Baseerat Online News Portal

عظمت پارینہ کا نوحہ ___ محمد صابر حسین ندوی

 

عظمت پارینہ کا نوحہ

 

*ملک عزیز میں ان دنوں گیروا رنگ کا گہرا ہونا، فسطائی طاقتوں کا مضبوط ہونا، اقتدار پر فاشسٹوں کا براجمان ہونا اور پھر ان کی خطرناک پالیسیوں کے درمیان انسانیت اور مسلمانوں کی عظمت رفتہ پر نوحہ کرنے کو دل کرتا ہے، غور کیجئے_! ہندوستان کی اصل بھاگ دوڑ بھری زندگی میں مسلمانوں کا وجود حاشیہ پر ہے، بلکہ قریب ہے کہ اس حاشیہ سے بھی گرادیا جائے، سیاست، معیشت اور معاشرت ہر میدان میں وہ ملکی رفتار سے کہیں پچھڑ گئے ہیں، ان پر شک کی نگاہ ہے، دہشت گردی، لو جہاد، گھر واپسی کے طعنے اور طنز کے بعد اب سی اے اے اور این آر سی جیسا قانون بھی تقریباً جاری ہوچکا ہے، جو ان کی پہچان کو کسی گمنامی میں پٹخ دینے اور کہیں کسی بے آب و گیاہ ہندوستانی سرزمین پر پھینک کر ان کا جنازہ پڑھ لینے کی تیاری ہے، جس کی نظیر آسام میں موجود ہے، ڈیٹینشن کیمپس کی حالت دیکھ لیجئے_! عورتوں اور بہنوں کی کیفیت جان لیجیے_! ایمان اور اسلام اب کس ہوا کے رخ پر چل پڑے ہیں، انہیں بھی دیکھ آئیے_ ان تصاویر کو سامنے رکھئے اور پھر عظمت رفتہ پر نوحہ کرتے جائیے_! اس عظمت پر جس وقت پورا ہندوستان ہماری نوک پر تھا، پورے ملک کا چپہ چپہ ہماری مدحت کے نغمے گاتا تھا، ایک بادشاہ جاتا تو دوسرا بھی کوئی مسلمان ہی آتا، اسی دست بوسی ہوتی، حکم نافذ ہوتے، وہی سیاہ و سپید کا مالک ہوتا، یہاں تک کہ عصر حاضر نام نہاد بہادر بھی و جان کش بھی ہمارے سامنے دست بستہ کھڑے رہتے، ان کے شب و روز کا فیصلہ ان ہی درباروں سے جاتا، اور ایک وقت تو یہ بھی آیا جب ہندوستان کے اقتدار پر دنیا کا سب سے عظیم بادشاہ اور سیکولرزم کا حامی شہنشاہ اکبر براجمان ہوا_ ایک دفعہ جاوید اختر نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ہندوستان کے ہر باشندے کیلئے فخر کی بات ہے؛ کہ وہ اکبر کی سرزمین میں پیدا ہوا ہے، وہ دنیا کا پہلا سیکولر بادشاہ تھا، اس نے جودھا بائی سے شادی کی، اپنے دربار میں پنڈتوں کو بھی جگہ دی، اور پورے ہندوستان پر عدل و انصاف کے ساتھ ساتھ ایک عظیم حکومت مغلیہ کی بنیاد ڈالی_*

*اکبر کا حال یہ تھا کہ اس وقت خلافت عثمانیہ کے بادشاہ بھی اس کی قدر کرتے تھے، اور باہم بڑی محبت و مودت کا معاملہ رہتا تھا، ایک دوسرے کو تحائف دینے کا بھی چلن تھا، اس کے بعد ایک نام اور لینا چاہئے! جس کے بغیر عظمت کی داستان ادھوری ہے، یہ الگ بات ہے کہ انہیں دین پسندی اور اسلام. مزاجی کی سزا دی گئی، ان کی زندگی میں اف تک نہ کرنے والے زبان درازی کرتے ہوئے اب انہیں متشدد کہہ کر شخصیت کو مجروح کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ عظیم مغل بادشاہ اور اکھنڈ بھارت کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے والا اورنگ زیب رحمہ اللہ تھے، یہ بھی اس سرزمین کا سب سے نامور اسلامی حکمران یے، بعضوں نے تو انہیں خلیفہ سادس کا لقب دیا ہے، انہوں نے ہندوستان کے مشرق و مغرب کے قلابے ملادئے، بے مثال انصاف قائم کیا اور تاریخ مین سرخرو ہوگئے_ ایسے متعدد نام ہین جن کا تذکرہ کیاجا سکتا ہے؛ لیکن سبھوں پر اب صرف نوحہ کرنے اور سینہ پیٹنے کے سوا کچھ نہیں رہ جاتا، یہ تلوار کے سایہ میں جینے والے اب بھیڑ کے ہاتھوں مار دئے جاتے ہیں، ہندو راشٹر کا خوف دلاکر انہیں بیرون ملک کا کہہ کر ان کے ملکی ہونے کا اعزاز بھی چھین لینا چاہتے ہیں، ۱۸۵۷ کی یورش کے بعد انگریزوں نے مسلمانوں کا استحصال کیا، انہیں ہر میدان سے گم کردیا، ایک برف قد آور شخصیات کو تختہ دار پر چڑھایا گیا یا پھر پس زنداں ڈال کر نیم. جان کردیا گیا، جو بچ گئے انہیں معاشی بحران سے دوچار کر کے سماج میں بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا، مستزاد یہ کہ انہوں نے معاشرتی زندگی میں ہندو مسلم فسادات کروائے، اور ایک دوسرے کو دو محاذ پر کھڑا کردیا، مسلمانوں کی سالہا سال کی حکومت اور ان کے احسانات کے بدلے انہیں دھوکہ اور احسان فراموشی ملی، انگریزوں کی غلامی میں وہ محکوم دیرینہ دشمنی پر آمادہ ہوگئے؛ چنانچہ آزادی ملی لیکن نفرت کا بازار گرم رہا، بلکہ جو برطانوی نہ کرسکے وہ برادران وطن نے کر دکھایا، مگر یہ رونا کب تک؟ کب مسلم. قوم. کو یہ سمجھ میں آئے گا کہ وہ عظیم نسلوں سے تعلق رکھتے ہیں، کاش کوئی پیدا ہوجائے جو پھر سے عظمت رفتہ کو زندگی بخش دے، کوئی صور اسرافیل رکھتا ہو، جس کی ایک صدا میں ملک کے بکھرے دانوں کو تسبیح کہ طرح پرو دے_*

 

✍ محمد صابر حسین ندوی

[email protected]

7987972043

20/11/2020

Comments are closed.