مؤمنين کا ایک بڑا بت–!! محمد صابر حسین ندوی

مؤمنين کا ایک بڑا بت–!!
محمد صابر حسین ندوی
[email protected]
7987972043
کلمہ طیبہ کا اقرار کرلینے کے بعد بھی ایک انسان پوری طرح مؤمن نہیں ہوپاتا؛ کیونکہ اس کے دل میں وحدانیت کی حقانیت کماحقہ سرایت نہیں کرتی، وہ اعمال صالحہ میں صالحین کو معیار جاننے کے بجائے آباء و اجداد اور خاندانی روایات کا پاسدار ہوتا ہے، وہ گویا اسی کو معیار جانتے ہوئے حق کو اسی پر تولتا ہے، بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ وحدہ لاشریک کہہ کر بھی اس کے ساتھ شریک کرلیتا ہے، یہ مانتے ہیں کہ سبھی کچھ اللہ کی طرف سے ہے اور اسی جانب لوٹ جانا ہے، صراط مستقیم صرف اور صرف اسی کے احکام کی اتباع و اطاعت میں ہے، اس کے باوجود رہ رہ کر باپ داد کی باتیں کرنا اور اسے فوقیت دینا بھلا کیا کہلائے گا؟ کفار قریش کا بھی یہی حال تھا؛ بلکہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی دعوت اور ان کی قوموں کی طرف سے ملنے والے جوابات میں یہی عنصر غالب نظر آتا ہے کہ ہم اپنے آباء و اجداد کے راستے کو کیونکر چھوڑ دیں، وہ تو اس راستے کو دین بھی قرار دیتے تھے، اسی فکر نے نہ جانے کتنوں کو حق کی راہ سے محروم رکھا، قرآن مجید نے اس خطرہ کو بھانپا ہے، اور مؤمن کے دل میں موجود اس بت کو توڑنے کا حکم دیا ہے، ایک مقام پر ارشاد ہے: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْۤا اٰبَآءَکُمْ وَ اِخْوَانَکُمْ اَوْلِیَآءَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْکُفْرَ عَلَی الْاِیْمَانِ ؕ وَمَنْ یَّتَوَلَّہُمْ مِّنْکُمْ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ-(توبہ:٢٣)”اے ایمان والو! اگر تمہارے باپ دادا اور بھائی ایمان پر کفر کو ترجیح دیں تو ان کو دوست نہ بناؤ اور تم میں سے جو لوگ انھیں دوست بنائیں گے، وہی زیادتی کرنے والے ہوں گے”- پھر بھی دل کا چور نہ مانتا ہو تو اسے اللہ تعالی کا یہ فرمان سنا دیجیے! قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَ اَبْنَآؤُکُمْ وَ اِخْوَانُکُمْ وَ اَزْوَاجُکُمْ وَ عَشِیْرَتُکُمْ وَ اَمْوَالُۨ اقْتَرَفْتُمُوْہَا وَ تِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَ مَسٰکِنُ تَرْضَوْنَہَاۤ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللہ وَ رَسُوْلِہٖ وَ جِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللہ بِاَمْرِہٖ ؕ وَ اللہ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ-(توبہ:٢٤) "(اے رسول !) آپ کہہ دیجئے، اگر تمہارے باپ دادا، تمہاری اولاد، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں، تمہارا خاندان، مال و اسباب جن کو تم نے حاصل کیا ہے، (تمہاری) تجارت جس کے بیٹھ جانے کا تمہیں ڈر لگارہتا ہے اور وہ رہائش گاہیں جنھیں تم پسند کرتے ہو، اگر تمہیں اللہ، اس کے رسول اور اس کے راستے میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہوں تو انتظار کرو؛ یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ جاری کردیں اور اللہ نافرمانی کرنے والوں کو ہدایت نہیں دیتے”۔
استاذ گرامی فقیہ عصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی مدظلہ رقمطراز ہیں:” اس آیت کا پس منظر یہ ہے کہ جب مسلمانوں کو ہجرت کا حکم دیا گیا تو بعض اوقات بیٹا تیار ہوگیا، باپ نے ہجرت کرنے سے انکار کردیا، باپ تیار ہوگیا اولاد تیار نہیں ہوئی، شوہر ہجرت پر آمادہ تھا اور بیوی آمادہ نہ تھی، یہ بھی فکر دامن گیر تھی کہ ہجرت کی بنیاد پر مکہ کے گھر جائیداد سے محروم ہوجائیں گے، یہ صورتِ حال بعض لوگوں کے لئے ہجرت سے رکاوٹ کا باعث بن رہی تھی، ان ہی افکار کو قرآن نے کفر کے لفظ سے تعبیر کیا ہے کہ اگر تمہارے متعلقین ایمان پر کفر کو ترجیح دینے لگیں؛ یعنی ہجرت نہ کرنے کا کافرانہ عمل کریں تو تمہاری ان سے دوستی نہیں ہونی چاہئے؛ بلکہ اللہ کی اور اس کے رسول کی محبت ان تعلقات اور دنیا کے مال و متاع کی محبت پر غالب ہونی چاہئے — ’اللہ اپنا فیصلہ جاری کردیں‘ سے مراد یہ ہے کہ عنقریب مکہ فتح ہوجائے گا اور جن لوگون نے ہجرت نہیں کی ، ان کو پچھتاوا ہوگا ۔” (آسان تفسير قرآن مجید) مولانا وحید الدین خان رقمطراز ہیں:”ایک عربی شاعر کا شعر ہے کہ جب حزام کوئی بات کہے تو اس کو مان لو، کیونکہ بات وہی ہے جو حزام کہے:
اذا قالت حزام فصدقوها
فان القول ما قالت حزام
بڑوں کی پرستش کا مزاج لوگوں میں پہلے بهی پایا جاتا تها، اور آج بهی پایا جاتا ہے- اپنے بڑے یا اپنے قبیلہ کے لوگ جو کہیں اس کو صحیح سمجهہ لینا- خواه اس کے حق میں دلیل موجود نہ هو- مگر یہ سراسر جاہلیت ہے- صحیح یہ ہے کہ ہر بات کو دلائل پر جانچا جائے- ہر اس بات کو رد کر دیا جائے جو دلیل کی کسوٹی پر پوری نہ اترے- اور صرف اسی بات کو مانا جائے جو دلیل کی سطح پر ثابت هو رہی هو- ڈائری 26 دسمبر 1983-” واقعہ یہی ہے کہ حق کا معیار آباء و اجداد نہیں؛ بلکہ قرآن و سنت ہیں، اگر کوئی مؤمن ہو کر بھی یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ اپنے سے پہلوں کی باتیں مذکورہ دونوں پیمانوں پر جانچے بغیر بہرحال درست ہیں اور انہیں کورانہ طور پر اپنا لیتا ہے تو بلاشبہ وہ حق کی راہ سے منحرف ہوا جاتا ہے، اور اپنے میں وحدانیت کا سرا کمزور کئے جاتا ہے، اور کہہ سکتے ہیں کہ سینہ میں اپنا منفرد بت پروان چڑھائے جاتا ہے۔
Comments are closed.