کیاہندوستان میں تعلیم وحکومت صرف برہمنوں کا حق ہے ؟

✒️ :عین الحق امینی قاسمی
ہندوستان وہ ملک ہے جہاں کی یگانگت اور بھائی چارہ بہت مشہور رہا ہے ،یہاں کی گنگا جمنی تہذیب کی مثال دی جاتی رہی ہے ،اس کی تعمیر وترقی میں سبھوں نے اپنا پسینہ بہایا تو مسلمانوں نے اپنے خون کا نذرانہ پیش کر ہندوستان کو ستاروں کی بلندی پر لے جانے کا تاریخی کام انجام دیا ،آزادی کے بعد جب ملک کے تانے بانے بکھرے پڑے تھے، تب سب سے پہلے مسلمانو ں نے بھاری دان دے کر اس کو مالی استحکام بخشنے کا کام کیا ۔گو یا جس ملک کو مسلمانوں نے جان ومال کی قربانی اور پھانسی کے پھندوں میں اپنی لاشوں کو جھلاکر ملک کو بچانے کا کام کیا ،آج اسی ملک سے مسلمانوں کے علمی نشانات سمیت ان کے تاریخی اور مثالی کارناموں کو مٹانے پر موجودہ متعصب طاقتیں تلی ہوئی ہیں ۔
کبھی جامعہ ملیہ تو کبھی اے ایم یو کے اقلیتی کردار کو نشانہ بنایا جاتا ہے ۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ وہ دارالعلوم دیوبند جہاں سے جہاد آزادی کا بگل بجا اور جو مجاہدین آزادی کے لئے چھاؤنی بن کر انگریزوں کے خلاف پلاننگ کرتا رہا ،وہ دارالعلوم بھی آج ملک دشمنوں کی آنکھ کا کانٹا بنا ہواہے ،اس کے خلاف نفرتوں کے تانے بانے بنے جارہے ہیں ۔تعصب پرست سرکار نے ذاکر نائک کے تعلیمی مشن تک کو تہ وبالا کرنے کے بعد سہارنپور میں BSP سے وابستہ حاجی اقبال کے کالج اور SP کے اعظم خان یعنی مولانا محمد علی جوہریونیورسٹی کو منہدم کرنے کے بعد علم کی دشمن بھاجپا کی یوگی سرکار، کانگریس کے ممبر اسمبلی عارف مسعودکے اسکول و کالج کو اب منہدم کروارہی ہے۔گذشتہ دنوں دن کے اجالے میں غیر قانونی کے نام پر عتیق انصاری کے مکانات اور دفتروں کی جو درگت بنائی گئی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔
سوال یہ ہے کہ آخر ملک دشمن حکومت کا منشاء کیا ہے ،وہ کیوں مسلمانوں کے وجود کو نشانہ بناکر دریدہ دہنی کا ثبوت دے رہی ہے ،تعلیم گاہوں سے تمام قوموں کی نسلوں کا علمی رشتہ جڑا ہوا ہوتا ہے ،کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ علم دشمن حکومت، ملک کو جہالت کی طرف لے جا کر منو اسمرتی کے ساشن کو لاگو کر ایک بار پھر ملک کو غلامی کی طرف لے جانے کی ناپاک کوشش کررہی ہے ؟
حالیہ دنوں میں جامعہ ملیہ نے ملک میں جو منفرمقام اور اولین رینک حاصل کیا ہے ،ایک میڈیا کے ذریعے اسے دہشت گردوں کی آماجگاہ تک قرار دے دیا گیا ،اس سے افسوسناک اور کیا ہوسکتا ہے ،مسلم نوجوانوں کے ساتھ تمام شعبوں میں جو سوتیلا رویہ اپنا یا جارہا ہے اور اسے نظر انداز کرنے کی جو چال چلی جارہی ہے یا کسی بھی ناخوشگوار معاملے کا ذمہ دار مسلم کمیونٹی کو ٹھہرا دیا جا رہا ہے ،اس سے تو یہی پیغام دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ مسلمانوں کے لئے ہندوستان کی زمین پر گنجائش نہیں ہے۔
سیاست ،معیشت اور تعلیم روزگار میں مسلمانوں کو مفلوج بنا کر موجودہ حکومت ،نہ ملک کابھلا کر رہی ہے اور نہ ملک کے باشندوں کے بارے میں بھلا سونچ رہی ہے ،یہ در حقیقت ملک کو کمزور کرنے اور برہمن وادی کے نظریئے کے تحت دیگر اقوام کو ذہنی وفکری غلامی کی طرف لے جانے کی سوچی سمجھی سازش کررہی ہے ،برہمن واد ی ذہنیت اگر اپنی کوشش میں کامیاب ہوجاتی ہے تو مسلمانوں پر تو جو ظلم وستم کا پہاڑ ٹوٹے گا وہ اپنی جگہ ،مگر اس کے اثرات سے ہندوستان کی دیگر برادی کے لوگ بھی خون کے آنسو رونے پر مجبور ہوں گے ،ان کی نسلیں اپنے پروجوں سے اس کا سوال ضرور کریں گی کہ مسلمانوں کے وجود سے ہم مستحکم تھے ،ہم محفوظ تھے ،ہمیں ان کی موجود گی سے قوت ملتی تھی ،ہم پھل پھول رہے تھے ،آخر ہمارے آباؤ اجداد نے مسلمانوں کا ساتھ کیوں نہیں دیا اور مسلمانوں کے ساتھ ہورہے ظلم وزیادتی پر ہماری دلت ،مہادلت اور پچھڑی ذاتیوں نے کیوں نہیں آواز میں آواز ملاکر امن کے داعی مسلم سماج کی حمایت میں اپنی آواز بلند کی ؟
جہاں تک مسلمانوں کو دبانے اور اسے کمزور کرنے کی سازش کا تعلق ہے تو ان بدخواہوں کو جان لینا چاہئے کہ مسلمان وہ قوم ہے ،جس کو ہزار کوششوں کے باوجود مٹایا اور یہاں سے بھگایا نہیں جاسکتا :
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتناہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دباؤ گے
یہ قوم حالات سے مقابلے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتی ہے اور ہمیشہ اس نے باد مخالف کا مقابلہ کر اپنے وجود کا احساس کرایا ہے :
ستیزہ کا ر رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرار بو لہبی
باطل پرست بد قماش طاقتوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ مسلمان کا بچہ بچہ ،ظلم وستم کے تحمل کا پیدائشی طور پر عادی ہوتا ہے ،اس کے لئے ظلم وعدواں کو پیروں سے کچلنا روز مرہ کا کام ہے :
یونان ومصر روما سب مٹ گئے جہاں سے
اب تک مگر ہے باقی نام و نشاں ہمارا
کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری
صدیوں رہا ہے دشمن دورِ زماں ہمارا
باطل اپنی روش بدل لے ، ورنہ ہمارے سر سے جب پانی اونچا ہوگا ،اور ہمارے حوصلوں کو چیلنج کیا جائے گا ،تو ہم موت کو گلے لگانے سے بھی نہیں کتراتے ،اس لئے ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ :
مبارک ہو تجھ کو حکمرانی، مخالفت بھی ہم نہ کریں گے
ہمارے وجود پہ ہاتھ ڈالا، تو تم رہو گے نہ ہم رہیں گے
Comments are closed.