امریکہ کا نیا صدراور مسلمان ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز، ایڈیٹر گواہ اردو ویکلی‘ حیدرآباد

امریکہ کا نیا صدراور مسلمان

ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز، ایڈیٹر گواہ اردو ویکلی‘ حیدرآباد۔ فون:9395381226

امریکہ کا اگلا صدر ٹرمپ یا بائیڈن‘ اس کا فیصلہ بہت جلد ہوجائے گا۔ اصولی طور پر بائیڈن الکٹرول ووٹس کی اساس پر ٹرمپ سے آگے ہیں‘ مگر ٹرمپ نے اپنی جیت کا دعویٰ کیا ہے! جو بھی ہو نئے صدر کے انتخاب کے بعد عالمی سیاست پر اس کے کیا اثرات ہوں گے‘ اس پر بحث کی جارہی ہے۔ جبکہ ہمارے لئے اس بات کی اہمیت ہے کہ نئے امریکی صدر کی مسلمانوں سے متعلق پالیسی کیا ہوگی؟ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ کوئی بھی امریکی صدر مسلمانوں کا ہمدرد نہیں رہا۔ حتی کہ بارک حسین اوباما کے نام سے حلف لینے والے پہلے بلیک امریکن صدر سے بھی مسلمانوں کو مایوسی ہوئی۔ جامعہ ازہر کی تاریخ ساز تقریر سے خوش کرنے والے مسلمانوں کو بہت جلد پتہ چل گیا کہ قول اور فعل میں تضاد کس کو کہتے ہیں۔ جہاں تک عرب ممالک کا تعلق ہے‘ سوائے شاہ فیصل سعید کے کسی بھی عرب یا مسلم ملک کے سربراہ نے امریکہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کیا۔ اس شیر دل سعودی حکمران کو کہا جاتا ہے کہ امریکہ نے انہی کے بھتیجہ کے ہاتھوں 1975ء میں شہید کروادیا تھا۔ انہوں نے قبلہ اول کی بازیابی کے لئے 1973ء میں امریکہ کو تیل کی سربراہی بند کردی تھی۔ جس سے تیل کا خطرناک بحران پیدا ہوگیا تھا۔ اس کے بعد جو بھی حکمران آئے، انہوں نے امریکہ کی بالادستی تسلیم کرلی۔ اور اپنی مسند شاہی کی بقاء کے لئے دوسرے مسلم ممالک کو کمزور کرنے کے لئے تیل اور دولت دونوں سے نوازتے رہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران سوائے ترکی کے سبھی مسلم ممالک کے سربراہوں نے امریکہ کو اپنا محافظ سمجھ رکھا ہے۔ ترکی کے موقف کا جواب آگے چل کر کیسے دیا جاسکتا ہے‘ اس کا کسی حد تک اندازہ بھی ہے‘ اندیشہ بھی۔ رونالڈ ریگن کے دور میں جبکہ سوویت یونین صحیح سالم موجود تھا‘ اُسے ختم کرنے کے لئے طالبان کو ایک نئی طاقت کے طور پر تیار کیا گیا۔ افغانستان میں روس نواز نجیب اللہ کو جب طالبان نے سرعام پھانسی پر لٹکایا‘ کچھ عرصہ بعد ان کی اپنی حکومت قائم ہوئی تو پھر یہی طالبان آنکھوں میں کھٹکنے لگے۔ القاعدہ اور اس جیسے کئی دہشت گرد تنظیموں کے صفائے کے نام پر عراق، افغانستان کو تباہ کردیا گیا۔ بش باپ بیٹے، کلنٹن، اوباما اور پھر ٹرمپ ان سب کے دور میں عالم اسلام کو بہت زیادہ نقصان پہنچا۔ دہشت گردی سے جنگ کے نام پر بوسنیا، چیچینیا، عراق، افغانستان کسی حد تک ایران کی معیشت کو تباہ کردیا گیا۔ ان کی مسلم ممالک کے تیل اور گیاس کے ذخائر پر رہی۔ انہوں نے بعض ممالک کو تحفظ فراہم کرنے کے بہانے وہاں اپنے اڈے قائم کردیئے اور اُن ممالک کے تقریباً ہر شعبے میں اپنے شہریوں کو اہم عہدوں پر فائز کردیا۔ ایک طرف سے نہوں نے عرب ممالک کے بیشتر حکمرانوں کو اپنا یرغمال بنارکھا ہے۔عیش و عشرت کے عادی یہ حکمران تاوان ادا کرتے جارہے ہیں۔ چاہے وہ کسی اور نام سے کیوں نہ ہوں۔ امریکی صدور نے حالیہ عرصہ کے دوران کے 15-20برس کے وقفہ کے بعد مالی بحران کا رونا روتے ہوئے عرب ممالک سے کئی کئی کھرب ڈالرس کی امداد حاصل کرلی ہے۔ اور ایک طرح سے ان ممالک سے کنگال بناکر رکھ دیا ہے۔ ایک مسلم ملک کو دوسرے ملک کا خوف دلاکر انہیں ہتھیار بھی فروخت کرتا ہے۔ اور خود ہی اِن ممالک کے درمیان جنگ یا اِن ممالک کے اندر خانہ جنگی کی اسکرپٹ لکھتا ہے۔ایک طرف امیر مسلم ممالک کے سربراہوں سے امریکی صدور دوستانہ تعلقات رکھتے ہیں‘ دوسری طرف انہی ممالک کے شہریوں کو کسی نہ کسی دہشت گرد تنظیم سے وابستہ قرار دیتے ہیں۔ اور غریب مسلم ممالک کے خ لاف ان کا رویہ انتہائی امتیازی اور جانبدارانہ ہوتا ہے۔ چند برس پہلے بہارِعرب Arab Spring کا دنیا نے مشاہدہ کیا۔ لیبیاء، یمن،تیونس،بحرین، شام اور مصر میں جو کچھ حالات پیش آئے اس کے محرکات کچھ مقامی ضرور تھے مگر ان ممالک میں کس طرح سے تخے الٹے گئے، سربراہوں کو مارا گیا یا فرار ہونے کے ئلے مجبور کیا گیا اس میں کہیں نہ کہیں خود ساختہ سوپر کا عمل دخل ضرور رہا۔ عراق کے صدر صدام حسین کے ساتھ جو سلوک کیا گیا جس طرح عراق اور افغانستان کو کھنڈر بنادیا گیا۔ جس طرح سے عوام کے ہاتھوں کرنل قزافی کا قتل کیا گیا۔ اُسے امریکہ نواز بھلے ہی انقلاب یا بہارِعرب قرار دے مگر زندہ ضمیر مورخین اُسے امریکہ کی جلادیت ہی لکھیں گے۔ 9/11 کس نے کروایا؟ یہ خود امریکہ جانتا اور یہودی لابی، مگر دنیا بھر کے مسلمانوں کو نفسیاتی طور پر پسپا کرنے ان کے عالمی بائیکاٹ کی ایک منظم سازش تھی۔ 20بعد بھی اس کے اثرات کم نہیں ہوئے۔ مسلمانوں سے متعلق جو نفرت مغربی ممالک کے عوام کے ذہنوں پر نقش ہوچکی ہے‘ وہ وقت کے ساتھ ساتھ اور بھی ابھرنے لگی ہے۔9/11 کے بعد کی مسلم نسل نے امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک میں جو بھی دیکھا اپنے خلاف دیکھا۔ انہوں نے یہودی اور عیسائیوں کی آنکھوں میں اپنے لئے نفرت،حقارت دیکھی۔اپنے ساتھ کئے جانے والے امتیازی سلوک کے پس منظر میں وہ پروان چڑھے۔ فرانس، ڈنمارک جیسے ممالک نے مسلم دشمن پالیسی اختیار کرتے ہوئے جہاں مسلمانوں کو مشتعل کیا وہیں دنیا کے سامنے مسلمانوں کو دہشت گرد تخریب پسند کے طور پر پیش کرنے میں کامیابی حاصل کی۔9/11 کے بعد بعض مخصوص نام کے حامل افراد کے ساتھ ایرپورٹس پر امتیازی سلوک‘ ان کے مذہبی تشخص پر شک و شبہات اور غیر ضروری قانونی کاروائیوں نے مسلمانوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔ دولت مند مسلم ممالک تماشائی بنے رہے۔ ان کی مجرمانہ خاموشی نے دورے ممالک کو مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک اختیار کرنے کی ترغیب دی۔

جہاں تک امریکہ کے 46ویں صدر کے انتخاب کا تعلق ہے اگر ٹرمپ دوسری میعاد کے لئے منتخب ہوجاتے ہیں تو اگلے پانچ برس تک انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اپنی پہلی میعاد میں کافی نقصان پہنچا چکے ہیں۔ ان کی کامیابی میں مخالف مسلم پالیسی کا اہم رول ہے۔ سات مسلم ممالک کے شہریوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی کے حکمنامہ جاری کیا تھا۔ اگر بائیڈن منتخب ہوجاتے ہیں تو یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ وہ مسلم دوست ثابت ہوں گے۔ اوباما کے نائب کی حیثیت سے مسلم دشمن پالیسیوں میں ان کابڑا اہم کردار رہا ہے۔ اگرچہ کہ انتخابی مہم کے دوران انہوں نے اس بات کی کوشش کی کہ وہ سے زیادہ مسلم ووٹرس تک پہنچ سکے۔ اور ڈیموکریٹک پارٹی میں شامل بااثر مسلمانوں نے اس بات کی کوشش کی کہ کم و بیش 150 ایے پروگرامس منعقد کی جائے جس میں ٹرمپ کو امریکن مسلم کیلئے سب سے بڑا خطرہ ثابر کیا جائے تاکہ بائیڈن کے لئے راہ ہموار ہوسکے۔ انہوں نے امیت جانی کو بائیڈن کی انتخابی مہم سے دور رکھنے میں کامیابی حاصل کی۔ کیوں کہ امیت جانی کے پتا سریش جانی اور نریندر مودی لڑکپن کے ساتھ رہی۔ دونوں ہی نے ایک ساتھ آر ایس ایس میں شمولیت اختیار کی تھی۔ 1990ء میں جب مودی نے پہلی بار امریکہ کا دورہ کیا تھا‘ تو جانی نے ہی جان ایف کینیڈی ایرپورٹ پر اس کا استقبال کیا تھا۔ اس کے علاوہ امریکہ میں آر ایس ایس اوورسیج برانچ کا بانی بھی یہی رہا۔ امیت جانی بائیڈن کے حلقہ میں شامل تھا۔ جس کی ڈیموکریٹ مسلمانوں نے مخالفت کی۔

بائیڈن نے ٹرمپ کی جانب سے سات ممالک کے شہریوں کی امریکہ میں داخلے سے پابندی کے متعلق حکم نامہ کو منسوخ کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ مگر اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہی ہوگا کہ امریکہ ہو یا کوئی اور مغربی ملک اُسے اقتدار کے لئے مسلم مخالفت ضروری ہے۔ مسلم دشمن پالیسی صرف ٹرمپ، کلنٹن، بش، یا اوباما تک محدود نہیں کیا۔ اس کی تاریخ1500سالہ قدیم ہے۔ ہر دور میں مسلمانوں کی مخالفت کی جاتی رہی۔ ان کی حکومتوں کو ختم کرنے کی سازشیں ہوتی رہیں۔ امریکہ ہو یا برطانیہ، فرانس ہو یا ڈنمارک یا کوئی اور ملک انہوں نے مسلمانوں کی اچھائیوں کو برائیوں میں بدل کر پیش کیا۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں‘ اب سے ٹھیک 100سال پہلے ترکی میں خلافت اسلامیہ کو ختم کیا گیا تھا۔ اس کے لئے دنیا پر عظیم جنگیں مسلط کی گئیں۔ خلافت اسلامیہ کے خاتمہ کے لئے غدار مسلم قبائلی سرداروں کو استعمال کیا گیا۔ 100برس بعد ترکی میں ایک بار پھر مجاہد اپنے ماضی کی عظمتوں کی بحالی کے عزائم کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا ہے جسے قبلہ اول سے محبت بھی ہے‘ عقیدت بھی۔ جس کی بازیابی کے لئے وہ ہر قربانی دینے کے لئے تیار ہیں۔ امریکی صدور نے سب سے زیادہ مسلمانوں کو ٹھیس پہنچائی مسئلہ فلسطین پر۔ ٹرمپ نے اس کی انتہا کی۔جب امریکی سفارتخانہ کو اس نے یروشلم میں منتقل کیا۔ بائیڈن اگر صدر منتخب ہو بھی جائیں تو وہ ٹرمپ کے اس فیصلے کو بدل نہیں سکتے۔ بہرحال دنیا بھر کے مسلمانوں کے ساتھ امریکہ کی جو بھی پالیسی ہو‘ وہ اپنی جگہ۔امریکہ میں جو مسلمان ہیں وہ عزت، وقار کے ساتھ رہیں‘ انہیں ترقی کے مساوی مواقع حاصل ہوں‘یہی کافی ہے۔ حالات اگرچہ سازگار نہیں ہیں‘ مگر مایوسی کفر ہے۔ اللہ رب العزت کی ذات سے اچھی امیدیں رکھنی چاہئے۔ جو بھی ہوگا انشاء اللہ اچھی ہی ہوگی….!

Comments are closed.