراسر ابلیسی حرکت،شیطانی حربہ اور دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے تئیں اندر کے چھپے ہوئے غلیظ ترین بغض و عناد اور نفرت و عداوت کاہتھگنڈہ نہیں تو اور کیا ہے؟
مسلمانان عالم کی طرف سے ہم ایسے کارٹونسٹوں کو چیلنج کرتے ہیں کہ تم کسی کلاس روم یا کسی چوک چوراہے پر محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر کیا خاک علمی تحقیق یا تحقیقی نمائش کرتے ہو؛محسن انسانیت اور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت اور ان کے مذہب اسلام پر علمی تحقیق یا تحقیقی نمائش ہی کرنی ہے تو آؤ کھلے میدان میں،بلاؤ پوری دنیائے انسانیت کے اپنے مورخوں،مصنفوں،سائنس دانوں،خطیبوں،معلموں اور دانش وروں کو،اکٹھا کرو چودہ سوسال سے آج تک کی اپنی تمام تر جدید ترین ٹیکنالوجیوں کو،سجاؤ ایسا عالمی اسٹیج جسے مغرب تا مشرق اور شمال تا جنوب دنیا کا ایک ایک فرد لائیو دیکھے اور کہو اپنے تمام مدعووین سے کہ وہ تعصب و عناد کی عینک اتار کر انصاف کے ترازو میں پرکھ کر اپنی تمام تر تحقیق کے حاصل کا اعلان کرے کہ چودہ سو سال سے آج تک بلکہ کائنات کی پیدائش سے آج تک اس دھرتی پر محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم جیسی عظیم شخصیت پیدا ہوئی ہے؟
خدا کی قسم اگر آپ نے ایسا کیا تو آپ کے ہی اسٹیج سےبیک زبان آپ کے یہ سارے مؤرخین و محققین اعلان کردیں گے کہ دنیا کے تمام مذاہب میں مذہب اسلام اور تمام تر مذہبی شخصیات میں محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت سب سے بلند تر مقام پر فائز ہے۔دنیا نے آج تک اپنی پشت پر ایسی بےمثل و بےمثال شخصیت کا نظارہ نہیں کیا۔اس سے پہلے بھی دنیا کے لاکھوں غیر مسلم مورخوں اور سائنس دانوں نے بارہا اس کا اعتراف کیا ہے۔
لیکن ان سب کے باوجود اہل ایمان دنیا کے تمام مذاہب اور ان کے مذہبی پیشواؤں کا احترام کرتے ہوئے ان کی شان میں کبھی گستاخیاں نہیں کرتے اور بھارت کے ساتھ دنیا کے کسی خطے میں ایسا کوئی واقعہ پیش آجاتا ہے تو سب سے پہلے مسلمان ہی اس کی مذمت کرتے ہیں۔کیونکہ محسن انسانیت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ذریعے برپا کئے گئے دین مذہب اسلام نے اپنے ایک ایک ماننے والے کو توقیر آدمیت و احترام انسانیت کا خوبصورت درس دیا ہے۔
الحاصل فرانسیسی صدر کو چاہیے کہ وہ بلاتاخیر عالم اسلام سے معافی مانگے اور ایسے نازیبا حرکات کا ارتکاب کرنے والوں پر سخت ترین کارروائی کرے۔
ساتھ ہی عالم اسلام کے ساتھ تمام انصاف پسند ممالک،عالمی ادارے اور عالمی سرکردہ شخصیات سے اپیل ہے کہ وہ اس طرح کی بدترین دہشت گردانہ کارروائیوں پر روک لگانے کے لئے فوری طور پر مضبوط لائحہ عمل تیار کریں اور ایسے شرارتی عناصر کے خلاف عملی اقدام کریں۔تاکہ دنیا میں امن وامان باقی رہے اور عمل و رد عمل کے نتیجے میں شدت پسندانہ جذبات پر قدغن لگے۔نیز ہم حکومت ہند سے بھی اپیل کریں گے کہ ماضی میں ملک عزیز بھارت کی خارجہ پالیسی جس طرح سے غیر جانبدارانہ اور انصاف پر مبنی رہی ہےاور دنیا کے تمام مذاہب اور ان کے پیشواؤں کے تئیں جس احترام کی روایت رہی ہے؛اس پر عمل کرتے ہوئے ملک کے بیس کروڑ مسلمانوں بلکہ دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے اضطراب و دل آزاری سے حکومت فرانس کو آگاہ کیا جائے!
Comments are closed.