علماء کرام معمار قوم ہیں ان سے غلامانہ سلوک قوموں کے زوال کی نشانی ہے !!!

احساس نایاب ( شیموگہ, کرناٹک )
ایڈیٹر گوشہ خواتین بصیرت آن لائن
کئی دنوں سے سوچ رہے تھے اس موضوع پہ کچھ لکھیں؛ لیکن مصروفیات و مسائل کی وجہ سے لکھ نہیں پائے, آج جب سوشیل میڈیا پہ ایک تحریر کے ساتھ لگی دل سوز تصویر پہ نظر پڑی تو خود کو روک نہ سکے اور پہلی فرصت میں قلم اٹھا لیا اب دیکھنا یہ ہے کہ ایک طویل وقفے کے بعد مضمون پڑھ کر قارئین کا رد عمل کیا ہوگا ہمارے حق میں گالیاں ہوں گی یا دعاؤں سے نوازا جائے گا، بہرحال پھول برسیں یا انگارے, کسی کو صحیح لگے یا مرچی حق بات تو کہنی ہے ان شاءاللہ کہہ کر رہینگے …….
مضمون کی جانب بڑھنے سے پہلے یہاں ہم ایک سچا واقعہ قلم بند کررہے ہیں …….
یہ حال ہی کا واقعہ ہے , مقامی درگاہ میں رہنے والے ایک مفلس موذن نے درگاہ کے چندہ کے ڈبہ میں سے 700 روپیے نکال لئے جو سی سی ٹی وی کیمرہ میں قید ہوگیا یہاں پہ اس بات کو بھی واضح کرتے چلیں کہ غلطی مجبوری کے چلتے کی گئی تھی ویسے بھی اللہ سبحان تعالی اپنے بندوں سے ہوئی ایسی ان گنت غلطیاں, بڑے سے بڑے گناہ ایک توبہ ندامت کے چند آنسوؤں کے بدلے معاف فرمادیتے ہیں؛
لیکن افسوس اللہ کے چند جاہل قسم کے موقع پرست بندے اپنے دینی بھائیوں کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو درگذر کرنے, اُن کی اصلاح کرنے کے بجائے انہیں بلیک میل کرتے ہیں, اپنے رسوخ و دبدبہ کا رعب جماکر یا بدنامی کا ڈر دکھاکر جبرا اُن سے پیسہ وصولا جاتا ہے اور اُن سے غیرشرعی غیر فطری کام کروائے جاتے ہیں ایسا ہی کچھ اس معاملے میں بھی پیش آیا …….
موذن کو اس چھوٹی سی غلطی کی بہت بڑی قیمت چکانی پڑی جب کمیٹی کے دو بدمعاش قسم کے ممبران جس میں ایک خود سیکریٹری کے عہدے پہ فائز تھا ان دونوں نے بیچارے مفلسی کے مارے موذن کو بلیک میل کرنا شروع کردیا, اور اس راز کو راز رکھنے کی شرط پہ موذن سے 20 سے 25 ہزار روپئیے وصولے گئے
وہ موذن جو پہلے سے ہی سو, پچاس روپیہ کے محتاج تھے جنہونے نے سخت ترین حالات کے چلتے مجبوری میں سات سو روپیہ نکال کر اپنے ضمیر کی عدالت میں شب و روز مجرم بنے خود کو کوس رہے تھے پچھتاوے کی آگ میں ہر پل جھلس رہے تھے
ایسے مجبور انسان کو ڈرا دھمکا کر جبرا بیس ہزار روپیے وصولنا یقینا خلاف انسانیت ہے؛ لیکن افسوس ایسے غیر انسانی عمل پہ لگام نہیں لگائی جاتی ویسے لگام لگائے گا بھی کون ؟
یہاں تو ہر موڑ پہ رہزن ہیں ………..
خیر یہ کوئی پہلا یا انوکھا معاملہ بھی نہیں تھا؛ بلکہ ایسے درجنوں معاملات مساجد, مدارس و درگاہوں کی کمیٹی ممبران کی جانب سے پیش آتے ہیں جنہیں بیان کرتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی ہے زبان پہ لرزا طاری ہوجاتا ہے.
اللہ کے نام پہ اللہ کے معصوم بندوں پہ اس قدر ظلم و زیادتیاں اللہ کی پناہ! ………..
چند ماہ قبل ایسا ہی ایک اور دل دہلادینے والا واقعہ پڑوسی ملک میں بھی پیش آیا تھا ……… یوں تو اس واقعہ کو حادثہ کا نام دیا گیا؛ لیکن ہماری نظر میں یہ کوئی حادثہ نہیں بلکہ قتل ہے …….
جی ہاں امام مسجد کے اہل خانہ کا قتل جس میں اُن کی نیک سیرت عالمہ بیوی اور تین پھول سے معصوم بچے مکان کی چھت کے گرجانے سے ملبے میں دب کر شہید ہوگئے
دراصل یہ مکان مسجد انتظامیہ کی جانب سے امام صاحب کو دیا گیا تھا جس کو مکان کہنا مناسب نہیں بلکہ جانور باندھنے کا کوٹھا کہینگے تو غلط نہ ہوگا ……..
جبکہ آج ہم مسلمان ثواب کی نیت سے یا اپنی تونگری کا دکھاوا کرتے ہوئے مساجد کی عمارتیں تعمیر کروانے میں کروڑوں کی رقم پانی کی طرح بہادیتے ہیں؛ لیکن اُس عمارت کو پانچ وقت اذان, تکبیر , وعظ سے مسجد بنانے اُس میں ایمانی روح پھونکنے والے چوبیس گھنٹے اُس عمارت کی دیکھ ریکھ اُس کا خیال رکھنے والے امام, موذن و خطیب کو حقارت بھری نظروں سے دیکھا جاتا ہے اُن کے ساتھ نوکروں غلاموں جیسا سلوک کیا جاتا ہے
یہاں تک کے انہیں رہائش کے نام پہ ایسے کمزور مکانات میں رہنے پہ مجبور کیا جاتا ہے جس کی چھت در و دیوار اُں کی حفاظت تک نہیں کرسکتی جو خود بنیادی سہولیات سے محروم ہوتی ہیں, اس کے علاوہ انہیں تنخواہ کے نام پہ 6 سے 7 ہزار کی بھیک دی جاتی ہے جیسے ان بیچاروں پہ کوئی احسان کیا جارہا ہو.
جبکہ مساجد میں بچھے ایک ایک قالین, سیلنگ پہ لگے جھومر اور دیگر اشیاء کی قیمت ہزاروں لاکھوں میں ہوتی ہے؛ مگر ہم جیسے گنہگاروں کو دن میں پانچ وقت فلاح کی جانب بلانے والے امام مسجد و مؤذن کے معصوم بیوی بچے فاقوں کی زندگی بسر کرنے پہ مجبور ہیں
ذرا سوچئے! آج کے دور میں 6,7 ہزار کی حیثیت ہی کیا ہے ؟
ایک امیر گھر کے بچے کے چاکلیٹ ,بسکٹ بھی نہیں آتے، ایسے میں ان بیچاروں کی بنیادی ضروریات کیسے پوری ہوپائیں گی ؟
اس پہ ستم بالائے ستم تو دیکھیں ان کے ساتھ زرخرید غلاموں سا سلوک کیا جاتا ہے، محلے علاقے کے وہ جاہل گنوار بدمعاش جو اپنے جھوٹے رسوخ ودبدبہ اور چار نمبری پیسوں کے بَل پہ ٹرسٹی، کمیٹی ممبران بنے بیٹھے ہیں وہ جاہل احمق ان پہ دھونس جماتے ہوئے اپنی ہاں میں ہاں ملانے پہ انہیں مجبور کرتے ہیں مخالفت کرنے پہ انہیں نوکری سے نکال باہر پھینکنے کی دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں , کئی جگہوں پہ تو کئی اماموں کے خلاف ایسی ایسی سازشیں رچی جاچکی ہیں جس کو بیان کرینگے تو ہر اُس شخص کے منہ پہ طمانچہ لگے گا جو اپنے ناموں کے آگے عہدے چپکا کر اتراتے پھر رہے ہیں خود کو بہت بڑے تیس مار خان سمجھ بیٹھے ہیں ………
بہرحال جن کا مقام و مرتبہ نبیوں اور اللہ والوں سے جُڑا ہے آج کی تاریخ میں وہ بےبس لاچار نظر آتے ہیں , ان کے آنگن میں غربت کا تو یہ عالم ہے کہ ان میں سے کئی دو وقت کی روٹی کے بھی محتاج ہیں ……….
دوسری طرف ان اداروں کے حال سے کون واقف نہیں ہے کہ کیسے اکثر اداروں کے منتظمین کی جانب سے کھلے عام گھپلے گھوٹالے ہوئے ہیں, دن دھاڑے غریب مفلس و محتاج مسلمانوں کے کس کس طرح حق مارے گئے ہیں, چندوں کے نام پہ کتنا پیسہ اندر باہر کیا گیا ہے؛ لیکن افسوس کہ ہم اور آپ جیسے عام مسلمان جھوٹی مریدی و اندھے عقائد کے غلام بن کر اپنی نظروں کے آگے یہ تمام دھاندلیاں دیکھ کر بھی گونگے , بہرے بنے رہتے ہیں جس سے ان غنڈے بدمعاشوں کے حوصلے دن بہ دن اس قدر بڑھ رہے ہیں کہ ان گنوار جاہلوں کی نظر میں موذن, امام و اہل علم حضرات کی کوئی قدر وعزت نہیں رہی
جن علماء کو نبیوں کے وارث کا درجہ دیا گیا ہے جو قوم کا سرمایہ و معمار ہیں جنہیں قوم کے سر کا تاج کہا جاتا ہے آج انہیں گھٹنوں کے بل جوتیوں میں رکھا گیا ہے معذرت کے ساتھ ہمارے الفاظ سخت ضرور ہیں؛ لیکن لفظ لفظ حق ہے …….
جن کی ذمہ داری اُمت کی اصلاح و اسلام کی ترجمانی کرنی ہے آج وہ خود ڈرے سہمے دبے کچلے ہوئے ہیں اوروں کے حق کے لئے لڑنا تو بہت دور کی بات ہے یہ خود اپنی ذات پہ ہورہی زیادتیوں کے خلاف لب کشائی کرنے سے گھبراتے ہیں ……
مسلکوں و فرقہ بندی والے مدعوں کو چھوڑ کر دیگر معاملات پہ بات کرنے روکنے ٹوکنے کے لئے ان کے منہ میں جیسے زبان تک نہیں رہی؛ بلکہ صبر کے نام پہ خود تو لٹ ہی رہے ہیں اپنے ساتھ عام مسلمان کو بھی لٹتا ہوا دیکھ کر انجان بنے رہنے میں ہی اپنی عافیت سمجھ بیٹھے ہیں ان کی اسی کمزوری کی قیمت آج پوری قوم بھگت رہی ہے دشمن تو دشمن خود اپنی قوم کے اٹھنی چوننی کی اوقات رکھنے والے شب و روز بیوی کی جوتیاں کھانے والے تک ان پہ مسلط ہوچکے ہیں ……
اور ہماری نظر میں ان حالات کے ذمہ دار کہیں نہ کہیں خود اہل علم حضرات علماء کرام و مدارس کے ذمہ داران ہی ہیں
جی ہاں! اس کی وجہ خود کو عصری تعلیم سے, دنیاداری سے بالکل دور کردینا ہے , جس سے طالب علم ایک طرح سے اپاہج بن جاتا ہے، دنیا کی رفتار کے ساتھ وہ قدم سے قدم نہیں ملاپاتا اور وہ خود کو بےبس لاچار محسوس کرتا ہے، مانا ایک مومن مسلمان کا دیندار ہونا لازم ہے؛ لیکن دینداری کے نام پہ دنیاداری سے دامن چھڑالینا بھی تو صحیح نہیں ہے یہ تو وہی بات ہوئی جو علامہ اقبال نے اپنے شعر کے ذریعہ سمجھائی ہے …….
شاعر بھی ہیں پیدا علماء بھی حکماء بھی
خالی نہیں قوموں کی غلامی کا زمانہ
کرتے ہیں قوموں کو غلامی پہ رضامند
تاویل مسائل کو بناتے ہیں بہانہ
یاد رہے جب دنیا میں بھیجے گئے ہیں تو دین اور دنیا دونوں کو ساتھ لے کر چلنے میں ہی عقلمندی و کامیابی ہے, اگر ایسا نہیں ہوتا تو اللہ سبحانہ وتعالی انسان کے اندر نفس نہیں رکھتے, نکاح کا حکم , اہل خانہ کی کفالت کا بوجھ نہیں ڈالتے، اگر اللہ سبحانہ وتعالی کو صرف عبادت ہی کروانی ہوتی تو اُس کی حمد و ثناء کے لئے کائنات کا ذرہ ذرہ موجود ہے اُس رب کعبہ کی عبادت کے لئے فرشتے مقرر ہین جو رات دن سجدوں میں گرے ہیں
اللہ سبحانہ و تعالی کو اپنے بندوں سے خود کی عبادت ہی نہیں کروانی؛ بلکہ وہ تمام ذمہ داریوں کو بخوبی خوش اخلاقی کے ساتھ نبھاتے, انجام دیتے ہوئے دیکھنا بھی پسند ہے اور ہمارے ہر نیک عمل میں عبادت چھپی ہے شاید اسی لئے انسانوں کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا کئی ذمہ داریاں فرائض کو ہمارے ذمہ کیا گیا اور ہمیں پرکھنے کے لئے قدم بہ قدم آزمائشیں چیلنجز رکھے گئے ہیں جن کا سامنا کرتے ہوئے ہی ہمیں دونوں جہانوں میں فلاح پانی ہے نہ کہ حقوق العباد کو نظرانداز کرکے حقوق اللہ کی تائید میں مصلے بچھاکر صرف تسبیح , ذکر و سجدوں سے ہم اپنے رب کو راضی نہیں کرسکتے ……….
اس لئے مدارس میں بچوں کو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم پہ بھی توجہ دی جائے کیونکہ انسان کو چاہتے ناچاہتے ایک مدت تک رہنا اسی دنیا میں ہے اور یہاں جینے کے لئے اسلامی تعلیمات کی جتنی ضرورت ہے اتنی ہی دنیاوی علوم بھی ضروری ہے وقت اور حالات کے ساتھ اگر انسان خود میں بدلاؤ تبدیلی نہ لائے تو وہ ہمیشہ پیچھے ہی رہ جائے گا اُس کے اندر کی حاکمانہ صلاحیت ختم ہوجائے گی اور دھیرے دھیرے وہ ذہنی غلامی کے دلدل میں دھنستا چلا جائے گا یا اگر کوئی غیرت مند ہوگا تو مجبوری کے چلتے خودکشی جیسا غلط قدم اٹھائے گا جیسے حال ہی میں مفلسی و تنگ دستی سے تنگ آکر حافظ وسیم نے خودکشی کرلی ہے اور یہ خودکشی پوری قوم پہ کبھی نہ مٹنے والا کلنک ہے ………
رہی بات حافظ وسیم کے متعلق ہم مزید کچھ نہیں کہنا چاہینگے کیونکہ اُس وقت اُن کی کیفیت وہ اور اللہ جانتے ہیں ہم یا کوئی اور ہرگز نہیں کیونکہ جو جس پہ گذرتی ہے وہ صرف وہی جانتا ہے ویسے بھی مرحوم کو صحیح یا غلط کہنے کا حق کسی کو حاصل نہیں ہے …….
ممکن ہے ہمیں اہل علم حضرات سے لاکھ اختلاف ہوں، ہزار شکایتیں ہوں؛ لیکن ان شکایتوں میں ان کے لئے چھپی ہمدردی, عزت و احترام بھی شامل ہے ہماری نظر میں ان کا مقام بہت اونچا اعلی ہے ہم انہیں کسی دنیاپرست جاہل گنوار کے آگے پیچھے گھومتے اور جھکتے دیکھ کر برداشت نہیں کرسکتے ……..
کیونکہ جب تک اہل علم حضرات خود اپنی اہمیت , قابلیت کو جانے بنا مظلومیت کا رونا روتے رہیں گے جاہلوں کے ہاتھوں ظلم و زیادتی کا شکار بنتے رہیں گے تو یقین جانیں تاقیامت امت کے حالات نہیں بدل سکتے
اور جب تک آپ حضرات خودمختار نہیں ہوتے یہ جاہل سر کے تاج کو اپنے غلیظ ٹھوکروں میں یونہی رکھیں گے اور محتاجی غلامی کا طوق آپ کے گلوں میں پہنا دینگے کیونکہ ………
کیا گیا ہے غلامی میں مبتلا تجھ کو
کہ تجھ سے ہو نہ سکی فقر کی نگہبانی
آخر میں ہماری ایک ناقص رائے, اہل علم حضرات ملازمت سے بہتر تجارت میں اپنی قسمت آزمائیں کیونکہ تجارت میں برکت ہے اور ان شاءاللہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کامیاب بھی کریں گے دوسری سب سے اہم بات اداروں کی ذمہ داری گنواروں سے چھین کر اُن ذمہ دار ہاتھوں میں سونپی جائے جو نیک کردار خوش اخلاقی کے مالک ہوں تمیز تہذیب جنہیں حرام پیسوں سے نہیں بلکہ وراثت سے ملی ہو جو مجبور ضرورت مند لوگوں کی مجبوری سمجھ سکیں جن کے اندر ہمدردی کا جذبہ ہو انسانیت ہو ایسے تعلیم یافتہ نیک سیرت افراد کے ہاتھوں دینی درسگاہوں اور اداروں کی باگڈور سونپنی ہوگی تاکہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات دوبارہ نہ ہوں ……………
Comments are closed.