معاشرے کو مدرسۃ البنات کی فارغ التحصیل لڑکیاں بطور بہو کیوں پسند نہيں ؟ ثناءاللہ صادق تیمی

معاشرے کو مدرسۃ البنات کی فارغ التحصیل لڑکیاں بطور بہو کیوں پسند نہيں ؟
ثناءاللہ صادق تیمی
پچھلے چند سالوں میں لڑکیوں کی تعلیم کی طرف رجحان بڑھا ہے اور بلا شبہ یہ ایک اچھی پیش رفت ہے ۔ سچ بھی یہی ہے کہ اگر نصف آبادی غیر تعلیم یافتہ ہو تو معاشرے پر اس کے برے اثرات پڑنے ہی ہیں ۔ بچیوں کی تعلیم کو اہل نظر اس لیے بھی بہت اہمیت دیتے ہیں کہ ایک خاتون کی تعلیم ایک پورے خاندان کی تعلیم سمجھی جاتی ہے ۔ یہ بات ہم میں سے زیادہ تر لوگوں نے سنی ہوگی کہ ایک مرد کی تعلیم ایک فرد کی تعلیم اور ایک خاتون کی تعلیم ایک خاندان کی تعلیم ہوتی ہے ۔ اس تعلیمی پیش رفت کے معاملے میں جہاں اور بہت سے اسباب سےصرف نظر نہيں کیا جاسکتا وہیں ان مدارس کے کردار کو بھی کم نہيں آنکا جاسکتا جو مختلف ناموں سے بنات ملت کی تعلیم وتربیت کا انتظام وانصرام کرتے ہیں ۔
بنات کے ٹرینڈ کو عام ہوئے ایک اتنی مدت گزر چکی ہے اب اس کے سماجی اثرات سامنے آنے لگے ہیں ۔ بہت سی بیٹیاں ان اداروں سے تعلیم لے کر جب سماج میں پہنچتی ہیں تو اپنے ذمے کا کام بھی کرتی ہیں ۔خواتین کے بیچ دعوتی کاز کو آگے بڑھاتی ہیں ، انہیں صوم وصلوۃ کی پابندی اور طریقہ سکھاتی ہیں اور ساتھ ہی عقائد و احکام کی ضروری باتیں ان تک پہنچاتی ہیں لیکن بہت سی ایسی بیٹیاں بھی ہیں جنہیں اپنی ان ذمہ داریوں کا احساس نہیں ہوتا اور معاشرے کو ان سے سوائے اس کے اور کچھ نہیں ملتا کہ ان پر پڑھے لکھے ہونے کا ایک گمان چڑھا رہتا ہے ۔
تعلیم تو انسان کو در اصل خود سےآگاہ کرتی ہے ، اسے اپنی خامیوں سے آگاہ کرتی ہے اور معاشرے کے لیے کارگر فرد بناتی ہے لیکن تعلیم ہی سے مقابلے کا ذہن بھی پیدا ہوتا ہے ۔ جب پڑھ لکھ کر لڑکیاں سماج میں آتی ہیں تو زیادہ تر ان کا ایسی عورتوں سے سابقہ پڑتا ہے جو ان کے معیار کے مطابق نہیں ہوتیں اور یوں وہ ” خاص ” ہونے کے احساس تلے جینے لگتی ہیں ۔ مردہوں یا خواتین جب یہ کیفیت کسی پر سوار ہوگی تو لازما اس کے اثرات بد ظاہر ہوں گے ۔
مدرسۃ البنات کی لڑکیاں ہوں یا عام مدرسوں کے لڑکے نظام تعلیم و تربیت ایسا ہے کہ انہیں عام طور پر سوائے پڑھائی کے اور کچھ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی جب کہ لڑکیوں کو بنیادی طور پر گھریلو کام دیکھنے ہوتے ہیں ، انہیں کھانا بنانا پڑتا ہے اور بچوں کی دیکھ بھال کرنی پڑتی ہے ۔ دیکھا گيا ہے کہ بالعموم مدارس کے فارغین اگر اپنے خاص ماحول سے نہ نکل پائیں تو عملی زندگی کی مشقتوں کے سامنے ڈھیر ہوجاتے ہیں ۔ اب اگرہم بنات کی عالماؤں کی بات کریں تو انہیں بھی ایک مدت اس طرح گزارنی پڑتی ہے کہ انہیں کچھ کرنا نہيں پڑتا ، پھر پڑھنے لکھنے سے انہیں یہ گمان بھی ہونے لگتا ہے کہ وہ کچھ خاص ہیں اور انہيں عام خواتین سے الگ ہونا چاہیے بنابریں ایک طرف کام نہ کرنے کی عادت اور دوسری طرف یہ احساس کہ ہم خاص ہیں ، دونوں مل کر گھریلو کاموں میں ان کی دلچسپی کم کردیتے ہیں ۔یہیں سے ان لڑکیوں کی تعلیم وتربیت پر مامور حضرات و خواتین کے کردار کی اہمیت سمجھ میں آتی ہے ۔ اساتذہ اور استانیوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ تعلیم کے ساتھ ہی بہتر تربیت سے بھی بچیوں کو آراستہ کریں ، ان کا ذہن بنائیں کہ بڑائی کام کرنے میں ہے ، ذمہ داری سنبھالنے میں ہے ، خدمت کرنے میں ہے صرف آرام و راحت میں نہیں !!
جن دنوں میں جامعہ امام ابن تیمیہ میں معلمی کررہا تھا ۔ بہت سے گارجین جن کی بیٹیاں جامعہ امام ابن تیمیہ کے کلیہ خدیجۃ الکبری لتعلیم البنات میں پڑھائی کرتی تھیں ، آتے تھے اور تبادلہ خیالات کا موقع ملتا رہتا تھا ۔ ان کی اکثریت اپنی لڑکیوں کی تعلیمی پیش رفت سے خوش نظر آتی تھی لیکن وہ ان کی اس کی کوتاہی پرکڑھتے تھے کہ لڑکیاں گھریلوکام کرنا ہی نہیں چاہتیں ۔ایک دیہاتی بزرگ نے اپنی زبان میں ایک مرتبہ کہتے کہتے جو کچھ کہا اس کا مفاد یہ تھا : مولانا ، لڑکیاں پڑھ تو رہی ہیں لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ۔ یہاں سے گھر جاتی ہیں تو اچھےاچھے کپڑوں میں ملبوس رہتی ہیں ، کبھی یہ کسی سہیلی کے یہاں جانے کا پروگرام بنارہی ہیں تو کبھی کوئی سہیلی ان کے یہاں آرہی ہیں ۔ گھرکے کام سے مطلب نہیں رہتا اور یوں گارجین کے ناک میں دم رہتا ہے ”
اس پر سے ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ بسا اوقات ان لڑکیوں کو اپنے حقوق کا پتہ ہو جاتا ہے لیکن انہيں اپنی ذمہ داریوں کی عظمت کا احساس نہیں ہو تا۔ بات بات میں اپنے حقوق گنوانے لگتی ہیں ۔ظاہر ہے کہ سیاست میں حقوق کی رٹ اچھی لگتی ہے لیکن حقیقی زندگی میں اصل اہمیت ذمہ داریوں سے ہی جڑی ہوتی ہے ۔کام نہیں کریں گے تو نظروں سے گر ہی جائیں گے پھر اپنے میکے تک تو پھربھی نخرے برداشت کرلیے جائیں گے بلکہ بہت سی مائیں نخرے بڑھانے کا کام بھی کرتی ہیں لیکن سسرال میں تو ساس نند کے آگے ایک نہیں چلنے والی ۔ یہاں تو اچھی اچھی کام کرنے والیوں کو نہيں بخشاجاتا تو جو کام نہ کرنے کی خو کےساتھ آئے اس کا کیا ہوگا ؟
ان باتوں کے ساتھ ساتھ کچھ باتیں اور بھی سچ ہیں اور اس سچ کو قبول کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے ۔ معاشرہ آج بھی خواتین کے معاملے میں کوتاہ نظر ہے ۔ معاشرے کا مسئلہ یہ ہے کہ خواتین سے متعلق ذمہ داریوں کا تو اس کے پاس لمبا چوڑا قائمہ ہے لیکن ان کے حقوق کی بات ہونے لگے تو معاشرے کے لوگ جل بھن جاتے ہیں ۔خواتین کو گھریلو ذمہ داریاں سنبھالنی چاہیے اور اس کے بغیر کوئی چارہ ہوتا بھی کہا ں ہے ؟ لیکن خواتین کو بھی آرام کی ضرورت ہوتی ہے ، انہیں بھی محبت کی ضرورت ہوتی ہے ، انہیں بھی خیال کی ضرورت ہوتی ہے ، ان کے ذہن میں بھی آسائش اور تفریح کا جذبہ ابھرتا ہے اور ان سارے امور کا دھیان رکھنا بھی ضروری ہے ۔ اگر بہو کی صورت میں نوکرانی ہی چاہیے تب تو کوئی مسئلہ ہی نہیں لیکن اگر واقعۃ بہو چاہیے تو مدرسۃ البنات کی لڑکیوں سے آپ یہ توقع تو رکھ ہی سکتے ہیں کہ وہ آپ کی نسل کی بہتر دینی تربیت کرسکیں گی اتنا ہی نہیں بلکہ وہ گھر کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ جنت نشاں بنانے کی صلاحیت سے مالا مال ہوں گی۔ کچھ عالمائیں اگر منفی تصویر پیش کرتی ہیں تو انہيں ہی ذہن میں رکھنا اور اکثریت جو مثبت تصویر پیش کرتی ہیں انہیں نظر انداز کرنا ویسے بھی سمجھداری نہیں ۔پھر اگر معاشرہ تھوڑی سمجھداری اور تحمل سے کام لے تو ان عالماؤں سے گھریلو اور دعوتی دونوں کام بہتر انداز میں لیا جاسکتا ہے ۔ ساس نند کا مزاج ویسے بھی آسمان پر رہتا ہے ورنہ اگر عالمہ بہو کو تھوڑی محبت اور تھوڑا احترام دیا جائے تو وہ گھر کے کاز کرسکتی ہیں اور ساتھ ہی معاشرے میں نیک نامی کاذریعہ بھی بن سکتی ہیں کیوں کہ وہ اپنی تعلیم سےسماج کی خواتین اور نوخيز بچیوں کو بہت کچھ سکھا سکتی ہیں اور جب ایسا ہو تو لازمی طور پر گھرانے کا نام روشن ہوگا ۔
خلاصہ کلام یہ کہ کئی سطحوں پر محنت اور سمجھداری کی ضرورت ہے ؛
1۔ ماں باپ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ بیٹی عالمہ ہونے کے باوجود بہرحال ایک خاتون ہی ہے اور اس کی زندگی میں بھی گھریلو کام کی اتنی ہی اہمیت ہوگی جتنی کسی بھی خاتون کی زندگی میں ہوتی ہے ۔
2 ۔ بیٹی کو ناجائز قسم کے نخروں سے بچانا اور محنت و مشقت کے لیے تیار کرنا ماں باپ کی ہی ذمہ داری ہے ورنہ زیادہ تر ایسے باپ ماں کی لاڈلیوں کو آگے بڑی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
3 ۔ مدارس کے ذمہ داران ، مروخواتین اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ تربیت پر خصوصی توجہ دیں ، لڑکیوں کو بچوں کی تربیت کی اہمیت ، گھریلو کام کاز کی ضرورت اور خاندان کے مقام سےآگاہ کریں اور حقوق سے بڑھ کر ذمہ داریوں کو سمجھانے پر محنت کریں ۔
4 ۔ معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ تعلیم یافتہ خواتین کو ان کے حصے کا مقام دے ، ان کے بھی مشوروں کو اہمیت دے ، ان کی تعلیم سےفائدہ اٹھانے کا ذہن بنائے اور ان کی مجبوریوں کو بھی ذہن میں رکھے ۔
5 ۔ بہت سی چيزیں ناتجربہ کاری کی وجہ سے ہوتی ہیں ، جیسے جیسے تجربے بڑھتے ہیں چيزیں اپنی جگہ پر آجاتی ہیں ۔ اس لیے عالماؤں کے بارے میں بھی جلد بازی درست نہیں ۔ انہیں بھی سیکھنے کے مواقع ملنے چاہیے کیوں کہ تعلیم کے باوجود آخر وہ بھی سماج ہی کا حصہ ہیں اور ایک فرد ہی ہیں اور انسان غلطیوں سے مبرا نہیں ہوتا ۔
Comments are closed.