جھارکھنڈ اور دہلی ماڈل ✍️محمدشارب ضیاء رحمانی

جھارکھنڈ اور دہلی ماڈل

 

✍️محمدشارب ضیاء رحمانی

 

 

جھاں این ڈی اے براہ راست مقابلہ میں ہوتاہے،خاص کر ریاستی الیکشن میں،وہاں اسے کافی مشقت ہوتی ہے،جس جگہ مقابلہ سہ رخی ہوا،بی جے پی کے لیے راہ آسان ہوتی ہے-بہار میں بھی بی جے پی کی یہی کوشش ہے کہ مقابلہ سہ رخی بنایاجائے-چھوٹے چھوٹے موسمی اتحاد بی جے پی کے لیے یہی فیلڈنگ سجارہے ہیں-

 

 

ہمارے سامنے مجلس کا تلنگانہ ماڈل ہے،جھاں اپنے گھر اور گڑھ میں اللہ کے گھر کو اپنی قیادت نہ بچا پاتی ہے نہ بناپاتی ہے-کے سی آر کا چناوی جھولا مجلس تو ڈھوتی ہے لیکن کے سی آر کی فرقہ پرستی پر خاموشی، نرسمہارائو کو بھارت رتن دینے کی تجویز وہی اسمبلی منظور کرتی ہے لیکن سات بہادر ایم ایل اے کی دال نھیں گلتی،بہار میں دلیل دی جارہی ہے کہ ہم سرکار نھیں بناپائیں گے تو کم از کم پانچ دس ایم ایل اے مضبوط آواز تو بنیں گے، تو سوال یہی ہے کہ تلنگانہ میں یہ سات ایم ایل اے کتنی مضبوط آواز اٹھاتے رہے ہیں،یہ ہر کوئی دیکھ رہاہے-اوپر نرسمہارائو اور مساجد کی شہادت کی مثالیں دی گئیں،اکتوبر کے شروع میں سکریٹریٹ مساجد کی تعمیر شروع ہونی تھی اب نومبر شروع ہوچکاہے، پہلے بھی دو مساجد شہید کی گئیں،کہا‍ں ہیں نقیب ملت اور ان کے دوست؟

 

بنیادی سوال یہ ہے کہ تلنگانہ سے میں سات آٹھ ہی کیوں، وہاں پارٹی اور مسلم قیادت کی توسیع کا خیال کہاں چلاجاتاہے اور وہاں سے نکلتے ہی قیادت کی توسیع کے خواب آنے لگتے ہیں۔

 

بہار کے مسلمانوں کو جھارکھنڈ اور دہلی ماڈل اپناناچاہیے،جھارکھنڈ میں مجلس لڑی لیکن مسلمانوں نے چھوا تک نھیں،امیدواروں کی ضمانت ضبط ہوگئی، مسلمانوں کی ہوش مندی کا نتیجہ یہ ہواکہ بی جے پی کے سی ایم تک ہار گئے،بہار میں اخترالایمان سمیت تین چار سیٹو‍ں پر جیتنے کی پوزیشن ہو تو مجلس کو ووٹ دیناچاہیے،لیکن باقی سیٹوں پر جھارکھنڈ ماڈل اپنانا ہی واحد حل ہے،اسی طرح اویسی اتحاد کے کشواہا، مایاوتی کے امیدواروں کو تو کسی حال میں مسلم ووٹ نہیں ملنے چاہئیں،یہ سب بی جے پی کے ساتھ جائیں گے یا ووٹ کاٹیں گے،مزید دیگر چھوٹی پارٹیوں سے بھی احتیاط ضروری ہے-

 

دہلی کی مثال موجود ہے،یھاں کانگریس بھی تھی جس نے پندرہ سال حکومت کی،لیکن مسلمانوں نے ووٹ تقسیم نھیں ہونے دیا اور عقل مندی سے بی جے پی کو اقتدار سے کوسوں دور رکھا،یعنی ضروری نھیں ہے کہ ہرجگہ کانگریس کو ووٹ دیں،جس ریاست میں کانگریس کو مسترد کرناہو ضرور کریں،جیسے دہلی میں کیا-ہر ریاست کا الگ سیاسی منظرنامہ ہے،ووٹنگ اسی پر کرنی ہے، کسی ایک پارٹی کی اجارہ داری نہ ہو،بہار کی صورت حال کانگریس راجد اتحاد کا ساتھ دینے کی ہے-یقین ہے کہ اہل بہار بھی جھارکھنڈ اور دہلی کی مثالوں کو سامنے رکھ کر ہوش مندی کا مظاہرہ کریں گے،بہار میں سیدھامقابلہ این ڈی اے اور یوپی اے کا ہے، بی جے پی کی پوری کوشش سہ رخی بنانے کی ہے، جس کے بعد اسے آٓسانی ہوگی،مقابلہ سہ رخی نھیں ہونے دیناہے-ٹارگیٹ یہی رہناچاہیے،امیدوار اور ذاتی رنجش یا شکوہ کو بھلاکر پارٹی،ریاست اور ملک کی سیاست دیکھ کر فیصلہ لینا دانش مندی یے-

Comments are closed.