بلاسفیمی (BLASPHEMY) کا استعمال محمد صابر حسین ندوی

بلاسفیمی (BLASPHEMY) کا استعمال
محمد صابر حسین ندوی
7987972043
بلاسفیمی (BLASPHEMY) یہ ایک اصطلاح ہے، انسائیکلوپیڈیا کے مطابق اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی مذہب، دھرم یا اس سے متعلق مقدسات کا مزاق بنانے کی آزادی حاصل ہو- یہ خیال رہے کہ اس کے اندر افراد یا کسی کمیونٹی کو ٹارگٹ کرنا شامل نہیں ہوتا، اس میں وہ رویہ شامل نہیں ہے جس سے ایک پوری قوم کو ویسی ہی ثابت کیا جائے، بلکہ اسے صرف مقدس، عقیدت اور مذہبی امور تک محدود سمجھا جاتا ہے، یہ قانونی اعتبار سے تقریباً عموماً ممالک میں جرم ہے؛ ٢٠١٢ کی ایک تحقیق کے مطابق ٣٢/ ممالک میں اسے قانونی جرم سمجھا گیا ہے؛ جبکہ ٨٧/ ملکوں کے اندر بلاسفیمی کا کوئی قانون نہیں ہے البتہ آزادی رائے کے قانون کے تحت اسے مینشن کیا گیا ہے، سب سے زیادہ عرب ممالک میں بلاسفیمی کے خلاف قانونی کارروائی کی دفعات پائی جاتی ہیں، بلکہ ایران اور سعودی عرب میں پھانسی کی سزا تک رکھی گئی ہے، تو وہیں زیادہ تر ممالک میں جیل جانا پڑ سکتا ہے، انڈیا میں بھی دفعہ ٢٩٥/ کے تحت کارروائی ہوتی ہے، جس کے مطابق تین سال کی جیل یا پھر جرمانہ بھی ہوسکتا ہے، مگر دنیا میں کچھ ایسے ممالک بھی ہیں جہاں پر بلاسفیمی کی اجازت ہے، جیسے نیوزیلینڈ، فن لینڈ، کینیڈا اور اس میں فرانس بھی شامل ہے، یہ عجب اتفاق ہے کہ یہ وہ ممالک ہیں جنہیں ترقی یافتہ سمجھا جاتا ہے، دراصل مغربی ممالک میں ویسے بھی بلاسفیمی یا فریڈم آف اسپیچ (اظہار رائے کی آزادی) کے معنی یہی ہے کہ جو جیسا چاہے کرلے؛ لیکن فرانس نے انتہا کردی ہے، ایک طرف امریکہ مذہبی امور کو ذاتی معاملہ گردان کر چھوڑ دیتا ہے تو فرانس اسے نہ صرف ذاتی معاملہ بتاتا ہے؛ بلکہ ان کے یہاں یہ بھی قانون ہے کہ عوامی مقامات پر کوئی علامت اور کوئی نشانی ایسی نہ ہوگی جس سے کسی مذہب کی شناخت ہوتی ہو۔
اسی لئے ٢٠١١ میں وہاں نقاب پر بھی پابندی لگا دی گئی تھی، سڑکوں پر مذہبی عمارتوں سے علامات ہٹوا دئے گئے ہیں، کچھ سال پہلے سر پر ٹربن (جو خواتین سر پر کپڑے کی شکل میں باندھ لیتی ہیں جس سے چہرے کے علاوہ گردن وغیرہ کا بھی پردہ ہوجاتا ہے) رکھنے کو بھی گنوار نہ کیا گیا، اسی لئے بیچ (سمندری ساحل) پر ایک مسلم خاتون کو پولس نے باقاعدہ اسے اتروا دیا تھا، جس کی ویڈیو نے بڑی ہلچل مچائی تھی، یہ بھی سمجھنے کی بات ہے کہ فرانس ایک عرصے تک اپنی محدود آبادی میں مقید تھا؛ یہی وجہ ہے کہ اس طرح کے قوانین نے وہاں زیادہ اثر نہ ڈالا تھا، لیکن وہ افریقی جو فرانسیسی زبان رکھتے ہیں، جن میں متعدد نسلیں، مذاہب اور افکار کے لوگ شامل تھے انہوں نے بڑی تعداد میں ہجرت کر کے فرانس کی پناہ لی ہے، اصل بات یہی ہے کہ اسی ثقافتی تصادم نے اس بحث کو جنم دیا ہے؛ ورنہ فرانس کی اکثریت ملحد ہے، انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کیا ہوتا ہے اور کیا نہیں ہوتا، ایک تحقیق کے مطابق یہ کہا جاتا ہے کہ ٢٠٥٠ تک دنیا میں سب سے زیادہ ملحد فرانس میں ہی پائے جائیں گے. فرانس میں بلاسفیمی کے قانون کا استعمال وہاں کی عوام کرتی ہے، یہ ان کی تاریخ رہی ہے، کیتھولک چرچ کے خلاف بغاوت کے وقت ان کا ایک تاریخی کردار رہا ہے، جس کو وراثت سمجھتے ہوئے چارلی ہیبڈو میگزین نے اسے آگے بڑھایا، اس نے ٢٠٠٦ سے اشتعال انگیز کارٹون بنانے شروع کئے؛ لیکن یہ سب سے زیادہ منظر عام پر ٢٠١٥ میں آئے؛ جب ان کے آفس بھی کچھ لوگوں نے حملہ کردیا تھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کا انتقام لیا تھا، اب انہوں نے اپنے آفس کا لوکیشن بدل لیا؛ لیکن حرکت اب بھی وہی قائم ہے، وہاں کی حکومت اسے سپورٹ کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ جب ایک ٹیچر نے انہیں کارٹون کا استعمال کیا اور اسے قتل کردیا گیا تو حکومت نے اسے سرکاری عمارت پر چسپاں کیا اور یہ بیان دیا؛ کہ آزادی رائے پر حملہ فرانس پر حملہ ہے۔
بہرحال بلاسفیمی کی تاریخ اور حقیقت کا جائزہ لیا جائے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ انسانیت سے بغاوت اور فطرت سے سرکشی کا ایک طریقہ رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ صرف مسلمان ہی نہیں؛ بلکہ عیسائی اور اس وقت یہودی، ہندو، بدھ ازم اور سکھ اسے جرم قرار دیتے ہیں اور اپنی روایات و مقدسات کے تئیں حساس نظر آتے ہیں، سچ پوچھیں تو اسلام کا عمومی مزاج بھی ہے کہ انسان کو فکر و خیال کی آزادی ہو؛ لیکن اس کی قید یہ ہے کہ وہ کسی کو ٹھیس نہ پہنچائے، افسوس کی بات یہ ہے کہ دنیا میں ایک پروپیگنڈہ کے طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے خود فرانس میں چارلی ہیبڈو کے ہی ایک شخص نے یہودیوں کی توہین کی اور اس نے معافی نہیں مانگی تو اسے منحرف کردیا گیا، آج بھی لوگ ہولو کاسٹ پر بات نہیں کرنا چاہتے، تاریخ میں یہودیوں کے تاریک کردار اور عیسائیوں کی بربریت پر زبان کھول دی جائے تو اسے جرم سمجھتے ہیں، اس کی تازہ مثال ترکی کا ارطغرل ڈرامہ ہی لے لیجئے! یاد ہوگا کہ کس طرح یورپ نے مخالفت کی اور اسے عیسائیت کے خلاف بتایا، ہندو اپنے مقدسات کیلئے اتنے بے چین ہیں کہ ایک جانور کی وجہ سے انسان کو مار دیتے ہیں؛ حالانکہ ان کی منافقت صاف نظر آتی ہے کہ کیسے گوا، میزورم، ناگالینڈ جیسے صوبوں میں کھلے اس مقدس جانور کو کاٹا جاتا ہے؛ جبکہ بعض حصوں میں اس پر پابندی لگائی جاتی ہے، سکھوں کی پگڑی کو کوئی چھو نہیں سکتا، مگر یہ جائز ہے کہ مسلمانوں کے مقدسات کی توہین کی جائے – حقیقت یہ ہے کہ جس طرح تاریخ میں بلاسفیمی کا غلط استعمال کیا گیا اور اپنی سیاست و من مانی اور خواہشات کیلئے اسے روا رکھا اسی طرح آج بھی اسے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
Comments are closed.