ان پر عمومی قہر بھی برس سکتا ہے۔  محمد صابر حسین ندوی

ان پر عمومی قہر بھی برس سکتا ہے۔

 

محمد صابر حسین ندوی

[email protected]

7987972043

 

 

 

عالمی خبر رساں الجزیرہ کے علاوہ متعدد ذرائع ابلاغ کے مطابق انفرادی معاملات سے متعلق پرسنل لا میں متحدہ عرب امارات نے غیر معمولی تبدیلیاں کرتے ہوئے غیر شادی شدہ جوڑوں کو ایک ساتھ رہنے کی اجازت دے دی ہے اور شراب سے متعلق سختی میں بھی نمایاں کمی کر دی ہے۔ الجزیرہ کی ایک رپورٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ نئے قوانین کے بعد نام نہاد "غیرت کے نام پر قتل” ایک قابل گرفت جرم ہوگا۔ حکومت کا یہ ماننا ہے کہ یہ قانونی اصلاحات بنیادی طور پر "رواداری کے اصولوں” کو مستحکم کرنے اور ملک میں سرمایہ کاری کے ماحول کو بہتر بنانے کی کوششوں کا حصہ ہیں۔ نئی تبدیلیوں کے تحت اکیس سال یا اس سے زائد عمر کے افراد کے لیے شراب نوشی اور فروخت کی سزائیں ختم کردی گئیں ہیں۔ قانونی اصلاحات کا اعلان کل سرکاری نیوز ایجنسی "ڈبلیو ای ایم” پر کیا گیا تھا اور سرکاری اخبار "دی نیشنل” میں اس کی تفصیل بتائی گئی۔ متحدہ عرب امارات میں پہلے شہریوں کو شراب خریدنے، نقل و حمل کرنے اور گھروں میں رکھنے یا پینے کیلئے لائسنس کی ضرورت ہوتی تھی، اس نئے قانون کے تحت بظاہر آزادانہ طور پر شراب پینے کی اجازت ہوگی۔ ایک اور ترمیم کے تحت "غیر شادی شدہ جوڑوں کو ہم آہنگی” کی اجازت دی گئی ہے جو طویل عرصے سے متحدہ عرب امارات میں جرم رہا ہے۔ دی نیشنل کے مطابق ایسے مردوں کے لیے سخت سے سخت سزا ہوں گی جو خواتین کو کسی بھی طرح ہراساں کرتے ہیں۔ اس سے پہلے یہ خبر بھی آچکی ہے کہ متحدہ عرب امارت نے فرانس کا ساتھ دیتے ماکرون کی حمایت تک کی تھی، ان کے ایک مشاور نے باقاعدہ توہین رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے تئیں نرم رویہ اختیار کرتے ہوئے فرانس کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا عندیہ دیا تھا، بلکہ یہ باور کروایا گیا تھا کہ توہین رسالت پر قتل کی سزا یا پھر واویلہ کرنا غیر شرعی ہے، ہر ملک کے اپنے قوانین انہیں کی پاسداری کی جائے گی، اگر کہیں اسلامی حکومت نہیں ہے تو وہاں توہین کا کوئی مسئلہ ہی نہ ہوگا۔

یہ حقیقت ہے کہ عرب امارات جزیرہ عرب پر ایک داغ ہے، سیدنا و مولانا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک سرزمین پر بدنما دھبہ ہے، اس نے اسلامی حکومت اور قرآن و حدیث کا نام لیکر بے حیائی و عریانیت کا بازار گرم رکھا ہے، آج دنیا جانتی ہے کہ عیش پرستی کیلئے دبئی کس قدر مقبول و معروف ہے، وہ کھلے عام اصلاحات کے نام پر اسلامی قوانین و ضوابط بلکہ اس کی بنیادوں پر حملہ کر رہے ہیں، قرآنی آیات کو روند رہے ہہ، ترقی کی خاطر زنا اور شراب نوشی کو جائز ٹھہرا رہے ہیں، سیاحت کو بڑھاوا دینے کیلئے اسلامی احکام کا سودا کر رہے ہیں، نیز ان کے برعکس جو دین اور حقیقی اسلام کی باتیں کرتا ہے، جو غیرت اسلام اور حمیت دین کی حمایت کرتا ہے اسے سازشی دنیا کے حوالے کرتے ہوئے باقاعدہ اس کا مقاطعہ کرتے ہیں، بھلا! ترکی کی دینی حمیت کسی سے پوشیدہ نہیں، سیاسی غرض بھی ہو تب وہ اسلامی علم تھامے ہوئے خوب جچتا ہے؛ لیکن اس وقت ان کا سعودی عرب کے بعد سب سے بڑا دشمن عرب امارات ہی ہے، وہاں کی حکومت کے قریب ترین ایک فرد حمد المزروعي نے پچھلے مہینہ ترکی میں واقع ایک زلزلہ کے بعد یہ ٹوویت کیا تھا؛ کہ "جمعہ کے وقت ترکی کی تمام مساجد میں فرانس کی تباہی کی دعا ہوئی، اور اللہ نے ازمیر (ترکی کا وہ شہر جو زلزلے سے متاثر ہوا تھا) میں دعا قبول ہوئی” – ان کی خوشی اور لعن و طعن سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کسی صہیونی اور صلیبی فکروں اور سازشوں کے جال میں پھنس چکے ہیں، ان کے دل سے ایمانی بھائیوں کی محبت بھی نکل چکی ہے؛ بلکہ وہ انسانیت بھی ختم ہوچکی جس سے ایک انسان دوسرے انسان کے ساتھ ہمدردی و رواداری اور خیر خواہی کا معاملہ کرتا ہے، وہ بھول چکے ہیں کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وارثین ہیں، وہ مقدس سرزمین سے تعلق رکھتے ہیں، اللہ تعالی نے انہیں دنیا کی نعمتوں سے مالا مال کیا ہے، اگر وہ شکریہ بجا نہیں لاتے تو عذاب کا بھی شکار ہوسکتے ہیں اور ایک عمومی قہر ان پر برس سکتا ہے۔

 

Comments are closed.