آپ کے شرعی مسائل؟

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا ۔ بانی وناظم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد

غیر محرم کا تحفہ
سوال:-اسلام میں تحفہ دینا اور قبول کرنا دونوں جائز ہے؛اس لئے اگر کوئی غیر محرم ہمیں تحفہ دے تو کیا اسے قبول کیا جاسکتا ہے ؟ اگر ہم قبول نہ کریں تو اس کی دل شکنی ہوگی ، تو کیا اس سے گناہ ہوگا ؟ ( ایک بہن)
جواب:- یوں تو ایک مسلمان کیا ہر انسان کا تحفہ قبول کرنا جائز ہے ، اور اگر مال حرام ہونے کا شبہ ہو ، یقین نہ ہو،تو تحفہ نہ قبول کرنا بھی درست ہے ؛ لیکن کسی عورت کے غیر محرم سے تحفہ قبول کرنے میں بعض اوقات فتنہ کا اندیشہ ہوتا ہے ، اور جن لوگوں کا ذہن بیمار ہوتا ہے، وہ اس کی وجہ سے غلط امیدیں قائم کرسکتے ہیں؛ اس لیے آپ کو اپنے سرپرستوں کی اجازت کے بغیر ایسا کوئی تحفہ ہرگز قبول نہیں کرناچاہئے ۔
علاج کے لیے بے پردگی
سوال:- اسلام میں بے پردگی نہایت نا مناسب عمل ہے ، لیکن بعض حالات میں مجبوری ہوجاتی ہے ، جیسے زچگی کے لیے ڈاکٹر کے پاس جائیں اور ڈاکٹر آپریشن کو ضروری قرار دیدے ور نہ زچہ یا بچہ کی جان کو خطرہ لاحق ہو ، تو ایسی صورت میں کیا ڈاکٹر کی صلاح پر عمل کرنے کی گنجائش ہے؟ ( محمد بشیر، کھمم)
جواب:- پردہ یقینا شریعت کا نہایت اہم حکم ہے ، اور حتی المقدور اس پر عمل کرنا واجب ہے ، اگر بے پردگی کے سوا چارہ نہ رہے تو لیڈی ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہئے ، اگر لیڈی ڈاکٹر میسر نہ ہو ، تو پھر بقدر ضرورت مرد معالج سے بھی مدد لی جاسکتی ہے:فیہ جواز معالجۃ المرأۃ الأجنبیۃ للرجل الأجنبي للضرورۃ (حاشیۃ صحیح البخاري :۱/۴۰۳)یہی شریعت اسلامی کااعتدال ہے کہ ایک طرف پردہ کا حکم نہایت سخت ہے ؛ لیکن دوسری طرف انسانی مجبوریوں کا اسی قدر پاس و لحاظ بھی ہے ۔
جانور کی نذر
سوال:-میں چھ ماہ قبل سخت بیمار ہوا تھا ، زندگی کی امید نہ تھی ، میں نے اپنی جان کے بدلہ ایک عدد بکرا زکوۃ دینے کی خدا سے منت مانگی تھی ، میں صحت کی جانب تیزی سے رواں دواں ہوں، زکوۃ کی تقسیم کا طریقہ کیا ہے ؟ جتنی رقم میں بکرا خریدا جا سکتا ہے ، اتنی رقم میں گائے ، بیل خریدے جاسکتے ہیں ، کیا یہ تبدیلی درست ہے ، بکرے کی یا بیل و گائے کی عمر کیا ہونی چاہئے ؟ ایک صاحب نے مجھ سے کہا کہ ایسی زکوۃ کا بہتر طریقہ تو یہ ہے کہ اپنے کسی قریبی عزیزوں میں قیمت تقسیم کر دیں ، یا بیت المال میں جمع کروائیں ، یا فقراء کو کھانا کھلادیں ، یا دینی مدارس کو رقم حوالہ کر دیں یا یتیم لڑکے ، لڑکیوں کے کام میں لائیں ، یہ بھی تحریر کریں کہ کیا غیر مسلم کو دی جا سکتی ہے ؟ ( شمیم اختر، ممبئی)
جواب:- اگر کسی جائز چیز کی نذر مان لی جائے تو اس کا پورا کرنا واجب ہے ، اور خود حدیث شریف میں اس کی تاکید آئی ہے (در مختار:۱؍۲۹۴) اس لئے آپ پر ایک بکرے کی قربانی واجب ہے ، جب آپ نے بکرے کی نذر مانی ہے تو آپ پر بکرا دینا ہی واجب ہے ، نہ کہ گائے یا بیل ، جن لوگوں کو زکوۃ دی جاسکتی ہے، ان کو اس جانور کا گوشت بھی دیا جا سکتا ہے ، اگر کسی متعین بکرے کے بارے میں آپ نے نذر نہیں مانی تھی ؛ بلکہ مطلق بکرے کی نذر مانی تھی ، تو ایک سال کا بکرا ہونا چاہئے ، جیسا کہ قربانی کا حکم ہے ، فقہاء نے اس کی صراحت کی ہے :و لا یجوز فیھما إلا ما یجوز فی الأضاحی(بدائع الصنائع:۴؍۲۳۳)
جن لوگوں کو زکوۃ دی جا سکتی ہے ان کو اس بکرے کا گوشت بھی دیا جا سکتا ہے ؛ البتہ زکوۃ کے علاوہ دوسرے صدقات واجبہ غیر مسلموں کو دیئے جا سکتے ہیں ، اگر بکرا ذبح کرنے کی منت نہیں مانی ہے ؛ بلکہ بکرا صدقہ کرنے کی نذر مانی ہے تو کسی مستحق زکوۃ کو پورا جانور بھی صدقہ کیا جا سکتا ہے ۔
بفے سسٹم میں کھانے کی قیمت
سوال:- آج کل بعض ہوٹلوں میں بفے سسٹم رکھا گیا ہے ، جس میں مختلف قسم کے کھانے رکھ دیئے جاتے ہیں ، ہر کھانے والے کے لئے گنجائش ہوتی ہے کہ وہ اپنی خواہش اور ضرورت کے مطابق جو کھانا چاہے کھائے ، وہ جو بھی کھائے ایک ہی اجرت مقرر ہوتی ہے اور اسی کے مطابق پیسے ادا کرنے ہوتے ہیں ، کیا یہ صورت جائز ہے ؟ (ابو البرکات، کلکتہ)
جواب:- اس میں شبہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ قیمت تو متعین ہے ؛ لیکن جو چیز بیچی جارہی ہے ، یعنی ’مبیع ‘وہ متعین نہیں ہے کہ کھانے والا شخص کیا کیا چیزیں کھائے گا اور کتنی مقدار کھائے گا ؟ عام طور پر ایسے ابہام کے ساتھ چیزوں کی خرید وفروخت کو منع کیا گیا ہے —– لیکن در اصل اس طرح کے مسائل عرف و رواج پر مبنی ہوتے ہیں ، جب کوئی عمل معروف ومروج ہوجاتا ہے ،تو مبہم ہونے کے باوجود نزاع کا سبب نہیں بنتا اور جب ابہام اختلاف و نزاع کا سبب نہ بنے تو وہ معاملات کے درست ہونے میں رکاوٹ نہیں بنتا ہے ، جیسا کہ فقہاء نے حمامات کا مسئلہ لکھا ہے کہ کوئی شخص کتنا پانی استعمال کرے گا اور کتنی دیر حمام میں رہے گا ،یہ متعین نہیں ہوتا ، اس کے باوجود عرف کی وجہ سے فقہاء نے اس سے کرایہ پر استفادہ کرنے کی اجازت دی ہے : لأن الناس في سائر الأمصار یدفعون أجرۃ الحمام وإن لم یعلم مقدار ما یستعمل من الماء، ولا مقدار القعد، فدخل إجماعہم علی جواز ذلک، وإن کان القیاس یأباہ لورودہ علی إتلاف العین مع الجہالۃ (رد المحتار علی الدر المختار : ۹؍۷۱ ، باب الإجارۃ الفاسدۃ ، مطلب في حدیث دخولہ علیہ الصلاۃ والسلام الحمام ) یہ صورت بھی اسی نوعیت کی ہے کہ اگر چہ کھائی جانے والی شئ اور اس کی مقدار متعین نہیں ہوتی ؛ لیکن اب چوںکہ یہ طریقہ مروج ہوچکا ہے اور اس کی وجہ سے کوئی نزاع پیدا نہیں ہوتی؛ اس لئے اس میں کوئی حرج نہیں ۔
قضا ء نمازوں کا فدیہ
سوال:- ایک کتاب میں پڑھا ہے : ’’اگر کسی کی بہت سی قضاء نمازیں باقی ہیں ، جس کی قضا ادا نہ ہوسکی تو وقتِ آخر یعنی نزع کے وقت اپنے ورثہ کو وصیت کردے کہ میرے مال میں سے میری ہر نماز کے عوض فدیہ ادا کریں ، ہر نماز کے عوض ڈھائی سیر گیہوں یا اس کی قیمت کسی محتاج یا مسکین کو دے دیں اور اللہ سے امید رکھے کہ فرض کا بوجھ اس کے ذمہ سے اتر جائے گا‘‘ کیا یہ صحیح ہے ؟ (معظم خان، رانچی)
جواب:- آپ نے جو عبارت نقل کی ہے ،یہ اپنے مضمون کے اعتبار سے درست ہے اور فقہاء کی صراحتوں کے مطابق ہے ؛ چنانچہ علامہ حصکفیؒ فرماتے ہیں : ولو مات وعلیہ صلوات فائتۃ …… (الدر المختار علی ہامش الرد، باب قضاء الفوائت: ۲؍۵۳۴) اگر کسی شخص کا انتقال ہوجائے اور چند فوت شدہ نمازیں اس کے ذمہ باقی ہوں اور وہ کفارہ کی وصیت کرجائے تو صدقۃ الفطر کی طرح ہر نماز کے عوض نصف صاع گیہوں ادا کیا جائے گا ، وتر کا اورروزے کا بھی یہی حکم ہے ؛ البتہ یہ وصیت اس کے ترکہ کے ایک تہائی میں سے پوری کی جائے گی، صحیح تحقیق کے مطابق صدقۃ الفطر کی مقدار موجودہ اوزان میں ایک کیلو سات سو گرام کے قریب ہوتی ہے ؛ اس لئے ہر نماز کے عوض اتنی مقدار گیہوں صدقہ کرنا چاہئے یا کسی محتاج شخص کو دو وقت کا کھانا کھلادینا چاہئے ۔
معذور کا اسٹول پر سجدہ
سوال:- ہماری مسجد میں ایک صاحب فالج کی وجہ سے کرسی پر بیٹھ کر اور سامنے اسٹول رکھ کر اس پر سجدہ کرتے ہیں ، اس کے بعد ایک اور صاحب اسی طرح کی شکایت کی وجہ سے کرسی پر نماز پڑھنے لگے ، وہ سامنے اسٹول رکھے بغیر نماز ادا کرتے ہیں ، ان صاحب نے پہلے شخص پر اعتراض کیا کہ اس طرح سامنے اسٹول رکھ کر نماز پڑھنا جائز نہیں ، براہِ کرم اس سلسلہ میں رہنمائی فرمائیں ؟ ( محمد بلال، حسن نگر)
جواب:- مجبوری کی وجہ سے سامنے اسٹول رکھ کر اس پر نماز ادا کرنا درست ہے؛ البتہ یہ ضروری ہے کہ سرجھکانے کی کیفیت پائی جائے ؛ کیوںکہ معذور شخص کے رکوع وسجدہ کی اصل کیفیت سرکا اشارہ ہے ، جن صاحب نے اسے ناجائز قرار دیا ہے ، شاید انہیں غلط فہمی ہوئی ہے ، ایک صورت یہ ہے کہ کسی چیز پر پیشانی رکھنے کے بجائے اس شئ کو اٹھا کر اپنی پیشانی سے لگالیا جائے ، یہ صورت مکروہ ہے ، دوسری صورت یہ ہے کہ زمین پر کوئی چیز رکھی ہوئی ہو اور اس پر سجدہ کیا جائے ، یہ صورت جائز ہے؛ بلکہ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے رسول اقدس ا کے سامنے ایک تکلیف کی وجہ سے اس طور پر سجدہ کرنا ثابت ہے ، علامہ شامی ؒ نے اس پر تفصیل سے گفتگو کی ہے : فإن کانت الوسادۃ موضوعۃ علی الأرض وکان یسجد علیہا جازت صلاتہ (رد المحتار: ۲؍۵۶۸)
پانی میں ناخن یااس کا پانی
سوال:-کیا غسل کے پانی میں ناخن ڈوبنے سے یا ناخن کا پانی غسل کے پانی میں گرنے سے پانی ناپاک ہوجاتا ہے، اور غسل درست نہیں ہوتا ؟ یہ بھی سنا ہے کہ پیتل کے برتن میں پانی لے کر غسل کرنا درست نہیں ہے، کیا یہ درست ہے ؟ ( محمد کوثر، حمایت نگر)
جواب:- اگر ناخن میں کوئی نجاست لگی ہوئی نہ ہو ،تو اس کے ڈوبنے سے یا اس کا پانی گرنے سے ناپاکی پیدا نہیں ہوتی: والظفر لا یفسد الماء (ہندیہ: ۱؍۲۵)اور یہ بھی درست نہیں کہ پیتل کے برتن میں رکھے ہوئے پانی سے غسل نہیں کرنا چاہئے ، یہ سب غلط فہمیاں ہیں ۔
محرم کو ہبہ کی ہوئی چیز کا حکم

سوال:- ایک خاتون کی کئی اولادیں ہیں، اس خاتون کو ان بیٹوں میں سے کچھ بیٹے اپنی والدہ کو تحفہ میں سونے کے زیورات دئیے تھے، اب اس خاتون (والدہ) کا انتقال ہو چکا ہے، سوال یہ ہے کہ جو تحفہ سونے کے زیورات ہیں، کیا دئیے ہوئے بیٹے واپس لے سکتے ہیں، یا یہ زیورات میراث میں شامل ہوں گے اور میراث کی طرح تقسیم ہوں گے؟ (عبداللہ، مہدی پٹنم)
جواب: اولاد اپنے ماں باپ کو جو کچھ ہبہ کرے، ماں باپ اس کے مالک ہو جاتے ہیں، اب اگر ہبہ کرنے والی اولاد اُسے واپس لینا بھی چاہے تو واپس نہیںلے سکتی؛ کیوں کہ محرم رشتہ دار کو جو چیز ہبہ کی جائے، اس میں اس سے رجوع کرنے اور اسے واپس لینے کی گنجائش نہیں ہوتی :
’’ ولا یرجع فی الھبۃ من المحارم بالقرابۃ، کالآباء والأمھات وان علوا، والأولاد وان سفلوا، أو لاد البنین وأولاد البنات فی ذلک سواء، وکذا الأخوۃ والأخوات والأعمام والعمات‘‘ (فتاویٰ قاضی خان، کتاب الہبۃ، فصل فی الرجوع فی الہبۃ: ۳؍۱۴۲)
اور ذی رحم رشتہ داروں سے ہبہ میں دی ہوئی چیز قرابت کی وجہ سے واپس نہیں لے سکتے ہیں، جیسے: باپ، دادا ، ماں،نانی وغیرہ؛ اگرچہ اوپر تک ہو، اور اولاد اگرچہ نیچے تک ہو، بیٹے کی اولاد اور بیٹیوں کی اولاد اس حکم میں سب برابرہیں، اور اسی طرح بھائی، بہنیں، چچا اور پھوپھیوں وغیرہ کو ہبہ کرنے کا ہے۔
۰ ۰ ۰

Comments are closed.