قربانی کی حقیقت اور اس کا معاشرتی پہلو

مولانا خورشید عالم داؤد قاسمی
قربانی کی تعریف:
قربانی ایک ایسی عبادت ہے جو عید الاضحی کے ایام میں انجام دی جاتی ہے، جس میں انسان اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنی محبوب اور قیمتی چیز، بالخصوص کوئی مخصوص جانور، اللہ کے راستے میں پیش کرتا ہے۔ یہ عمل محض جانور کے ذبح تک محدود نہیں ہوتا؛ بلکہ اس کے پیچھے خلوص، تقویٰ، ایثار اور اطاعتِ الٰہی کا جذبہ کارفرما ہوتا ہے، جو انسان کو روحانی بلندی عطا کرتا ہے۔ قربانی کی جامع تعریف یوں ہے: "عید الاضحی کے مخصوص ایام میں، اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے، بھیمۃ الانعام (یعنی بھیڑ، دنبہ، بکری، بیل، بھینس یا اونٹ) میں سے کسی جانور کو مخصوص شرائط کے ساتھ ذبح کرنا قربانی کہلاتا ہے۔”
قربانی کا پس منظر:
قربانی کا پس منظر اور خلفیہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور سیدنا اسماعیل علیہ السلام کے عظیم واقعے سے جُڑا ہوا ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ انھیں حکم دے رہے ہیں کہ وہ اپنے بیٹے سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کی رضا کے لیے قربان کریں۔ یہ محض ایک خواب نہیں تھا؛ بلکہ اللہ کی جانب سے ایک عظیم آزمائش تھی۔ قرآن مجید نے اس واقعے کو یوں بیان کیا ہے: ترجمہ: "پھر جب وہ لڑکا ابراہیم کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہوگیا؛ تو انھوں نے کہا، بیٹے میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تمھیں ذبح کر رہا ہوں، تم سوچ کر بتاؤ تمھاری کی رائے ہے۔” (سورۃ الصافات: 102)
سیدنا اسماعیل علیہ السلام، جنھیں مستقبل میں تاج نبوت سے سرفراز کیا جانا تھا، اطاعت وفرمانبرداری کا ثبوت دیتے ہوئے، خوشی اور رضا مندی سے اللہ کے حکم کی اطاعت کے لیے تیار ہوگئے۔ قرآن کریم میں اس کا ذکر اس طرح آیا ہے: ترجمہ: "بیٹے نے کہا، ابا جان، آپ وہی کیجیے جس کا آپ کو حکم دیا جارہا ہے، ان شاء اللہ، آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔” (سورۃ الصافات: 102) نبی کا خواب وحی ہوتا ہے؛ اس لیے سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے بلا تردّد اللہ کے حکم کو تسلیم کیا اور اپنے پیارے بیٹے کی قربانی کے لیے تیاری شروع کر دی۔ جب قربانی کے لیے چھری اٹھائی گئی؛ تو آسمان سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس امتحان میں کامیابی کا اعلان ہوا اور جنت سے ایک مینڈھا بھیجا گیا، جسے ذبح کیا گیا اور سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو بچا لیا گیا۔ یوں سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اس عظیم آزمائش میں کامیابی حاصل کی۔ یوں قربانی کا یہ واقعہ اطاعت،صبر، خلوص اور تسلیم و رضا کی اعلیٰ مثال بن گیا۔
قرآن کریم میں قربانی کا ذکر:
اللہ پاک نے قرآن کریم میں قربانی کا ذکر واضح طور پر کیا ہے، جس سے اس عمل کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں: ترجمہ: "اللہ کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے، نہ ان کا خون، لیکن اس کے پاس تمھارا تقوی پہنچتا ہے۔ اس نے یہ جانور اسی طرح تمھارے تابع بنا دیے ہیں؛ تاکہ تم اس بات پر اللہ کی تکبیر کرو کہ اس نے تمھیں ہدایت عطا فرمائی۔ اور جو لوگ خوش اسلوبی سے نیک عمل کرنے ہیں، انھیں خوش خبری سنادو۔”(سورۃ الحج: 37) اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کا اصل مقصد ظاہری عمل نہیں؛ بلکہ دل کی کیفیت اور اللہ کے لیے اخلاص و تقویٰ ہے۔
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں، مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"یہ بتلانا مقصود ہے کہ قربانی جو ایک عظیم عبادت ہے اللہ کے پاس اس کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا، نہ وہ مقصود قربانی ہے؛ بلکہ مقصود اصلی اس پر اللہ کا نام لینا اور حکم ربی کی بجا آوری دلی اخلاص کے ساتھ ہے۔ یہی حکم دوسری تمام عبادات کا ہے کہ نماز کی نشست وبرخاست، روزہ میں بھوکا پیاسا رہنا اصل مقصود نہیں؛ بلکہ مقصود اصلی اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل دلی اخلاص و محبت کے ساتھ ہے۔ اگر یہ عبادات اس اخلاص و محبت سے خالی ہیں تو صرف صورت اور ڈھانچہ ہے روح غائب ہے۔ مگر عبادات کی شرعی صورت اور ڈھانچہ بھی اس لیے ضروری ہے کہ حکم ربانی کی تعمیل کے لیے اس کی طرف سے یہ صورتیں متعین فرما دی گئی ہیں۔” (معارف القرآن 6/ 267)
اسلام میں قربانی کی اہمیت:
قربانی قرآن وسنت سے بالاتفاق مشروع ہے۔ جو شخص صاحب نصاب ہے، اس پر قربانی واجب ہے۔ اسلام میں قربانی کو نہایت بلند مقام حاصل ہے؛ کیوں کہ یہ سنتِ ابراہیمی کی پیروی ہے جو ہر سال عید الاضحی کے موقع پر ادا کی جاتی ہے۔ قربانی محض جانور ذبح کرنے کا عمل نہیں؛ بلکہ یہ دل کی گہرائیوں سے اللہ کے حکم کی تعمیل اور اس کی رضا کے لیے اپنی محبوب چیز کو قربان کرنے کا عملی اظہار ہے۔ قربانی تقویٰ، اخلاص، ایثار اور اللہ سے سچی محبت کا مظہر ہے جو مومن کے ایمان کو مضبوط کرتی ہے اور اسے روحانی طور پر بلند کرتی ہے۔ چناں چہ جس شخص پر قربانی واجب ہے، اسے چاہیے کہ خوش دلی کے ساتھ قربانی کا عمل انجام دے، اسے بوجھ نہ سمجھے۔ واضح رہے کہ قربانی کے واجب ہونے کے لیے اس شخص کا صاحب نصاب ہونا کافی ہے، اس کی ملکیت میں جو مال ہے، اس پر سال گذرنا ضروری نہیں ہے۔
قربانی کے مقاصد:
قربانی کے مقاصد نہایت جامع اور معنویت سے بھرپور ہیں۔ ان میں سب سے اہم تقویٰ کا حصول اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا شامل ہے۔ قربانی کے ذریعے انسان اپنے دل کو صاف کرتا ہے اور اپنے مال و جان کو اللہ کی راہ میں پیش کرنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ ساتھ ہی قربانی کا ایک اہم مقصد معاشرتی فلاح و بہبود ہے؛کیوں کہ اس عمل سے غرباء و مساکین کو گوشت فراہم ہوتا ہے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ قربانی دینی شعور کو فروغ دیتی ہے اور سنتِ ابراہیمی کی یاد تازہ کرتی ہے۔ یہ عظیم سنت مسلمانوں کو ایثار، اخلاص اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا درس دیتی ہے۔
قربانی کا وقت:
قربانی ذوالحجہ کے تین دنوں یعنی دس سے بارہ ذو الحجہ تک کی جاتی ہے۔ ان دنوں میں قربانی کرنا سنتِ ابراہیمی کی ادائیگی ہے۔ شہر کے رہائشیوں کے لیے یہ عمل عید کی نماز کے بعد جائز ہوتا ہے؛ چناں چہ اگر شہر کے کسی رہائشی نے عید کی نماز سے قبل قربانی کرلی؛ تو اس کی قربانی جائز نہیں ہوگی۔ گاؤں اور دیہات، جہاں عید الاضحی کی نماز نہیں ہوتی، وہاں کے لوگوں کے لیے صبح صادق کے بعد سے قربانی کرنا جائز ہے؛ البتہ مستحب وقت طلوع آفتاب کے بعد سے ہے۔
قربانی کے جانور کی اقسام:
قربانی کے لیے جن جانوروں کی اجازت ہے ان میں دنبہ، بکری، گائے، بیل، بھینس اور اونٹ شامل ہیں۔ ان جانوروں کی شرعی عمر اور صحت کے معیار کا خیال رکھنا لازم ہے؛ تاکہ قربانی اللہ کے حضور قبول ہو۔بکری اور دنبہ کی عمر کم از کم ایک سال ہونی چاہیے (البتہ دنبہ اگر ایک سال سے کم کا ہو اوراتنا فربہ ہو کہ ظاہری طور پر ایک سال کا دکھائی دے؛ تو اس کی قربانی جائز ہے)، بیل، گائے، بھینس کی عمر کم از کم دو سال اور اونٹ کی عمر کم از کم پانچ سال ہونی چاہیے۔بکری یا دنبہ میں شرعی طور پرایک ہی حصہ ہوتا ہے؛ اس لیے اس کی قربانی صرف ایک شخص کی طرف سے ہوگی؛ جب بڑے جانور میں سات حصے ہوتے ہیں؛ چناں چہ اس میں ساتھ آدمی شریک ہوسکتے ہیں اور ان ساتوں کی طرف سے قربانی ہوجائے گی۔ اگر ان ساتھ شریک میں سے، ایک کی بھی نیت گوشت کھانے کی ہو؛ تو کسی کی بھی قربانی درست نہیں ہوگی۔
مزید برآں، جانور صحت مند، بے عیب اور مکمل ہونا چاہیے۔ اگر جانور میں کوئی واضح جسمانی عیب ہو، جیسے اندھا پن، لنگڑانا، یا شدید کمزوری؛ تو اس کی قربانی جائز نہیں ہوگی۔ ان شرائط کی پاسداری قربانی کے قبول ہونے کے لیے نہایت ضروری ہے۔ اگر ہم ان قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہیں؛ تو ہماری قربانی اللہ کے حضور قبول نہیں کی جائے گی۔ یہ شرائط اس بات کو یقینی بناتی ہیں کہ قربانی خلوص اور مکمل اہتمام کے ساتھ کی جائے۔
قربانی کا گوشت تقسیم کرنے کا طریقہ:
قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کرنا چاہیے؛ تاکہ اس کا فائدہ معاشرے کے تمام طبقات تک پہنچے۔ پہلا حصہ قربانی کرنے والے اور اس کے خاندان کے لیے ہوتا ہے؛ تاکہ وہ خود بھی اس نعمت سے فائدہ اٹھا سکیں۔ دوسرا حصہ رشتہ داروں اور دوستوں میں تقسیم کیا جاتا ہے؛ تاکہ باہمی محبت اور رشتہ داری کے تعلقات مضبوط ہوں۔ تیسرا حصہ غریبوں، مسکینوں اور محتاجوں کو دیا جاتا ہے؛ تاکہ ان کی ضرورتیں پوری ہو سکیں اور وہ بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہو جائیں۔ اس تقسیم کا مقصد نہ صرف قربانی کی اصل روح کو زندہ رکھنا ہے؛ بلکہ معاشرتی ہم آہنگی اور بھائی چارے کو فروغ دینا بھی ہے۔ اگر کوئی شخص آپ کو قربانی کا گوشت بھیجے اور آپ اس کی مقدار یا جانور کی نوعیت پر تبصرہ کریں؛ تو یہ آپ کی اخلاقی کمزوری کی علامت ہے۔ قربانی کرنے والے کی طرف سے بھیجا گیا گوشت تحفے کے طور پر لینا چاہیے اور خوش دلی سے قبول کرنا چاہیے۔
قربانی میں اعتدال اور نیت کی درستگی:
قربانی میں اعتدال اور نیت کی درستگی نہایت ضروری ہے؛ کیوں کہ یہ عبادت خالصتاً اللہ تعالیٰ کے لیے کی جاتی ہے۔ اس عمل میں ریاکاری، دکھاوا یا معاشرتی نمائش کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ قربانی کا اصل مقصد صرف اللہ کی رضا حاصل کرنا ہے، نہ کہ دوسروں کو متاثر کرنا یا فخر کا مظاہرہ کرنا۔ اسی طرح فضول خرچی سے بچنا چاہیے اور قربانی کو سادگی، اخلاص اور تقویٰ کے ساتھ ادا کرنا چاہیے۔ نیت کی درستگی ہی اس عبادت کی جان ہے۔ اگر نیت خالص ہو؛ تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک عمل چاہے ظاہری طور پر چھوٹا ہی کیوں نہ ہو، وہ مقبول ہوتا ہے۔
غلط رویّے اور اصلاح کی ضرورت:
آج کے دور میں بہت سے لوگ قربانی تو کرتے ہیں؛ مگر اس کا اصل مقصد یعنی خلوص، تقویٰ اور اللہ کی رضا کا جذبہ، کہیں کھو جاتا ہے؛ حالانکہ قربانی کا بنیادی ہدف انھیں صفات کا حصول ہے۔ لہٰذا جب ہم قربانی کریں؛ تو ضروری ہے کہ اس کے حقیقی مقاصد کو سمجھیں اور ان پر عمل کریں۔ چند غلط رویّے اور ایسی وجوہات بھی ہیں جن کی بنا پر قربانی کے اصل مقاصد حاصل نہیں ہو پاتے ہیں۔ ہمیں ان رویّوں سے بچنا چاہیے اور ان کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے۔ ان میں سے چند وجوہات درج ذیل ہیں:
نیت کا نقص: بعض افراد قربانی کو محض رسم و رواج یا سماجی فريضہ سمجھ کر کرتے ہیں، نہ کہ خالص اللہ کی رضا کے لیے۔ یہ نیت کا نقص ہے۔ اس سے قربانی کا اصل مقصد حاصل نہیں ہوگا؛ اس لیے ہماری نیت صرف اللہ کو راضی کرنے کی ہونی چاہیے۔
ریاکاری اور دکھاوا: کچھ لوگ قربانی دوسروں کو متاثر کرنے یا فخر جتانے کے لیےکرتے ہیں، جو اس عبادت کی روح کے منافی ہے۔
روحانیت کی کمی: قربانی صرف جسمانی عمل نہیں؛ بلکہ ایک گہرا روحانی عمل بھی ہے۔ اگر انسان اپنے نفس کی خواہشات کو قربان کرنے اور صبر و شکر کے جذبے کے ساتھ اللہ کی اطاعت کرنے میں ناکام رہے؛ تو قربانی کا حقیقی مقصد پورا نہیں ہوتا۔
سماجی خدمت کی کمی: قربانی کے گوشت کی تقسیم میں غریبوں اور محتاجوں کو نظر انداز کرنا بھی قربانی کے اصل مقصد سے دوری ہے۔ہمیں چاہیے کہ شریعت کے بتائے ہوئے اصول کے تحت، ہم اپنی قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کریں جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔
قربانی کا عملی پیغام:
قربانی ایک ایسی عبادت ہے جو محض ایک رسمی عمل نہیں؛ بلکہ ایک گہرا روحانی، اخلاقی اور سماجی پیغام اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ اس کا اصل مقصد انسان کو ایثار، اخلاص، صبر، شکر اور اللہ کی رضا کے لیے اپنی خواہشات کو قربان کرنے کی تربیت دینا ہے۔ قربانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں اللہ کی مرضی کو اپنی خواہشات پر ترجیح دینا ہی اصل ایمان اور بندگی ہے۔سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی طرف سے پیش کی جانے والی عظیم قربانی، نہ صرف ایک تاریخی واقعہ ہے؛ بلکہ اطاعت، محبتِ الٰہی اور خلوص کا زندہ نمونہ بھی ہے۔ ان کے عمل سے یہ سبق ملتا ہے کہ اللہ کے حکم کی بجا آوری میں سب کچھ قربان کیا جا سکتا ہے، چاہے وہ دل کے سب سے قریب کیوں نہ ہو۔ یہی جذبہ اسلام میں قربانی کی اصل روح ہے۔ اسلام میں قربانی کا حکم اسی عظیم جذبے کی یاد تازہ کرنے اور امتِ مسلمہ کو خلوصِ نیت کے ساتھ اللہ کی رضا کی طرف راغب کرنے کے لیے دیا گیا ہے۔ مسلمان جب قربانی کریں؛ تو ان کی نیت صرف اللہ کی خوشنودی ہونی چاہیے، نہ کہ ریاکاری یا دکھاوے کا جذبہ۔ اس فریضے کو رسولِ اکرم ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ادا کرنا ہی قربانی کو مقبول بناتا ہے۔ پھر یہ قربانی نہ صرف روحانی ترقی کا ذریعہ بنتی ہے؛ بلکہ معاشرتی سطح پر بھی بھائی چارہ، مساوات اور ہمدردی کو فروغ دیتی ہے، جس سے ایک بہتر اور بامقصد اسلامی معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ ••••
Comments are closed.