کتاب، مصنف اور قاری۔۔۔۔‌ ہم کیوں نہیں لکھتے پڑھتے اوباما کی کتاب ہاٹ کیک ! تحریر: مسعود جاوید

کتاب، مصنف اور قاری۔۔۔۔‌ ہم کیوں نہیں لکھتے پڑھتے
اوباما کی کتاب ہاٹ کیک !

تحریر: مسعود جاوید

اشاعت کے پہلے دن ہی اوباما کی کتاب کی نو لاکھ کاپیاں فروخت ہو گئیں! یورپ اور امریکہ کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بہت زیادہ تعجب خیز نہیں ہے ۔۔۔ اس کی کئی وجوہات ہیں سب سے پہلی وجہ کتاب پڑھنے بلکہ خرید کر پڑھنے کا شوق، ڈیجیٹل انقلاب کے باوجود، باقی ہے۔ دوسری وجہ کہ اجمالی طور پر کتاب کے مواد content کے بارے میں اشاعت سے قبل ہی لوگوں کو معلوم ہو جاتا ہے اور وہ اس طرح کہ اس کتاب کے بارے معتبر اخبارات و رسائل میں اشاعت سے پہلے ہی تجزیہ تبصرہ اور تنقیدی رائے پر مبنی مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں جو اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والوں کے اندر تجسس پیدا کرتے ہیں اور وہ کتاب کے منظر عام پر آتے ہی پہلی فرصت میں خریدنے کے لئے بیتاب ہوتے ہیں۔ چنانچہ جیسے ہی بک اسٹال پر کتاب رکھی جاتی ہے کتاب چھوہارا ہو جاتی ہے یا یوں کہیں ہاٹ کیک کی طرح فروخت ہوجاتی ہیں۔ آن لائن فروخت کرنے والی کمپنیاں مہیا ہونے کی تاریخ کا اعلان کرتی ہیں اسی وقت سے آرڈر پلیسمینٹ شروع ہو جاتا ہے۔

اس کے برعکس ہمارے یہاں بالخصوص اردو کی کتاب مصنف مؤلف اور قاری کی صورتحال امریکہ اور یورپ سے بالکل مختلف اور تکلیف دہ ہے۔ کتاب کی تصنیف وتالیف جس عرق ریزی سے کی جاتی ہے مصنف کو اس کا حقیقی معاوضہ تو ادا نہیں کیا جاسکتا تاہم ان کتابوں کے خریدنے سے مصنف کی حوصلہ افزائی اور ناشر کی سرپرستی ہوتی ہے۔ سرپرستی کے نتیجے کے طور پر ناشر کو جو منفعت حاصل ہوتی ہے اسی سے وہ مصنف کو رائیلٹی یا کاپی رائٹ کے نام پر ایک متعین رقم ادا کرتا ہے۔
ہمارے یہاں ایسی خبریں بالخصوص اردو میں لکھی کسی کتاب کے بارے میں کم از کم میں نے نہیں سنی کہ بک اسٹورز میں آتے ہی اتنی بڑی تعداد میں کتاب کا اسٹاک ختم ہوگیا اور دوسرا ایڈیشن کا انتظار ہو رہا ہو۔ اس کی کئ وجوہات ہیں :-
١- اردو زبان میں ادبی کتابیں تو منظر عام پر آتی رہتی ہیں مگر جب اردو زبان خود حالت زار میں ہو اور اردو پڑھنے والوں کی تعداد دن بدن کم ہو رہی ہو ایسی صورت میں اردو ادب ، شعراء کے دیوان ، افسانوں کے مجموعے، سفرنامے، سوانح حیات، memoirs پڑھنے والے اس ملک میں کتنے ہوں گے! ظاہر ہے جن اسکولوں میں ١٠ فیصد سے زائد اردو پڑھنے والے ہیں ان ریاستوں میں بھی اردو کو یا تو دوسری سرکاری زبان کا درجہ نہیں دیا گیا اور جہاں دیا گیا وہاں اسکولوں میں اردو ٹیچر اور نصابی کتب مہیا نہیں ہوتیں اس سے تنگ آکر اردو کے خواہشمند طلباء اردو نہیں لے پاتے انجام کار نئی نسل اردو سے بے بہرہ ہو رہی ہے ایسے میں اردو کتب کا ڈیمانڈ کہاں سے ہوگا۔
٢- اردو زبان میں لکھنے والے سرکاری و غیر سرکاری عہدوں سے سبکدوش بے شمار شخصیات تھیں اور ہیں لیکن عموماً ہمارے ریٹائرڈ سرکاری اعلی عہدیداران یا تو لکھتے نہیں ہیں اور اگر لکھتے بھی ہیں تو انگریزی زبان میں۔‌ حال ہی میں دو کتابیں ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل ضمیر الدین شاہ کی خود نوشت سوانح "سرکاری مسلمان” The Sarkari Mussalman
اور کانگریسی لیڈر سلمان خورشید صاحب کی کتاب
Visible Muslim, Invisible Citizen
یہ دونوں اور ان جیسی متعدد کتابیں عام مسلمانوں کی دلچسپی کی ہوتے ہوئے بھی اردو میں غالباً مہیا نہیں ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ اردو شعر و شاعری اور افسانوں کی زبان بن کر رہ گئی ہے۔ شاید اس لئے کہ ہمارا ایلیٹ طبقہ اس زبان میں لکھتا پڑھتا نہیں ہے اور ریٹائرڈ اعلی عہدیداران لکھنے لکھانے کی صلاحیت کے باوجود اپنی یادداشت ہی سہی نہیں لکھتے۔ چھوٹی منہ بڑی بات ۔۔ شاید ریٹائرمنٹ کے بعد بھی سرکاری عتاب کا انہیں خدشہ رہتا ہے۔ کاش ہمارے ہمارے ریٹائرڈ جسٹس صاحبان ” عدل- انصاف- فیصلہ ” شواھد کے مقابل ضمیر کی آواز کی کشمکش” جیسی یاد داشت لکھ کر ہمیں مستفیض کرتے، نوکر شاہی اور پولیس محکمے کے اعلی افسران اپنی یادداشت ” پولیس کی ڈائری سے” لکھ کر افسران پر سیاسی دباؤ یا مافیا کی دھمکی کے مقابل فرض نبھانے کی سرگزشت لکھتے تو ہم بھی ان کتابوں کی منظر عام پر آمد کے منتظر ہوتے۔
لیکن جب ہمارے یہاں اشاعت سے پہلے تبصرے چھپنے کا معمول نہیں ہے تو ان کتابوں کو پڑھنے کے لئے بے تابی کس طرح ہوگی۔ عموماً ہمارے یہاں کتاب چھپنے کے بعد ناشر اور اگر ناشر نہیں تو بے چارہ مصنف اپنی کتاب اخبار ورسائل کو بھیجتا ہے اور درخواست کرتا ہے کہ اس کتاب پر تبصرے شائع کریں۔ لیکن بسا اوقات تبصرے اتنے ناقص ہوتے ہیں کہ وہ تبصرے کم اور کتاب کا تعارف زیادہ ہوتا ہے۔ ظاہر ہے تبصرہ نگار مثال کے طور پر کسی سفرنامہ پر تبصرہ لکھنا چاہے تو اس کا غیر ممالک کے سیاسی، سماجی اور ثقافتی حالات سے واقف ہونا ضروری ہے۔ مگر میں نے کئ ایسے تبصرے پڑھے جس میں شاید تبصرہ نگار کی زبان دانی کا دخل تھا اسی لئے انہوں نے اسی کتاب سے اقتباسات اور اپنی فصیح و بلیغ زبان سے تبصرہ کرنے کا فرض پورا کر دیا۔ ایڈیٹر صاحب بھی خوش ناشر بھی خوش۔ یہ ہیں اردو زبان کے مسئلے۔۔۔ اردو زبان میں لکھنے کی صلاحیت سائنسی مضامین لکھنے کا اہل نہیں بناتا۔۔۔۔ لیکن ہمارے اخبارات میں ایک ہی ایڈیٹر یا سب ایڈیٹر قانونی معاملات پر بھی اداریہ لکھتا ہے ، مالی اور اقتصادی پالیسی پر بھی مضامین لکھتا ہے اور دینی و فقہی مسائل پر بھی۔ شاید وسائل کی قلت اس کا سبب ہے۔

Comments are closed.