سیاست کا حقیقی رخ سمجھیے!! محمد صابر حسین ندوی

سیاست کا حقیقی رخ سمجھیے!!
محمد صابر حسین ندوی
[email protected]
7987972043
ہندوستانی سیاست کا رخ سمجھنے کی ضرورت ہے، اب ہندوستان میں ١٩٤٧/ سےقبل یا ابتدائی زمانے کا دور نہیں ہے؛ بلکہ اب اس کے اندر گرو گوالکر، ہیڈگوار و ساوارکر کی فکر سرایت کر چکی ہے. مہاتما گاندھی کا جہد و تقشف، ایکتا، ہمدردی اور انسانیت نہیں؛ بلکہ برہمنیت اور منو اسمرتی کی برتری کا غلبہ ہے، کہتے ہیں کہ جب تک سورج پوری طرح عروج پر نہیں ہہوچ جاتا تب تک وہ زوال کی جانب نہیں جاتا، فاشزم اور ہندوازم، تشدد اور زعفرانیت کے ماروں کا اقبال بلند ہے، خصوصاً پچھلے چھہ سالوں سے وہ ننانوے سالہ محنت کی فصل کاٹ رہے ہیں، ان کا سورج پورے آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے، مرکزی حکومت ان کے ہاتھوں میں ہے، نریندر مودی کا جھوٹ، دو رخاپن اور ملک کے تئیں ناسمجھی سب کچھ سامنے ہیں؛ لیکن سب سے بڑھ کر ان ہندو وادی چہرہ منظر عام پر ہے، اور یہی ان کی کامیابی و کامرانی کی شاہ کلید ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہندوستان متشدد ہندو اکثریت ملک ہے؛ ایسے میں یہ امید کرنا کہ وہ کسی اقلیت کو چین سے رہنے دیں گے اور برہمنیت کا سودا کر لیں گے یہ ناممکن امر ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ لگاتار بڑھتے جاتے ہیں، اگر سنگل لارجر پارٹی نہیں بن پاتے تو اتحاد کرتے ہیں اور متحد پو کر پورے صوبے کو ہڑپ کر جاتے ہیں، ابھی بہار کی باری ہے، ممکن ہے کہ اس کے بعد بنگال، یوپی اور پھر مرکزی حکومت کا بھی یہی ہونا ہے؛ کیونکہ ملک کی فضا بدل چکی ہے، ذرا غور کیجئے! بہار الیکشن سے قبل کرونا وائرس کا قہر اور لاک ڈاؤن نے کیا کچھ نہ کیا؟ پورے ملک میں موجود بہار کے مزدور پیدل چل کر اپنے گاؤں، گھر جانے پر مجبور ہوگئے، پیروں میں چھالے پڑے، ایڑیاں پھٹ گئیں، بھوک و پیاس سے گلہ خشک ہوگیا، بچوں نے سسک سسک کر دم توڑ دیا بورھے بزرگ یونہی مر گئے، پھر ابھی قریب میں ہی کسان مخالف قانون کے ذریعہ پورے ملک کے کسانوں کو دھوکہ دیا گیا، انہیں کم سے کم آمدنی سے بھی محروم ہونے کے کگار پر کھڑا کردیا، تو وہیں بہار میں بڑھتی نوکریوں کی کمی، بنیادی ضروریات سے بھی محرومی اور غربت افلاس میں اولیت پانے کے بعد اندازہ ہوتا تھا ملک کا یہ بحران ایک نئی صبح لیکر آئے گا، مزدوروں کی نیند ٹوٹے گی، لوگ خواب غفلت سے بیدار ہوں گے اور آئندہ الیکشن میں ایسی حکومت کی کوئی جگہ نہ دیں گے، لیکن کہنے والے کہے جاتے تھے کہ یہ سب دھرم اور فاشزم کے نشے سے چور ہیں، ان کی رگوں میں نفرت بہتی ہے، ان کے دماغ میں مسلم مخالفت اور برہمن وادیت کی کیل ڈھکی ہویی ہے، یہ مر جائیں گے لیکن اپنے دل کی کدورت اور نفرت سے کوئی سمجھوتہ نہ کریں گے۔
واقعہ یہ ہے کہ ہوبہو یہی تصویر سامنے آئی، فاشزم کے سرتاج رواں حکومت نے پھر سے بازی مار لی؛ بلکہ کہیں بہتر اچھال پائی ہے، بہار میں سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے، NDA نے کل ١٢٥/ سیٹیں پائی، جن میں بی جے پی ٧٨ سیٹوں کے ساتھ آگے ہے، تو وہیں مہاگٹھ بندھن متوقع اعداد سے پیچھے رہی، خوشی کی بات یہ ہے کہ مجلس اتحاد المسلمین نے پانچ سیٹیں پائی ہیں، بلاشبہ اس موقع پر مجلس کی یہ کارکردگی لائق تحسین ہے اور امید افزا ہے، حقیقت یہ ہے کہ ساری بحثوں سے ہٹ کر موجودہ وقت میں سیدھی بات یہی ہے کہ مسلمانوں کا اپنا سیاسی پلیٹ فارم مضبوط ہونا چاہئے؛ بہار کی سیاست ہی نہیں بلکہ بنگال میں بھی مجلس اب نمایاں کردار ادا کرے گی، ذرا غور کیجئے! مہاگٹھ بندھن نے مجلس کو اس لائق بھی نہیں سمجھا تھا کہ اسے اپنے متحدہ محاذ میں شامل کرے، ایسے میں کیونکر کہا جائے کہ یہ مسلمانوں کیلئے ہمدر تھے، اسی طرح بی جے پی نے مدھیہ پردیش کے ذیلی انتخابات میں بھی ٢٩ میں سے ١٩- یوپی میں ٧ میں سے ٦ – اور سب سے بڑھ کر گجرات کے اندر ٨ میں سے ٨ سیٹیں اپنے نام کی ہیں، اس انتخاب کو کور کرنے والے تجزیہ نگار خواہ جو بھی نتیجہ پیش کرتے ہوں، تیجسوی یادو کو کمزور، پالیسیوں میں لچک اور منصوبہ بندی میں ناکامی بتاتے ہوں، اور ان کامیابی میں خواتین کیلئے بہتر پالیسیاں، بزرگوں کیلئے ماہانہ اور بچیوں کیلئے نت نئے اسکیم کو اہم مانتے ہوں، یہ سب اپنی جگہ ممکن ہے؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کی سیاسی صورتحال ایک ایسے رخ پر جاچکی ہے جہاں سے فاشزم ہی کا پرچم بلند ہونا ہے، نوکریوں کی بات کرنے اور ترقی کا خواب دکھانے والے نادان ہیں، ان میں بھی سب سے بڑے نادانی وہ مسلمان ہیں جو کسی پارٹی سے بہتری کی امید رکھتے ہیں، کانگریس کو اپنا والی ماننے والے اب تک نہیں سمجھ پا رہے ہیں؛ کہ شطرنج کے سارے مہرے انہیں کے پاس تھے، لیکن انجام کیا ہوا؟ آج دلتوں سے بدتر زندگی کیوں گزاری جارہی ہے؟ چنانچہ اصل کرنے کا کام یہ ہے کہ مسلمان اپنی سیاسی پارٹیوں کو مضبوط کریں، سیکولرازم کا بوجھ اٹھائے پھرنے سے کہیں بہتر ہے کہ اپنی فکر کو آگے رکھیں، جہاں ممکن ہو وہاں دستک دیں، جب تک آپ کے ایم پی اور ایم ایل اے نہیں ہوں گے تب تک آپ کو سیاسی سطح پر بے وقعتی کا سامنا کرنا ہوگا اور ترقی کی راہیں مسدود ہوں گی۔
Comments are closed.