Baseerat Online News Portal

” بے گانے کی شادی میں عبداللہ دیوانہ ”   نور اللہ نور

” بے گانے کی شادی میں عبداللہ دیوانہ ”

 

نور اللہ نور

 

ہمارا المیہ یہ ہوتا جا رہا ہے کہ اپنی صلاحیتوں اور کمالات پر منحصر ہونے کے بجائے دوسروں کی بیساکھی پر زیادہ معتمد نظر آتے ہیں؛ خود کی استحکام و مظبوطی پر توجہ دینے کے بجائے غیروں کی کامیابی پر فرحاں و شاداں رہتے ہیں۔

گزشتہ چند برسوں میں ہم نے جتنی توانائی غیروں کو فراہم کی ہے اگر ان ہی صلاحیتوں استعدادوں کو اپنی زبوں حالی ؛ و توانگری کے علاج کے لیے بروئے کار لاتے تو ہم ان سے کہیں زیادہ مظبوط و منظم ہوتے اور یوں ہم کسی کے رحم پر جینے کے بجائے خود صاحب مسند ہوتے۔

مشاہدہ سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے ہم نے اپنے مضرت و منفعت سے بے خبر ہمیشہ ایسے لوگوں کو استحکام بخشا ہے جنہوں نے ہمیں ملکی و عالمی دونوں سطح پر متزلزل و منتشر کیا ہے اور ان ہی قوت کا استعمال ہماری ہی بیخ کنی کے لیے کیا ہے؛ ہم نے جن پر تکیہ کیا انہوں نے ہی ہماری امیدوں کا خون کیا اور ہمیں استعمال کیا۔

حال ہی میں امریکہ میں صدارتی انتخاب ہوا جس میں ایک طرف "ٹرمپ” اور دوسری طرف نو منتخب صدر ” جو بائیڈن ” تھے جن کو وہاں کی عوام نے اگلے پانچ سال کے لیے صدر منتخب کیا۔

اس جیت کا جشن تو پورے امریکہ میں منایا گیا پورے امریکہ میں خوشی کا سماں بندھا ہوا تھا لیکن مجھے لگتا ہے کہ جتنا وہاں کی عوام نہیں خوش تھی اس سے کہیں زیادہ مسلمان خوش اور پر جوش تھے اور تعریف و ستائش کی سوغات نچھاور کیے جا رہے تھے ۔

ان کا خیال ہے کہ ٹرمپ کی شکشت سے تمام شر کے دروازے مقفل ہو جائیں گے اب ہمہ جہت امن و سکون کا قیام ہوگا اور جو بائیڈن کی نرم گفتاری اور عالم اسلام کے تئیں محبت و عقیدت کے جھوٹے سحر میں اس قدر گر فتار ہو گئے ہیں کہ ان کا خیال ہے اب یہ تو ساری دنیا کا نقشہ بدل دے گا اور عالم اسلام کے لئے مفید و کارگر ہوگا جب کہ حقیقت میں اس کی گفتگو ملمع سازی اور کذب بیانی کے سوا کچھ نہیں۔

اگر وہ آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتا ہے اور عالم اسلام کے تئیں نرم رویہ و خوشحالی کی یقین دہانی کراتا ہے تو اس میں تعجب خیز امر کیا ہے ؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہی کچھ ایسی ہے کہ بد باطن اور اسلام مخالف بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اس لئے اگر وہ دو چار حدیث سنادے تو اس کا قطعا یہ مطلب نہیں ہے کہ عملی زندگی میں بھی اس کو عملی جامہ پہنائے کیونکہ کہ یہ بد باطن لوگوں نے ہمیشہ تعلیم رسول کے منافی عمل کیا ہے اور ایذا پہونچائی ہے ۔

اور رہی بات عالم اسلام سے اخوت و رواداری اور ہمدردی کی تو یہ ” ابھی ابتداء عشق ہے "آگے سب کچھ عیاں خود ہی ہو جائے گا۔

جو لوگ "جو بائیڈن ” کی فتح کو نیکی فالی سمجھ رہے ہیں اور اس کی جیت پر مسرور ہیں انہیں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ وہ شر انگیزی اور اسلام دشمنی میں گزشتہ صدور سے زیادہ سخت ہے جس کا ترکی کے بارے میں موقف ہے کہ ” ہم اسے جنگ کے ذریعہ دیکھ لیں گے ” اس کی عصبیت کا اندازہ اسی جملے کر سکتے ہیں گزشتہ صدور اور اس میں بس اتنا فرق ہے کہ ان کی شرارتیں واشگاف ہوگئ تھی اور اس کی خباثتوں کا ابھی کسی کو علم نہیں لیکن بر وقت یہ بھی اپنا رنگ ضرور دکھائےگا۔

 

جس کی زبان سے ہم حدیث رسول سن کر ہم خیر کی توقع کر رہے ہیں در حقیقت یہ بھی امریکی اور مغربی اسلام مخالف تحریک میں برابر کا شریک ہے اور اس کی فطرت میں شر کا پہلو غالب ہے۔

نو منتخب پریسڈینٹ اوف امریکہ نے سابق صدر جارج بش ( جس کی اسلام دشمنی جگ ظاہر تھی ) اس کی معیت میں کام کیا ہے اور اوبامہ جس نے ظاہراً تو نہیں لیکن خفیہ طور پر عالم اسلام کو زک پہنچائی ہے اس کے ساتھ بھی اس کی نشست و برخاست تھی اور بلکہ موجودہ انتخاب میں اوبامہ نے ٹرمپ کے مقابل میں اس کی حمایت کی تھی اور تعاون دیا تھا اور یہ بھی اسلام مخالف مغربی تحریک کو فروغ دینے والا ہے نہ کہ مسلم کے تئیں وفادار اور وفا شعار۔

مگر ہم ان سب حقائق سے صرف نظر اس کی جیت کی خوشی منار ہے ہیں اور ہمارا حال ” بیگانے کی شادی میں عبداللہ دیوانہ ” اس مثل کا سا ہوا جا رہا ہے کہ ہمارے ہاتھ تو کچھ نہیں آیا پھر بھی مسرور ہیں۔

یہی حال ہمارا ملکی سطح پر بھی ہے ہم نے ہمیشہ اپنی جماعت کو منظم و مربوط کرنے کے بجائے غیروں پر انحصار کیا ۔

ہم نے کانگریس کو اپنا محسن و ہمدر سمجھا ؛ اپنے اندر سیاسی شعور پیدا کرنے کے بجائے ان کے رحم و کرم پر اپنے آپ کو چھوڑ دیا مگر صلے میں کیا ملا ” دکھ ہی دکھ زخم ہی زخم ”

ہم نے دہلی انتخابات میں کیجریوال پر اپنا اعتماد بحال کیا مگر دہلی فساد میں اس کے رویہ نے یہ باور کرا دیا کہ وہ کس خیال کا آدمی ہے اور کن کے اشاروں پر کام کرتا ہے مگر ہم ہے کہ ہوش کہ ناخن ہی نہیں لیتے۔

 

ہم نے سب کو استفادے کا موقع دیا مگر اپنے ہی گھر کو تاریک چھوڑ دیا ہماری طاقت سے لوگ صاحب مسند بنے اور ہماری حالت آج بھی دگرگوں اور ناقابل بیان ہے۔

اس لئے اپنے اندر فکری شعور پیدا کریں ؛ سیاسی ادراک اپنے اندر لائیں! اپنی جماعت کو منظم و مضبوط کریں اور خود انحصار بنیں!

ورنہ ہمارا عالمی اور ملکی سطح پر استعمال و استحصال جاری رہے گا اور ہم دوسروں کے رحم و کرم پر ہی جیتے رہیں گے اس لئے دیوانگی سے نکل عقل و شعور کے ناخن لیں اور زندہ قوم ہونے کا ثبوت دیں!

Comments are closed.