تحقیقی و صالح تنقیدی مزاج پیدا کرنا نہایت ضروری ہے

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی
شعبہ دینیات سنی،علیگڑھ مسلم یونیورسٹی، علیگڑھ

اگر ہم ماضی کے جھروکوں میں جھانکتے ہیں تو ہمیں مسلمانوں کی ہر میدان میں انتھائی صحت مند اور تابناک تاریخ کا پتہ چلتا ہے۔ علم معاشیات ، سائنس وفلسفہ ، تقابل ادیان یا فن ترجمہ نگاری جیسے اہم شعبوں میں مسلمانوں کی گرانقدر خدمات ہیں۔ یہی نہیں بلکہ سیاست و امامت اور تدبر و آ گہی سے لیکر شعبہ تعلیم میں بھی ہماری کارکردگی قابل رشک اور لائق اتباع تھی۔ اس کا اعتراف دنیا کے تمام مورخین و مصنفین نے کیا ہے۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم نے اپنے تابناک ماضی کے تمام نقوش خود مٹادیئے بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ہماری سابقہ عظمت سے استفادہ ان قوموں نے زیادہ کیا جو آ ج دنیا پر اپنی اجارہ داری کا دعوے کرتی ہیں۔ خوشحال قوموں کا یہ وطیرہ رہا کہ انہوں نے اپنے مستقبل کو روشن بنانے کے لئے ہمیشہ اپنے مقاصد و اہداف کو سامنے رکھا اور منصوبہ بند طریقے سے اپنا کام کیا۔ تحقیق و تصنیف اور تنقیدی معیار کو سنجیدہ بنایا۔ نیز اہم بات یہ بھی ہے کہ ان افراد نے کسی بھی نئی چیز کے وقوع پذیر یا ایجاد و اختراع ہونے کے بعد یکایک مخالفت ونکیر نہیں کی بلکہ اس کے مالہ وماعلیہ کا سنجیدگی اور متانت سے جائزہ لیا اس کے منفی اور مثبت پہلوؤں پرنگاہ تدبر و تفکر ڈالنے کے بعد کوئی نتیجہ اخذ کیا۔ جذباتیت اور اشتعال انگیزی سے حتی المقدور دوری بنائی۔ یہی وجہ ہیکہ جن معاشروں کے اندر غور وفکر اور مہذب تنقید و تحقیق کا شعور موجزن ہوجاتا ہے۔ وہ اپنے وجود کو دنیا کے سامنے معتبرو اہم بناکر پیش کرتی ہیں۔ بلکہ دنیا کی دیگر تہذیبوں کے لئے وہ مشعل راہ بن جاتی ہیں۔ آ ج دنیا کا ایک طبقہ مغربی طرز تحقیق اور ان کے افکار و نظریات کو مثالی سمجھتا ہے۔ اس کی وجہ بھی ہے کیونکہ جس معیار کے تعلیمی ادارے اور جن اسباب و آ لات سے وہ لیث ہیں۔ اس قدر اشیاء اور تحقیقی و تعلیمی نظام شاید کسی بھی مسلم ملک میں ہو۔ یاد رکھئے جب قومیں زوال پذیر ہوتی ہیں تو سب سے پہلے ہوشیار اور طاقتور ترین معاشرے بڑی دانشمندی سے ان کا رشتہ ماضی سے منقطع کر دیتے ہیں۔ آ ج مسلمانوں کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ کچھ تو ہم نے خود اپنی تاریخ و تہذیب کی بے قدری کی اور ماضی کو سامنے رکھ کر جن خطوط کو اختیار کرنا چاہئے تھا وہ ہم نے پس پشت ڈال دیئے۔ ادھر مغربی اور زعفرانی طاقتوں نے مسلم کمیونٹی کو جان بوجھ کر ان کو ماضی سے برگشتہ کیا۔ اس لئے ہمارے تابناک ماضی کے وہ انمٹ نقوش ہیں جنہیں ہم نے کم اور اغیار نے زیادہ سود مند سمجھ کر اپنی پہچان و شناخت بنائی ہے۔ ذرا سوچئے اور غور کیجئے کہ ہم کیا تھے اور کیا ہوگئے۔ جس قوم نے دنیا کی امامت وسیاست کا فریضہ انجام دیا تھا آ ج وہ دنیا کے ہر ملک میں تقریباً ہر میدان و محاذ پر نہ صرف پسپا ہوئی ہے۔ بلکہ نابود و معدوم سی ہوچکی ہے۔ فکری شعور ، مدبرانہ و قائدانہ استعداد میں بھی ہم بہت گرے ہوئے ہیں۔ جہاں آ ج ہمیں اپنے وجود و حیثیت کو بحال کرنا ہے وہیں ہمیں اپنے کردار ورویہ میں شائستگی پیدا کرنی ہے ۔ اسی کے ساتھ ہمیں اپنے اندر تحقیقی مزاج اور صالح تنقید کا رواج بھی پروان چڑھانا ہوگا وہیں سیاسی فہم وفراست بھی پیدا کرنی ہوگی۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ جب قومیں اپنے وجود و بقاء کے لئے آ گے آ تی ہیں تو انہیں کہیں نہ کہیں اپنوں اور غیروں کی بے جا تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان تمام احوال و کوائف کو مد نظر رکھتے ہوئے آ گے بڑھنے کا منصوبہ بنانا ہوگا۔ اس کے لئے سب سے اہم بات تو یہ ہیکہ آ ج دنیا کے منظر نامے پر جس طرح مسلم کمیونٹی کو پیش کیا جارہا ہے۔ وہ ناگہانی یا غیر دانستہ نہیں ہے بلکہ اس کے لئے مخالفین نے صدیوں سے منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ ان کا واحد مقصد ہے کہ مسلمانوں کو کمزور کرنے کے لئے تحریر و تقریر اور دیگر ذرائع کا استعمال کیا جائے۔ یہی وجہ ہیکہ آ ج انہیں متشدد اور جنونی جیسے القاب سے یاد کرنے کی جسارت کی جارہی ہے۔ مذہب اسلام کو بھی کہیں نہ کہیں نشانہ بنا یا جاتا ہے۔ اور اس کا نام اظہار رائے کی آزادی رکھا جاتا ہے۔ ان کے اس پروپیگنڈہ سے مسلمانوں میں خوف و ہراس کے ساتھ مایوسی اور احساس کمتری کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ خصوصا نوجوان طبقہ آ ج بھی متعدد شکوک وشبہات میں مبتلا دکھائی دے رہا ہے۔ ان کے اس منفی پروپیگنڈہ کو نیست و نابود کرنے کے لئے کئی محاذ پر انتھائی دانشمندی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک تو یہ جو ایجنسیاں اور ادارے اسلام اور مسلمانوں کو سب و شتم کا نشانہ بناتے ہیں دیکھنا یہ ہیکہ وہ کن چیزوں اور کن ذرائع کا استعمال کرتے ہیں ۔ اگر وہ ادب و لٹریچر اور تحریر کا استعمال کرتے ہیں تو اس کا جواب بھی اسی نہج اور ان کی ہی زبان میں دینے کی ضرورت ہے ۔ اگر معاندین اس کے علاوہ کوئی سبب اپنا کر مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرتے ہیں تو پھر ہمیں بغیر کسی احتجاج و مظاہرے اور اشتعال و بر انگیختہ ہونے کے علمی اور تحقیقی طور پر اس کا جواب دینا ہوگا۔ شدت پسندی کہیں بھی ہو کسی بھی قوم اور معاشرے میں ہو اس کے نتائج مایوس کن اور متنفرانہ ہی ہوتے ہیں۔ اس لئے شدت پسندی سے بچنا اور مخالفین و معاندین کا سنجیدگی سے جواب دینا ہی دانشمند اور با شعور قوموں کی علامت ہے۔ المیہ یہ ہیکہ ہمارے اندرسے اب آ ہستہ آ ہستہ وہ تمام صفات اور پاکیزہ خصال مٹتی جارہی ہیں جن کی بنیاد پر ہم نے تعلیم وتحقیق اور اخلاق وکردار میں نمایاں مقام حاصل کیا تھا۔ افراد سازی اور کردار سازی سے مستقل لا ابالی پن ہمیں پستی کی جانب دھکیل رہا ہے۔ آ ر ایس ایس کے چیف موہن بھاگوت نے 2019 کے عام انتخابات کے نتائج آ نے کے بعد ایک صحافی کے جواب میں کہا تھا کہ "ہم احتجاج و مظاہرے نہیں کرتے ہیں بلکہ افراد تیار کرتے ہیں” سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملکی سطح پر ہمارے پاس اس طرح کے کتنے ادارے اور تنظیمیں ہیں جو افراد سازی کے لئے کام کررہے ہیں ؟ نتیجہ صفر ہے۔ اب ذرا سوچئے کہ آ خر جو کام بے لوث ہوکر ہمیں کرنا چاہئے تھا آ ج اس طریقہ کو غیروں نے اپنا لیا اسی وجہ سے وہ تعمیر و ترقی اور خوشحالی کی اعلی منازل پر فائز ہیں۔
دنیا میں یوں تو بہت سے مسائل ہیں جن پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ جو اصل کام ہے وہ یہ کہ ہم متحد و یکجا ہوکر سماجی سطح پر ملت میں خوشحالی اور ترقی و بحالی پیدا کرنے کے لئے ہمیں افراد سازی پر خاصی توجہ دینی ہوگی۔ افراد سازی کی تحریک ہمیں مکی عہد سے بھی بخوبی ملتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کی تیرہ سالہ زندگی میں افراد سازی، اخلاق سازی اور کردار سازی پر خصوصی توجہ دی ہے۔ آ ج ہندوستان میں جو حالات ہیں اور مسلم کمیونٹی کو سیاسی طور پر حاشیہ پر لاکھڑا کیا ہے۔ اس سے ہندو شدت پسندی کی طرف ملک بڑھ رہا ہے۔ لہذا ملک کی سیکولر روایات کو مستحکم کرنا اور اس کے لئے جد وجہد کرنا ہماری تہذیب کا حصہ ہے۔ جب ہم تعلیم و تحقیق اور صالح تنقید و تجزیہ جیسی دولت سے سرفراز تھے تو ہمارا وجود اور کا کردگی غیروں کے لئے لائق اتباع تھی ۔ جب سے ہم نے تعلیم و تحقیق اور اس کے لوازمات سے توجہ منحرف کی ہے تب سے ہم بری طرح رسوا ہوئے ہیں ۔ اسی کے ساتھ ہمیں کسی بھی نئی تحقیق پر فورا بر انگیختی سے بچنا ہوگا۔ نیز اس کی قدر بھی کرنی ہوگی۔ بلا سمجھے کسی بھی تحقیق پر منفی ردعمل کا اظہار مہذب قوموں کہ شناخت نہیں ہے۔ اگر کوئی بات لائق اعتراض ہے تو یقینا اس کا جواب دینا اور اپنے منفی نظریہ کا استعمال کرنا ضروری ہے لیکن اس کے لئے اس کردار کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے جس سے ہمارا علمی معیار و وقار بھی قائم ہوجائے اور مخالفین کو دندان شکن جواب بھی مل جائے۔ آ خری بات یہ ہیکہ آ ج دنیا میں سب سے زیادہ معزز و محترم اور با اثر وہی معاشرے ہیں جنہوں نے اپنے آ پ اور اپنی نسلوں کو جدید ٹیکنالوجی سے آ راستہ کر رکھا ہے۔ لہذا اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خود بھی اور اپنی نسلوں کو بھی جدید ٹیکنالوجی اور قدیم علوم و معارف سے مزین کریں۔ تحقیق و تالیف اور تصنیف و ترتیب کے جدید اصولوں کو اختیار کریں۔ سرخ رو ہونے کے لئے اور تحقیقی و تصنیفی مزاج کو پر کیف اور لائق اتباع بنانے کے لئے تنقید جیسی روایت کو بھی اختیار کرنا ہوگا۔ اس کے لئے تحمل ، برداشت اور سنجیدگی ہر حال میں قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔ تحقیق و تعلیم میں تنقیدی شعور و مزاج کی اتنی ضرورت جیسے کسی بھی چیز میں نمک کی ضرورت ہوتی ہے۔ بغیر نمک کے اچھے سے اچھا قورمہ بد مزا ہوتا ہے اسی طرح بغیر تنقید کے کوئی بھی علمی کام بے روح اور بے اثر رہ جاتا ہے۔ لہذا صالح تنقید کو فروغ دینا اور اس کے لئے برداشت کرنا ہماری تعلیمی روایات کو یقینی بنانے کا اہم ذریعہ ہے۔

Comments are closed.