مت ہو نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے

?️:عین الحق امینی قاسمی
ہندوستانی مسلمان خصوصا اہل بہار موجودہ سیاسی صورت حال کے الٹ پھیرسے قطعا دل برداشتہ نہ ہوں ، مایوس ہونا یا احساس کمتری کا شکار ہونا آپ کی کتاب میں کہیں لکھا ہوا نہیں ہے ،ہاں حالات کے مقابلے اور اس سے نبرد آزما ئی کی شکل میں خیر کے حصول اور بہترائی و کامیابی کے لئے جد وجہد کرنے کے سلسلے میں حوصلہ افزائی ضرور کی گئی ہے اور یوں بھی جس قوم کا تعلق سیدنا حضرت ابو بکر کی صداقت ،عمر فاروق کی عدالت سے ہو،عثمان غنی کی سخاوت سےہو ،علی مرتضی کی شجاعت و بہادری سے ہو اور صلاح الدین ایوبی اور محمد غزنوی کے تدبر ایمانی سے ہو ،طارق بن زیاد ،موسیٰ بن نضیر اور فاتح مصر عمر بن العاص رضی اللہ عنھم کی فراست وجواں مردی سے ہو وہ کیوں کر عدم تحفظ کے احساس یا احساس کمتری کا شکار ہوسکتا ہے ،بلکہ وہ تو علی الاعلان یہ کہتا ہوا چند روزہ عارضی زندگی پر فخر کرے گا :
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے ادھر نکلے ،ادھر ڈوبے ادھر نکلے
ہم تو اس نبی امی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے امتی ہونے کا شرف رکھتے جو صبر وتحمل کا پیکر اور حلیم ہے ،اس کے سچے ماننے وا لے غیروں سے خوف نہیں کھاتے ،اس کی نگاہ میں غیر ،عزت وذلت کا مالک نہیں ،اس لئے ہمیں اس اللہ سے عزت وتحفظ کی گہار لگانی ہے جو تمامتر عزتوں اور نوازشوں کا مالک ہے ۔خدا نہ خواستہ اگر ہمارا ذہن ،غیروں سے مرعوب ہونے یا غیروں سے حاجت روائی کا بن گیا ہے تو ذہن کو صاف کرلینا چاہئے کہ دوسروں کے پاس ذرہ برابر بھی ذلیل وخوار کرنے یا حقیقی عزت وتوقیر دینے کی صلاحیت نہیں ہے ،عزت وذلت کا اصل مالک اللہ ہے ۔
ہاں !مگر یہ خیال ضرور رہنا چاہئے کہ اللہ بھی خصوصی توجہ تب کرتا ہے جب بندہ مومن میں اپنے مالک کی غلامی وبندگی بجا لانے کی صلاحیت ہوتی ہے ،جب بندہ اللہ سے تعلق جوڑتا ہے اس کے اوامر ونواہی کو زندگی میں لازمی طور پر جگہ دیتا ہے تو اللہ بھی اس سے خوف وحزن کو ہٹا لیتا ہے ،بلکہ وہ اپنے بندہ مومن کے افکار وخیالات کو اپنی اطاعت وبندگی اور محبوب دوجہاں کی کامل پیروی کے لئےمامور کردیتا ہے ،اسی لئے کہا گیا ہے کہ:
قوت فکر وعمل پہلے فنا ہوتی ہے
تب کسی قوم کی قسمت پہ زوال آتا ہے
جن لوگوں کےمزاج میں اور اس کےفکر وذہن کے گندہ پرتوں میں چال بازی ،عیاری ،مکاری ،منا فقانہ روش اورنفس کو دھوکہ دے کر حدوداللہ سے بغاوت کی بے جاجسارت پنہاں ہوتی ہے ،ایسے ہی لوگ، بددین وبے ایمان قوم سےمحض چند کوڑی پانے کی لالچ میں چاپلوسی کرتے دیکھائی دیں گے ،اپنا الو سیدھا کر نے کی غرض سے ان کے گھٹنوں کے سامنے سر جھکاتے پھریں گے ،وہی دنیا میں بھی ذلیل ورسوا ہوکر دھتکارے جاتے ہیں ،خیر پر جمع ہونے کی توفیق سلب کر لی گئی اور آخرت میں بھی خائب و خاسر ہوں گے ۔
مسلمانوں آپ ایک اللہ کی اطاعت وعبادت کے لئے بنائے گئے ہو ،آپ تو قوموں کو سمت ورفتار دینے کے لئے بھیجے گئے ہو ،تمہارے لئے نہ یہ زیب دیتا ہے کہ تم بات بات پر ان مجبوروں اور بے ثباتوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے لگو اور نہ یہ زیب دیتا ہے کہ تم اپنے عمل وکردار کے ذریعےرب حقیقی سے اتنے دور ہوجاؤ کہ اللہ کی خصوصی نصرت ومدد ،تم سے روٹھ جائے ۔
مسلمانو! کبھی کبھار اپنے ذاتی عمل وکردار کا بھی ضرور محاسبہ کر لو کہ اپنے رب کی اطاعت سے دور ہو یا قریب ۔ یہ بھی یاد رکھنے کی چیز ہے کہ دونوں جہاں کے سردار نبی آخرالزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار اپنی لخت جگر ،حوروں کی سردار حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فر مایا کہ فاطمہ! تم یہ مت خیال کرنا کہ میں رسول کائنات محمد کی بیٹی ہوں ،مجھے یوں ہی بخش دیا جائے گا ، خدا کی بارگاہ میں تمہارے ساتھ بھی تمہارے عمل کے اعتبار سے معاملہ کیا جائے گا ۔
ہم کہاں ہیں ،کس خیال میں خدا کو بھول بیٹھے ہیں ،دین سے غافل ہوکر زندگی جینے کا لطف لے رہے ہیں ،کیا ہمیں یہاں سے اس پار جانا نہیں ہے ؟ دنیا و مافیہا نے ہمیں کتنا اپنا گرویدہ بنا لیا ہے کہ ہمارے پاس رہنے والا نفس بھی ہمیں دغا دے کر خوب موٹا ہورہا ہے ،زندگی کی راہوں میں کبھی فرصت ملے تو پلٹ کر ٹھہرئیے اور گہرائی سے سوچئیے کہ ہم نا فرمانی کرتے کرتے کس حدتک اپنی اوقات سے آگے بڑھ چکے ہیں ،آخرت میں جب خدا ہم سے سوال کرے گا تو کیا کوئی جواب بھی ہم سے بن پڑے گا ؟
ہم سب اللہ کی رحمت اور اس کی مدد کے محتاج ہیں ، اس کی مدد تب متوجہ ہوگی جب ہم اس کی مکمل اطاعت کے لئے اپنے آپ کو صراط مستقیم سے جوڑیں گے ،دین کے پابند بنیں گے ،یاد رکھئے کہ یہ حالات یوں ہی نہیں آتے ،رسوائیاں یوں نہیں ملتیں ،خواہ مخواہ ہم ناکام نہیں ہوتے ،ہماری نمازوں کی حالت ہمیں خوب معلوم ہے ،زبان سے ہم کتنا سچ بولنے کے ماہر ہیں ،اس سے اچھی طرح ہم واقف ہیں ،قول وعمل کے تضاد سے ہمارا کون سا وقت خالی گذرتا ہے ،ہم مسلمان ضرور کہلاتے ہیں ،مگر کیا کبھی ہم نے یہ خیال بھی کیا کہ دل ونگا ہ کو مسلماں بنا نا بھی لازم ہے ۔
زباں سے پڑھ بھی لا الہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
یہ حالات آنے جانے والی چیزیں ہیں اس میں قرار ودوام کبھی نہیں رہا ،یہ وقت کے ساتھ آتے جاتے رہتے ہیں ،بس فرق صرف اتنا ہے کہ کبھی کم اور کبھی زیادہ ۔اس لئے حالات سے گھبرائے بغیر اور کسی عارضی طاقت وقوت سے مرعوب ہوئے بغیر،رب کو راضی رکھ کر ہمیں زندگی جینے کی پوری کوشش کرنی ہے ،جب ہمارا ذہن اس حدتک بن جائے گا اور ہمارے اندر جماؤ پیدا ہوجائے گا تب قوت فکر وعمل سے یہ آواز آئے گی کہ:
جس کام کے لئے آئے ہیں وہ کام نہ بگڑے
سر جائے تو جائے ،مگر اسلام نہ بگڑے
ہار یا جیت کا سلسلہ تو قدیم ہے ،یہ کوئی معیوب یا شرمندہ اور حواس باختہ کرنے والی چیز نہیں ،ہاں ! مگر ناکامی کے دور سے تب ضرور گذرنا پڑتا ہے جب ہم آپس میں متحد ہونے کے بجائے، منتشر ہوتے ہیں اورباہمی اختلاف وانتشار کے شکار ہوتے ہیں ،اسی لئے قرآن میں رہنمائی کی گئی ہے کہ اس برے عمل کی وجہ سے تم پچھڑ جاؤگے اور تمہاری ساکھ داؤ پہ لگ جائے گی ،بلکہ تمہاری ہواتک اکھڑ جائے گی اور ناقابل تسخیر چٹان بن کے رہے تو تمہارا کوئی بال بے کا نہیں کرسکتا ۔
ہزیمت کی صورت میں ایک دوسرے پر الزام تراشی اور بہتان بازی کے ناقابل معافی نظرئیے سے بھی ہمیں خود کو بچانا چاہئے اور یاد کرنا چاہئے کہ غزوہ احد میں دونوں جہاں کے سردار موجود ہیں ،اللہ کے کلمے کو بلند کرنے والا عمل زوروں پر ہے ،جس کے نتیجے میں اسلامی سپاہیوں نے جنگ جیت بھی لیا ،مال غنیمت سمیٹے جانے لگے ،مگر صحابہ کرام کےجس جتھے کو حضور نے گھاٹی پر تحفظ کے لئے تعینات کیا تھا ،ان کی اجتہادی چوک کی وجہ سے جیتی ہوئی جنگ ہم ہار گئے ،جسے غزوہ احد کے نام سے تاریخ اسلام نے محفوظ کیا ہوا ہے ،مگر ہم نے اس پورے قضئیے میں کبھی سردار دوجہاں کو یہ کہتے ہوئے نہیں پڑھا کہ تم لوگوں کی وجہ سے ہم جنگ ہار بیٹھے ،نہ اس جتھے کو آپ لعن طعن کرتے ہیں اور نا ہی انہیں اپنی خفگی کا احساس ہونے دیتے ہیں ،بلکہ آپ صحابہ کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں
اللھم لاعیش الا عیش الآخرہ
اللھم اغفر للانصار والمھاجرہ
ہمیں تاتاریوں کے ظلم وبربریت سے ستائی ہوئی مظلوم مسلم قوم سے سبق لینا چاہئے جن کے خون سے تاتاریوں نے دجلہ و فرات کو رنگین کردیا تھا ،مگر کیا مسلماں نابود ہوگئے ،بلکہ انہیں تاتاریوں کی نسلوں سے اللہ نے کعبے کی پاسبانی کا کام لیا ۔اس لئے ہمیں بھاجپا ،آرایس ایس یا اس کی دیگر تنظیموں کے نظریات سے خوف کھانے کی قطعا ضرورت نہیں ،بلکہ حکمت عملی کے ساتھ ہندوستان جیسے ملک میں لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے ،اسلامی دعوت کو منصوبہ بند طریقے سے اہل وطن کے درمیان مضبوطی سے پیش کرنے کی ضرورت ہے ،متحد ومتفق ہوکر سماجی استحکام کے لئے آگے بڑھنا چاہئے ، ہمیں ایسے کسی بھی عمل میں ملوث ہونے کی ضرورت نہیں ،جو بد نامی وآپسی انتشار کا سبب بنے ۔
اللہ ہم سب کو اپنی مرضی پر چلا کر دونوں جہاں میں کامیابی دے اور دشمنوں کو ناپاک ارادوں میں ناکام کرے ،ذلیل ورسوا کرے ،آمین
Comments are closed.